باقی چیزیں بعد کی ہوتی ہیں ۔ایسا تو لیڈر نہ ہو جو باہر جاکے بونگیاں مارے یا اُس کی حرکا ت ایسی ہوںکہ پاکستانیوں کو شرم محسوس ہو۔ وہ منظر بھولنے والا نہیں‘ جب نواز شریف صدر باراک اوبامہ سے اوول آفس میں ملنے گئے اوراُن کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے ۔ کاغذوں کی تھدّی ہاتھ میں اُٹھائی ہوئی تھی اوراُن کاغذوں کو آگے پیچھے کررہے تھے ۔ رسمی سی ملاقات تھی اورچند جملے ہی انہوں نے ادا کرنے تھے ‘لیکن کاغذوں کی مدد کے بغیر وہ مشق اُن سے ہونہیں رہی تھی ۔ کئی اور لیڈر بھی ہیں‘ جن کی مثالیں دی جاسکتی ہیں‘لیکن ماضی کی ان تلخ یادوں کو جانے دیجیے۔
حاسدوں اورنقادوں کی زبانیں تو بند نہیں ہوسکتیں‘ لیکن جوکوئی بالکل مخالفت میں غرق نہیں اُسے ماننا پڑے گا کہ عمران خان میں وہ چیز تو ہے ‘جسے انگریزی میں ( dignity)کہتے ہیں۔ لگتے بھی ٹھیک ہیں اوربات بھی اعتماد اورتحمل سے کرتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی کہنا پڑا کہ پاکستانی وزیراعظم بڑے اتھلیٹ رہے ہیں اوراپنے ملک میں ہر دلعزیز ہیں۔ ظاہر ہے کہ نون لیگ اورپی پی پی کی صفوں میں ہر دلعزیز نہیں ہوں گے‘ لیکن ہیں تو منتخب وزیراعظم اوران کے پیچھے اپنا وسیع حلقۂ اثر بھی ہے ۔ یہ جو پاکستانیوں سے بھراسٹیڈیم والا جلسہ تھا یہ اور کتنے پاکستانی لیڈر وں کو نصیب ہوا۔ بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی جب اپنے پہلے دورہ ٔامریکہ پہ گئے تو انہوں نے ایسے جلسے سے خطاب کیا اورپھر اب عمران خان نے ایسا ہی کیاہے ۔ اگر جلسے میں عمران خان نے کرپشن اورپاکستان کے سابقہ لیڈروں کو آڑے ہاتھوں لیا تو اسے کوئی اتنا بڑا عیب نہیں سمجھنا چاہیے۔ کم ازکم صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو یہ بات سمجھیں گے ۔ وہ تقریباً ہر ہفتے کہیں نہ کہیں جلسے سے مخاطب ہوتے ہیں اور اپنے ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ اُ ن کی سیاست کا تو راز ہی یہی ہے کہ اپنا حلقہ ٔاثر کو مضبوط رکھو اور مخالفین کے لیے کوئی گنجائش نہ چھوڑو۔ اگر ‘عمران خان نے بھی یہی کیا ہے‘ تو واشنگٹن کے موجودہ سیاسی موڈ کے مطابق ہی کیاہے ۔
میں ذاتی طورپہ سمجھ رہا تھا کہ اس دورے میں کشمیر کا ذکر کرنا فضول بات ہوگی۔اس خیال کا اظہار اپنے ٹاک شو میں بھی کیا ‘ لیکن ہم جیسوں کو عمران خان نے غلط ثابت کردیا ۔ کھل کے کشمیر کی بات کی اور ڈونلڈٹرمپ کو مخاطب ہوکے کہا کہ آپ کا ملک دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے۔ آپ اس مسئلے کے حوالے سے پیش رفت کرسکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے ثالثی کے لیے کہا جائے تو ضرور کروں گا۔ یاد نہیں پڑتا کہ ماضی میں کسی امریکی صدر نے ایسا کہا ہو۔ بجا طورپہ ان الفاظ کو ہندوستان میں اچھا نہیں لیاجارہااوروہاں سے تو باقاعدہ بیان جاری ہواہے کہ ہم نے امریکہ سے ثالثی وغیرہ کی کوئی بات نہیں کی ۔
کہاں ہندوستان کی کوششیں کہ پاکستان کو اکیلا کرنا ہے اور دہشت گردی کا اسے مورد ِالزام ٹھہرانا ہے اور کہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ الفاظ ۔ اس کے ساتھ وائٹ ہاؤس کی جو پریس ریلیز آئی ہے اُس میں کہاگیاہے کہ پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ بات چیت میں اُن اقدام کا ذکر کیاگیا‘ جن سے خطہ ٔ جنوبی ایشیا میں امن کے امکانات زیادہ بہترہوں۔ یہ الفاظ بھی ہندوستان کیلئے زہر کی مانند ہیں۔ جنوبی ایشیا کا مطلب ہندوستان اور پاکستان ہے اورہندوستان نے کبھی یہ گوارانہیں کیا کہ پاکستان کو اس کے ساتھ کسی حوالے سے بھی ملایاجائے ۔
تمام آثار گواہی دیتے ہیں کہ اس دورے کا محور افغانستان کی صورتحال ہے۔ دونوں لیڈران کی بات چیت میں بھی افغانستان کا ذکر ہوا اور میڈیا کے سامنے بھی اس کا ذکر آیا۔ پاکستان کے کردار کو اچھی نظروں سے دیکھا جارہاہے اورکہیں بھی افغانستان کے حل کے تناظر میں بھارت کا کوئی ذکر نہیں۔ ایسا کسی دانستہ سازش کے نتیجے میں نہیں ہے‘ زمینی حقائق ہی ایسے ہیں۔ امریکیوں کو افغانستان کے نکلنے میں مدد ملنی ہے تو اس میں اہم کردار پاکستان کا ہی ہوسکتاہے ۔ امریکی بھی یہ سمجھتے ہیں اور امریکی حکام میں یہ سوچ بھی پیدا ہورہی ہے کہ عمران خان کی افغانستان کے حوالے سے سوچ ماضی سے مختلف ہے ۔ جن ماضی کی فرسودہ پالیسیوں سے پاکستان کو نقصان پہنچاہے اس کے علمبردار عمران خان نہیں۔ موجودہ فوجی قیادت کی بھی یہی سوچ ہے اوراس سے اورزیادہ مثبت بات کیا ہوسکتی ہے کہ واشنگٹن میں پاکستانی وزیر اعظم اور فوجی سربراہ ایک ہی زبان بول رہے ہیں ۔
امریکہ یا کسی اور ملک کا دورہ ‘ دورہ ہی ہوتاہے پہلوانی کا دنگل نہیں۔ اچھے لیڈران ہوں تواچھا تاثر چھوڑتے ہیں ‘ جہاں ممکن ہو‘ مضبوط رشتے بناتے ہیں اور جو فائدہ ہوسکے وہ سمیٹتے ہیں‘پھر اپنے ملک واپس لوٹتے ہیں تو روزمرّہ کی حقیقتوں کا سامنا جاری رہتاہے۔ موجودہ دورے کے حوالے سے پاکستان کا اچھا ہی تاثر امریکہ میں بنے گا۔ اب تک تو ہمارے تعلقات خراب سے خراب تر ہوگئے تھے ۔ امریکی ہمیں صحیح نظروں سے دیکھتے ہی نہیں تھے اورجہاں تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے‘ انہوں نے تو اس سال کے شروع میں اپنے مشہور ٹویٹر پیغام میں کہا تھا کہ پاکستانی دھوکے باز اور دغا باز ہیں۔ امریکہ انہیں امداد دیتا رہا‘ لیکن انہوں نے اس کا الٹا صلہ دیا۔ قطع نظر اس کے کہ ہمیںصدر ٹرمپ کے یہ خیالات اچھے نہ لگیں ‘اُن کی سوچ تو بہرحال ایسی ہی تھی ‘ لیکن اس دورے کے بعد اُن کے خیالات یقینا ایسے نہ رہیں گے ۔ ہندوستان سے دوستی امریکہ کی کم نہ ہوگی ‘لیکن ایسا بھی نہیں ہوگا جیسا ماضی میں تھا کہ پاکستان کو یکسر نظر انداز کیاجائے یا اُسے دہشت گردی کا موجب اورگہوارہ سمجھاجائے ۔ اب وہ حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ جب تک ڈونلڈٹرمپ اور عمران خان اقتدار میں ہیں تو اُن میںروابط رہیں گے ۔ اس سے پہلے تو بات چیت کے امکانات ہی نہیں تھے ۔ اب ایک نیا باب شروع ہوسکے گا اوراس دورے کے حوالے سے یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔
ہمارے اندرونی مسائل اپنے ہیں اوروہ رہیں گے ۔ یہ ہماری بھول ہے کہ کوئی ایک ملک آکے ہمارے سارے مسائل حل کردے گا۔ ہمارے چین کے ساتھ قریبی روابط ہیں لیکن نہ چین نہ سعودی عرب نہ کوئی اورہمارے مسائل حل کرسکتاہے ۔ وہ ہم نے خود ہی کرنے ہیں‘ لیکن ہمارے تعلقات ہر اطراف اچھے ہونے چائیں۔ یہ ہماری تاریخی کامیابی ہے کہ ہمارے تعلقات چین سے بھی رہے ہیں اورامریکہ سے بھی ۔ اس کا مکمل فائدہ ہم نہ اٹھا سکے‘ یہ علیحدہ بات ہے ۔اس میں اوروں سے زیادہ قصور ہماراہے ۔ روس سے بھی بہتر تعلقات استوار ہونے چائیں ۔ اگر‘ عرب ممالک سے ہمارے تعلقات اچھے ہیں تو ایران سے بھی اچھے ہونے چائیں۔ ان کی آپس کی لڑائیوں میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اورہماراجھکا ؤ بھی کسی ایک طرف نہیں ہونا چاہیے۔ ماضی قریب میں امریکہ نے ہمارے لیے دروازے بند کردئیے تھے‘ لیکن اس دورے کے بعد ایسی صورتحال قائم نہیں رہے گی ۔ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتاہے‘ لیکن بے عزت ہوکے نہیں ۔ وہ ایک ایسا معاہدہ چاہتاہے ‘جس میں ان کی فوجیوں کا انخلا ایک ٹائم ٹیبل کے تحت بتدریج ہو اورساتھ ہی جنگ بندی ہو اورایک وسیع البنیاد قائم مقام حکومت قائم ہو ۔ ظاہر ہے‘ ایسی حکومت میں طالبا ن کا بڑا حصہ ہوگا‘ لیکن دیگر فریقین کو بھی شامل کرنا پڑے گا‘نہیں تو افغانستان کا مستقبل پھر خانہ جنگی کی نذر ہوجائے گا۔ ہمارا صرف فائدہ ہی نہیں‘ بلکہ بھلائی بھی اسی میں ہے کہ ایسا ہی معاہدہ افغانستان میں ہو ۔وہاں کے حالات کا اثر پاکستان پہ ہوتاہے اوراس کے نتائج ہم بھگت چکے ہیں۔ پاکستان میں ہر لحاظ سے استحکام آنا ہے تو اس کے لیے افغانستان میں امن ضروری ہے ۔
ساتھ ہی ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی بھی اہمیت ہے ۔ عمران خان نے تو ایک سے زائد مرتبہ واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے وہ خواہاں ہیں‘ لیکن بہتری ایک باعزت طریقے سے چاہتے ہیں۔ اس دورے کے بعد امریکہ میں پاکستان کو ذرا بہتر سمجھنے کے مواقع پیدا ہوں گے ۔ ایک یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ پاکستان میں طاقت کے مراکز میں کوئی نفاق نہیں ۔ دونوں کلیدی اطراف ایک ساتھ چل رہے ہیں ۔ دُوم یہ خیال بھی پختہ ہوگا کہ پاکستان افغانستان امن معاہدے کے لئے نیک نیتی سے کام کررہاہے ۔ اتنا کچھ ایک دورے کے نتائج کافی نہیں؟