یہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پولیس کے بارے میں کچھ نہیں کرنا؟ تعلیمی اصلاحات سے کسی نے منع کیا ہے؟ ہسپتال ایسے ہی رہیں یہ کسی کا فرمان ہے؟ مانا کہ معاشی حالات خراب ہیں، ورثے میں بہت کچھ ملا ہے، ایک دن میں یہ حالات ٹھیک نہیں ہوں گے لیکن باقی شعبوں میں کام نہیں ہو سکتا؟ مگر پلے کچھ ہو تو پھر ہی کچھ ہو۔ جب سوچ اور خیال سے ہی عاری حکومت ہو تو پھر اُس سے کیا اُمید لگائی جا سکتی ہے؟
تحریک انصاف کا مسئلہ ہی یہی ہے۔ کوئی آئیڈیاز نہیں، کچھ کرنے کا عزم نہیں ہے۔ معیشت تو بہانہ بنتی جا رہی ہے کہ زبوں حالی ہے کیا کریں۔ معاشی حالات کو بہتر کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ یہ بات مان لی لیکن سارے باقی کام کیوں رُکے ہوئے ہیں؟ کرنے کو بہت کچھ ہے۔ شہروں کی صفائی سے لے کر زراعت کی بہتری تک۔ لیکن کہیں کچھ نہیں ہو رہا کیونکہ بات وہی ہے کہ پلے کچھ نہیں ہے۔ جو اُمیدیں بد حواس قوم نے اِن لوگوں پہ لگائی ہوئی تھیں وہ رائیگاں جا رہی ہیں اور یہ نظر آنے لگا ہے کہ اِن سے مزید امید رکھنا بے وقوفی کا کام ہے۔ لیکن پھر قوم جائے تو جائے کہاں؟
امریکہ میں لوگ پرانی سیاست سے تنگ آئے تو اُنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پہ تکیہ کیا۔ وسیع پیمانے پہ اور مختلف وجوہات سے بیزاری نہ ہوتی تو ڈونلڈ ٹرمپ کبھی بھی امریکہ کے صدر نہ منتخب ہوتے۔ برطانیہ میں حالات سے بے چینی ہوئی تو تقریباً نصف قوم میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ یورپ سے جان چھڑائی جائے۔ یورپی ممالک میں حالات سے بے چینی پیدا ہوئی تو دائیں بازو کی سو چ نے زور پکڑا۔ ایسے تصور سامنے آئے کہ باہر سے آئے پناہ گزینوں نے سب کام خراب کیا ہے‘ اور جب تک اِن کے آنے پہ پابندیاں نہ لگائی جائیں یورپ کے حالات سدھر نہیں سکتے۔ ایسے تصورات اور خیالات سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسفے کو برا بھلا کہا جا سکتا ہے لیکن یورپ اور امریکہ میں حالات کی بے چینی نے نئی سوچ کو جنم دیا۔
حالات تو ہمارے بھی خراب ہیں۔ بے چینی یہاں بھی بہت ہے۔ چار پاکستانی کہیں اکٹھے ہوں تو حالات پہ ماتم کرنا شروع ہو جاتے ہیں‘ لیکن نئی سوچ پیدا کیوں نہیں ہوتی؟ تیس چالیس سال قوم نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی بداعمالیوں اور ریاستی وسائل پہ ڈاکہ زنی کو برداشت کیا۔ ساری قوم میں تو نہیں مگر وسیع طبقات میں یہ خیال آیا کہ کوئی نیا آدمی سامنے آنا چاہیے۔ مڈل کلاس یا جسے ہم ممی ڈیڈی کلاس کہتے ہیں‘ عمران خان کی طرف دیکھنے لگی۔ یہ اُمید پیدا ہوئی کہ وہ ایسے آدمی ہیں کہ اگر اقتدار میں آئے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور پاکستان کی ڈولتی کشتی سنبھل جائے گی۔ لیکن یہاں کچھ اور ہی ہوا ہے۔
دوسروں کو حمام میں بے نقاب ہوتے کچھ وقت لگا۔ نواز شریف آہستہ آہستہ ایکسپوز ہوئے۔ لیکن یہ تحریکیے ایسے نکلے کہ اِن کی مجموعی نااہلی آٹھ نو ماہ میں آشکار ہو چکی ہے۔ یہ عرصہ اتنا زیادہ نہیں لیکن اتنا کم بھی نہیں کہ اندازہ نہ لگایا جا سکے کہ تحریکیے کتنے پانی میں ہیں۔
معاشی حالات تو خراب تھے ہی اور قوم کے بیشتر حصے کو عندیہ تھا کہ حالات مزید خراب ہوں گے لیکن قوم کا رونا مہنگائی یا روپے کی بے قدری سے زیادہ اس بات پہ ہے کہ یہ نئے آنے والے لوگ سوچ اور قابلیت سے بالکل خالی ہیں۔ ناامیدی اگر پھیل رہی ہے تو وہ معاشی حالات سے زیادہ اس امر سے ہے۔ قوموں پہ تو بہت کچھ گزرتی ہے۔ اس وقت بھی ہمارے سامنے، اور تو چھوڑئیے، کئی مسلمان ممالک ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پہ تباہی سے دوچار ہوئے ہیں۔ عراق اور لیبیا کو لے لیجیے۔ شام میں سالہا سال سے خانہ جنگی جاری ہے اور اب جا کے بشارالاسد کی فوجیں کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہیں۔ افغانستان کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ پچھلے چالیس سال میں وہاں کیا کچھ نہیں ہوا اور فی الوقت بھی وہاں جنگ جاری ہے۔ ہمارے حالات ایسے تو نہیں رہے۔ دہشت گردی کے ہم شکار رہے، کچھ اوروں کے کرنے سے کچھ اپنی نالائقیوں کی وجہ سے۔ بہت سی تباہ کن فصلوں کے بیج ہم نے خود بوئے۔ لیکن اس کے باوجود ملک قائم ہے، کسی خانہ جنگی کا شکار نہیں۔ افواج ہماری مضبوط ہیں‘ اور دہشت گردی کا انہوں نے کامیابی سے مقابلہ بھی کیا ہے۔ لیکن قوم میں بے چینی حکمرانی کی سمت کی وجہ سے ہے۔ قوم اپنے لیڈروں سے مایوس ہے۔ پہلے والوں کو آزما چکی اور اُن سے امید اُٹھ گئی۔ ایک تکیہ تھا کہ نئے آنے والے سب کچھ ٹھیک کر دیں گے اور وہ بھی چند ماہ میں ایسے نکلے کہ امیدیں خاک میں ملتی جا رہی ہیں۔
رونا صرف یہاں تک ہوتا کہ ایک ڈالر ڈیڑھ سو روپے میں بک رہا ہے وہ تو کچھ بات نہ ہوتی۔ کئی ممالک اس سے بد ترین معاشی حالات سے گزرے ہیں۔ اگر آج روپیہ بے قدر ہو کے رہ گیا ہے تو کل اس کی حالت بہتر بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن رونا کسی اور بات پہ ہے کہ لگتا نہیں کہ ان نئے آنے والوں کے پاس کچھ ہے اور قوم کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت وہ رکھتے ہیں۔ مایوسی اس بنا پہ بڑھتی جا رہی ہے۔
شروع میں تو تحریکیوں کے حامی ایسے تھے کہ ذرا سی تنقید برداشت کرنے کے حامل نہ ہوتے۔ تنقید ہوئی اور وہ نہ صرف بپھر گئے بلکہ گالیوں تک آن پہنچے۔ تکرار اُن کی یہ ہوتی کہ تھوڑا وقت تو دیں، پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ لیکن خان اور اُن کی ٹیم کی کارکردگی ایسی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ جوشیلے سے جوشیلے حامی ٹھنڈے پڑتے جا رہے ہیں۔ کہنے کو ان کے پاس کچھ نہیں رہا‘ تو پھر وہی سوال، کہ قوم کہاں جائے؟ پہلے والوں کو تو آزما چکے، موجودہ بھی نکمّے نکلے تو اس سے آگے کس کی تلاش کریں اور کس پہ بھروسہ کیا جائے؟ قوم کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ آگے کی منزلیں ہیں کیا اور وہاں تک کاروان کو لے کے جائے گا کون سا امیر۔
یوں تو کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت میں عرصہ پورا ہونا چاہیے۔ اور یہ بات ٹھیک بھی ہے۔ آصف زرداری کی حکومت کے پانچ سال مکمل ہوئے تو تب ہی پیپلز پارٹی مکمل طور پہ بے نقاب ہوئی۔ بہانے اور عذر سب ختم ہو گئے۔ کسی مزید بہانے کی گنجائش نہ رہی۔ نواز شریف یا اُن کی حکومت کے پانچ سال مکمل ہوئے تو تب ہی اُن کا سارا کچا چٹھا قوم کے سامنے آیا۔ نہیں تو اُس سے پہلے ہم نون لیگ کے پنجاب میں رہنے والے حمایتی فرطِ جذبات میں یہ کہتے تھے کہ میاں صاحب کو پورا ٹائم نہیں دیا جاتا۔ دیا جائے تو پتا نہیں وہ کیا گل کھلائیں۔ دو مرتبہ اُن کی حکومت کا عرصہ مکمل نہ ہوا اور یہ عذر برقرار رہا۔ تیسری بار عرصہ مکمل ہوا تو تب ہی یہ عذر ختم ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ جاتی امرا کے شیروں کی دھاڑیں ماند پڑ چکی ہیں۔ وہاں سے کوئی معمولی سی آواز بھی نہیں آ رہی۔ اسی لئے کہ سب بہانے ختم ہو گئے۔
یہی دلیل تحریکیوں کے حق میں دی جا سکتی ہے کہ انہیں بھی عرصہ مکمل کرنے کی گنجائش ملنی چاہیے۔ یہی جمہوریت کا تقاضا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن پھر بھی سوال اُٹھتا ہے کہ سیاسی اُفق پہ متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ تب ہی منتخب ہوئے جب اُن سے پہلے صدر کی میعاد ختم ہوئی‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اکھاڑے میں تو آ چکے تھے۔ اس وقت پاکستانی اکھاڑے میں کون سا نیا شاہسوار نظر آ رہا ہے؟ یہ بات طے ہوتی جا رہی ہے کہ حالات پہ سنبھالا پانا عمران خان کے بس کی بات نہیں۔ بڑے شاندار کرکٹر تھے، شوکت خانم بھی انہوں نے بنایا لیکن وقت اور تجربہ ثابت کر رہا ہے کہ حکمرانی کی صلاحیت کم و بیش نہیں رکھتے۔ لیکن قوم کی نظروں کے سامنے اورکون ہے؟ کون سے ڈھول ہیں جن کی آواز کہیں دور سے آ رہی ہے؟ اور چونکہ کچھ نظر نہیں آ رہا اور کچھ نیا سنائی نہیں دے رہا، پاکستانی قوم تذبذب اور مایوسی کا شکار ہے۔