سوچنے کا مقام ہے اورحیرانی کا بھی کہ جنہوں نے لمبالمبااقتدار کیا وہ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ملک بھر میں کوئی چڑیا بھی نہیں پھڑک رہی ۔ آصف زرداری اسلام آباد کے اردگر د ہی بند ہیں ۔ چھوٹاموٹا ہی احتجاج ہوجاتا‘ لیکن نہ پارٹی میں دم ہے‘ نہ عوام میں کوئی اُن کیلئے ہمدردی ۔میاں نوازشریف کسی بلوچستان کی جیل میں قید نہیں ۔لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ایام ِ اسیری گزاررہے ہیں۔ ایک زمانے میں کوٹ لکھپت لاہور کے باہر تصور کیاجاتاتھا۔ اب تو شہر کے عین وسط میں ہے ‘لیکن وہ بند ہیں اور شہر کی زندگی جیسے بھی ہے‘ چل رہی ہے ۔ ٹریفک میں ایک دن بھی اُن کی گرفتار ی کی وجہ سے خلل نہیں آیا۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے تو جنرل ضیا الحق کی حکومت کو کافی پریشانی لاحق رہی ۔ بڑا احتجاج پیپلزپارٹی والے نہ کرسکے‘ لیکن بھٹو کی گرفتار ی اورمقدمے کی وجہ سے اس وقت کی حکومت کے اعصاب پہ خاصا دباؤ رہا۔ اب یہ سابقہ ادوار کے حکمران کرپشن کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں یا انہیں سزاہوگئی ہے‘ لیکن حکومت ِ وقت ‘یعنی پی ٹی آئی حکومت‘ کو ذرہ برابر بھی پریشانی نہیں۔ ایسا لگتاہے جیسے اعصاب پہ تناؤ ہے ہی نہیں۔ حکومت کو پریشانیاں اوروجوہات سے ہیں ۔ خاص طورپہ معاشی صورتحال کی وجہ سے ۔ لیکن لیڈران کی اسیری کی وجہ سے قطعاًنہیں۔
اقتدار میں کیسے اتراتے تھے ۔ لگتا تھا انہیں مصیبت کبھی نہ آئے گی اوران کا سورج کبھی نہ ڈھلے گا ۔ جائیدادیں قائم ہیں ۔بینک کھاتوں پہ کسی نے قبضہ نہیں کیا‘ لیکن حالت دیدنی ہے ۔ اگلوں نے آرام سے اندر کردیا۔ کچھ تو احتجاج ہوتا‘ کچھ ہنگامہ برپا ہوتا۔لیکن کچھ بھی نہیں۔ یہ تو وہی ہوا جو ہمارے معزز مولوی صاحب کے ساتھ ہوا۔ دھمکانے پہ اترے تو بڑے سے بڑوں کو دھمکا دیا اوروہ بھی اس انداز سے کہ سننے والوں پہ لرزا طاری ہوگیا۔ لیکن جب اُن کا بھی وقت پورا ہوا اوراگلوں نے اندر کردیا اورایامِ اسیری کچھ لمبے ہوگئے تو بھرے غبارے سے تمام ہوا نکل گئی ۔ا ب ایسے معلوم ہوتاہے ؔ‘جیسے کچھ تھا ہی نہیں ۔
معاشی حالت ٹائٹ ہے ‘اس میں کوئی دورائے نہیں ۔ مہنگائی کا طوفان ہے یا حملہ ہے ۔ ماسوائے اونچے طبقات کے جن کی عیاشیاں نہیں تھم رہیںباقی سب لوگ اس کی زد میں ہیں۔ ایسے میں تو شورش کا میدان گرم ہونا چاہیے تھا ۔ لیڈروں کی ایک کال ہوتی اورعوام سڑکوں پہ ہوتے ۔ حال ہی میں ہم نے ہانگ کانگ میں احتجاج دیکھاہے ۔ وہ ایک مجوزہ قانون کے خلاف تھا ۔لوگوں کا سمندر سڑکوں پہ اُمڈآیا۔ ایک روز دس لاکھ لوگ ہانگ کانگ کی سڑکوں پہ چل رہے تھے ۔ دوسرے روز اس سے بھی زیادہ ۔ دس لاکھ کہنا آسان ہے ۔ہمارے ہاں اڑھائی ہزارکا مجمع ہو اسے ہم لاکھوں میں بیان کردیتے ہیں۔ لیکن ہانگ کانگ کے احتجاج میں ایسا مبالغہ نہیں تھا۔ واقعی لوگوں کی بڑی تعداد احتجاج میں شریک ہوئی ۔ یہاں تو کچھ ہے ہی نہیں۔ ہم ٹی وی والے اپنے پروگراموں میں شام کو بیٹھتے ہیں تو اچھے خاصے مقررین بن جاتے ہیں اورجو سیاسی لیڈروں کاکام ہے‘ یعنی مکے لہرانا اوراونچی بات کرنا وہ کسر ہم پوری کردیتے ہیں۔ لیکن یہ طوفان ہمارے چینلوں کی پیالیوں تک محدود ہوتاہے ۔ باہر دیکھنے کو نہیں ملتا۔
اس صورتحال کی وجہ یہ نہیں کہ عوام مرگئے ہیں یا اُن میں دم خم نہیں رہا ۔اصل وجہ یہ ہے کہ یہ جو لیڈر اندر ہیں ان کے کرتوت اورکارنامے عوام دیکھ چکے ہیں ۔ ان کے کہنے پہ تو کوئی احتجاج ہونے کو نہیں ہے ۔ حمزہ شہباز انگلی ہلائے گا تو لاہور کی مال روڈ بھر جائے گی ؟عوام پہ بے وقوفی کا طعنہ لگایا جاسکتاہو گا‘ لیکن پاکستانی عوام کی بے وقوفی اس حد تک بھی نہیں پہنچی ۔ ہم چینلوں کے افلاطون ہیں کہ قیاس کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اورنون لیگ مل جائیں اورمولانا فضل الرحمان کا تڑکا بھی لگ جائے توپتا نہیں کون سا انقلابِ فرانس آجائے گا ۔ خدا کی پناہ...حضرت مولانا اور یہ دیگر رہنما‘ ان کے کہنے پہ لوگ باہر آئیں گے ؟
سچ تو یہ ہے کہ لوگ اُکتا چکے ہیں ‘ کچھ اپنے حالات سے کچھ بگڑی قسمت کے دئیے ہوئے ان لیڈروں سے ۔ عمران خان اپنے حلقہ ٔاثر میں اب بھی پاپولر ہیں‘ لیکن اپنے حلقہ ٔاثر سے باہر نہیں۔ ایک بہت بڑاطبقہ ہمارے عوام کا ہے جو اُن کی صلاحیتوں کا شاکی ہے ۔ یہ حلقے ا ن کی حکمرانی کے جوہر سے اب تک متاثر نہیں ہوسکے ۔ لیکن عمران خان کو جو فائدہ جارہاہے وہ یہ ہے کہ لوگ پرانی شکلوں سے تنگ آچکے ہیں۔ نیب کی کارروائیاں سست ہوں گی‘ لیکن وسیع تر عوامی حلقوں کو قطعاً کوئی شک نہیں کہ ان دو بڑی پارٹیوں کے لیڈران بڑے پیمانے پہ لوٹ مار میں ملوث رہے ہیں۔ ان کی دولت ان کو مبارک ہو ۔ شاید اس دولت کا تھوڑا سا حصہ بھی ان سے ضبط نہ کیاجائے ۔ لیکن جب ایسا تاثر پھیل چکاہو تو پھر آپ عوامی قیادت قسم کی چیز نہیں کرسکتے ۔ لو گ آپ کے کہے پہ یقین نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی ستم سابقہ لیڈر شپ کلاس پہ گررہے ہیں عوام لاتعلق ہیں۔
جس کا یہ مطلب نہیں کہ عمران خان کو کسی قسم کی کھلی چھٹی ہے ۔معاشی حالت ایسی رہی اورزیرک وزرائے کرام کے بیانات ہی سننے اورپڑھنے کوملیں تو عوامی اکتاہٹ ایک اورکروٹ لے گی اورلوگ ان سے بھی بیزار ہوجائیں گے۔ لیکن قابل ِ غور نکتہ یہ ہے کہ لوگ پھر بھی ماضی کی طرف نہیں لوٹیں گے ۔ اپنی امیدیں سابقہ حکمرانوں کے ساتھ نہیں باندھیں گے ۔وہ پھر کسی اور طرف ہی دیکھیں گے ۔ یورپ اور امریکا میں ایسا ہوا ہے ۔ نئی نئی سیاسی قوتیں سامنے آئی ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ خود ایسی نئی صورتحال کی علامت ہیں ۔ یورپ میں کتنے ہی ممالک ہیں جہاں نئی سوچ اورنئی پارٹیاں سامنے آئی ہیں ۔ بس‘ ہم ہیں کہ پرانی دلدلوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ میری جنریشن کے لوگ ان پرانی پارٹیوں کے نام سن سن کے بوڑھے ہوچکے ہیں۔ کوئی نئی چیز ہمارے سامنے آئی ہی نہیں۔ ہاں ‘عمران خان ایک نئی تبدیلی کی نشانی تھے ۔ لیکن یہ بھی حالات کے تقاضوں پہ پورا نہیں اُتر رہے ۔ ان کی للکار تو اب بھی ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھی۔ لیکن اندازِ حکمرانی میں جس برق اورولولے کی توقع تھی وہ دیکھنے میں نہیں آئی۔ بہرحال شروع کے دن ہی ہیں ۔ وقت اِ ن کے پاس ہے اور جنہیں ہم مقتدرہ حلقے کہتے ہیں وہ اُن کے پیچھے کھڑے ہیں۔
یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ گرفتاریاں ہورہی ہیں اورنیب کی کارروائیاں بھی جاری ہیں ‘لیکن سابقہ ادوار کے حکمران بے بس ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں عوامی تحریکیں تبھی اُٹھیں جب مقتدرہ حلقوں اورحکومتوں میں دراڑ پیدا ہوئی‘ یعنی تحریکوں کے عوامل کو ہوا کہیں اورسے ملتی تھی اورپھر جب تحریکیں زور پکڑتیں تو حکومتیں اُن کے سامنے بے بس ہوجاتیں۔ ایسی صورتحال بہرحال اب نہیں ہے ۔پی ٹی آئی حکومت اورمقتدرہ قوتوں میں کوئی دراڑ نہیں ۔ اور ہوبھی کیوں ۔ عمران خان کی حکمرانی میں کچھ کمی بھی ہے توطاقتور حلقے انہی سے گزارا کریں گے ۔ اور کوئی متبادل نہیں۔
ہاں پریشانی کے عالم میں کئی لوگ مصر کا حوالہ دے دیتے ہیں کہ دیکھیں وہاں کیا ہوا ۔ منتخب حکومت تھی اوراُس کا حشر کیا کیاگیا۔ لیکن پاکستان مصر نہیں۔ جو چیزیں مصر میں ہوئیں ‘وہ وہاں کے حالات کے مطابق تو ہوں گی ہمارے حالات میں فٹ نہیں ہوتیں۔ ہمارامزاج اور ہے۔ لولی لنگڑی جمہوریت ہی سہی ‘لیکن جمہوری روایات یہاں مضبوط ہیں ۔ جس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا مزاج انگلستان کے مزاج جیسا ہے ۔ ہرگز نہیں ‘ لیکن جو ہتھکنڈے عرب دنیا میں معمول رہے ہیں وہ یہاں نہیں چل سکتے۔
ہمارے ہاں آمریتیں بھی آئی ہیں‘ لیکن ماسوائے جنرل ضیا الحق کی آمریت کے باقی آمریتیں عرب حکمرانی کی طرز پہ کبھی نہ تھیں ۔ یہاں کے لوگ آمریتوں سے بھی جلد اُکتا جاتے ہیں ۔اس لئے ایسا ہی چلے گا ۔ جو پابندِ سلاسل ہیں ‘وہ ویسے ہی رہیں گے ۔اب کی بار چھٹکار ا نہیں ۔ جیسا کہ وزیراعظم نے کہا: پیسہ اُگلیںتوکچھ رعایت ملے گی ‘ ورنہ نہیں۔ مہنگائی کے خلاف عوام چیخ بھی نہیں رہے‘ صرف کُڑھ رہے ہیں ۔اگلے دوتین سال بہت مشکل کے ہوںگے اورعوام کا کُڑھنابھی جاری رہے گا۔