وہی ملک ہے وہی اس کے مسائل۔ چند ماہ ہی ہوئے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ انہوں نے تو سرٹیفکیٹ جاری کر دیا تھا کہ پاکستان ایک دھوکے باز ملک ہے، دکھاوے کا اور‘ اورکرنے کا کچھ اور۔ اب اچانک ہر چیز بدلتی نظر آتی ہے۔ پاکستان بھی اچھا لگنے لگ گیا ہے اور اس کے وزیر اعظم کی بھی خوب پذیرائی ہوئی۔ کون سی نئی بات آ گئی جس سے یہ تبدیلی نظر آنے لگی ہے؟ ایک ہی نئی چیز ہوئی ہے کہ پاکستان کا سربراہ ایک اور آدمی ہے۔ پذیرائی اُس کی ہوئی، نئے انداز سے اُسے دیکھا گیا اور اِس کی وجہ سے ملک کی بھی عزت افزائی ہوئی۔
وہ بھی پاکستانی لیڈر تھے جنہیں واشنگٹن میں دیکھ کے شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ ظفراللہ جمالی یاد آتے ہیں۔ آج بھی اُن کی وائٹ ہاؤس آمد کی ویڈیو دیکھ لیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ جنرل مشرف کی آؤ بھگت ہوتی تھی لیکن صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے امریکی مطالبات کیا اُس سے زیادہ بھی مان لیے تھے۔ نواز شریف کا تو ذکر ہی نہیں کرنا چاہیے۔ بارک اوبامہ کے ساتھ اوول آفس میں بیٹھے تو کاغذوں کی تھدّی کو انگلیوں میں ہلاتے رہے۔ کاغذوں کی مدد کے بغیر چار جملے اُن کے لئے ادا کرنے مشکل تھے۔ لیکن اس بار دیکھیے: اوول آفس میں ملاقات کے بعد میڈیا کے حوالے سے دو تین سوالات ہی پوچھے جاتے ہیں‘ لیکن یہاں باقاعدہ پریس کانفرنس ہو گئی اور چلتی ہی رہی۔ اِس دوران صدر ٹرمپ کشمیر کے حوالے سے وہ بھی کہہ گئے جس کی قطعاً کسی کو توقع نہ تھی۔ عمران خان نے کشمیر کا ذکر چھیڑا اور صدر ٹرمپ نے کہا کہ اُنہیں کہا گیا تو وہ ثالثی کے لئے تیار ہوں گے۔ ایسی بات کبھی کسی امریکی صدر نے نہیں کہی۔ بجا طور پہ ہندوستانی سر پیٹ رہے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔
عمران خان نے وہاں کوئی توپیں نہیں چلائیں، اوٹ پٹانگ کے وعدے نہیں کیے۔ صرف بااعتماد اور باعزت طور پہ صدر ٹرمپ سے ملے اور اُن سے بات کی۔ تو فرق کس بات میں ہے؟ کون سی انہونی اب ہوئی جو پہلے نہ تھی؟ صرف ایک چیز کا فرق ہے، شخصیت کا۔ عمران خان پہ لاکھ کوئی تنقید کرے، اُن کی کارکردگی میں خامیاں نکالے لیکن حاسدوں کو چھوڑ کر یہ ماننا پڑے گا کہ اُن کی شخصیت ہے اور اُن میں وہ کوالٹی ہے جسے انگریزی میں کیرِزما (charisma) کہتے ہیں۔ بارک اوبامہ کے سامنے بیٹھے نواز شریف کسی ملک کے وزیر اعظم لگ ہی نہیں رہے تھے۔ وہ تو کسی پاکستانی دفتر میں جیسے کوئی بیچارا سائل بیٹھا ہو‘ ایسے لگ رہے تھے۔ انہوں نے کسی کو متاثر کیا کرنا تھا۔ بہرحال متاثر کرنے کیلئے کچھ زبان سے ادا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اُن کے منہ سے تو الفاظ ہی نہیں نکل رہے تھے۔ تو پاکستان کی نمائندگی وہاں ہونی کیا تھی؟ نون لیگیوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو گی لیکن دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ ایسا ہے یا نہیں۔ مخالفت اپنی جگہ۔ بڑے بڑے لیڈروں کے مخالف ہوتے ہیں۔ عمران خان میں کمزوریاں بھی بہت ہیں۔ تنقید پہ کوئی آئے تو بہت سی تنقید ہو سکتی ہے۔ لیکن جہاں بات ماننی پڑے وہاں ماننی چاہیے۔ واشنگٹن میں انہوں نے اپنے آپ کو عزت اور وقار سے پیش کیا۔ اور وہ ایسا کر سکتے تھے کیونکہ اُن کے پاس شخصیت کی خوبی ہے۔ اُن میں کشش بھی ہے۔ وہ جو تصویریں آئی ہیں کہ عمران خان ٹرمپ اور اُن کی اہلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ملانیا بڑے خوشگوار موڈ میں مسکرا رہی ہیں، چاہے کسی پاکستانی کا تعلق نون لیگ سے ہو، پی پی پی سے یا پی ٹی آئی سے‘ یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ امریکی خاتون اول اس انداز سے نہ آصف زرداری کے ہوتے ہوئے نہ نواز شریف کے نزدیک کھڑے ہوئے ایسا مسکرا سکتی تھیں۔
حاسد کہیں گے یہ تو افغانستان کی بات ہے۔ امریکی وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں اور اُنہیں پاکستان کی مدد درکار ہے۔ حضور، افغانستان کے حوالے سے تو ہم تیس چالیس سال سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کیا کچھ ہم نے امریکا کیلئے یا اُس کے کہنے پہ نہیں کیا۔ لیکن پاکستانی لیڈروں کو امریکیوں نے بس ایسا ہی لیا۔ یہاں پہ بات قدرے مختلف تھی اور علیحدہ فیکٹر صرف شخصیت کا تھا۔ میں یہ بھی کہتا چلوں کہ ذاتی طور پہ عمران خان کی شخصیت سے میں کبھی متاثر نہیں ہوا۔ مجھے کچھ ایسی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن میں ہوں کون؟ میری کیا حیثیت؟ میں یوں محسوس کروں یا یوں، کسی کو کیا فرق پڑتا ہے؟ کسی اور میں شخصیت کا عنصر ہے تو یہ قدرت کی دَین ہی سمجھی جانی چاہیے۔ کیرِزما یا کشش ویسے بھی ڈھونڈے نہیں ملتی۔ انسان میں ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ بالکل ویسے ہی کہ کچھ انسانوں کے پاس فنِ مقرری ہوتا ہے، ہر ایک مقرر یا خطیب نہیں بن سکتا۔
افغانستان کے حوالے سے بھی دیکھ لیں کہ عمران خان کوخود پر اعتماد ہے کہ وہ طالبان سے بات کر سکتے ہیں اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ دوسرے فریقین کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم (اور مجھ) جیسے عمران خان کو طنزاً طالبان خان کہتے تھے اور اُن پر یہ تبرّا کستے تھے کہ اُن کے دل میں طالبان کیلئے نرم گوشہ ہے۔ اِس طنز میں وزن تھا یا نہیں لیکن وہی چیز آج پاکستان کے کام آ رہی ہے۔ طالبان ایسے نہیں کہ ہر ایک کی بات سُنیں، ہر ایک کی نصیحت پہ کان دھریں۔ کچھ ہی لوگ ہیں جو اُن سے بات کر سکتے ہیں اور یہ کوئی حادثہ نہیں کہ طالبان کے ایک نمائندے نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر عمران خان کی طرف سے صحیح قسم کی دعوت آئے تو وہ اسلام آباد آنے کو تیار ہیں۔ یہ بھی ہونا تھا کہ وزیر اعظم اور فوج کے نظریات اس مسئلے پہ بالکل ایک ہوں۔ عمران خان اور جنرل باجوہ ایک دوسرے کو تقویت دے رہے ہیں۔ ماضی والے وہ منظر نامے اب کی بار نہیں کہ سویلین حکومت ایک طرف دیکھ رہی ہے اور فوج کی آنکھیں کہیں اور ہیں۔ امریکی بیوقوف نہیں جو یہ سمجھتے نہیں۔ واشنگٹن میں جتنی پذیرائی عمران خان کو ملی اُسی نگاہ سے جنرل باجوہ کو دیکھا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کوئی فوجی سربراہ پینٹاگون جائے تو اُسے کس قسم کی سلامی ملتی ہے۔ لیکن کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ جنرل باجوہ کا وہاں بہترین استقبال ہوا۔
لہٰذا بنیاد ٹھیک ڈلی ہے اور شروعات ٹھیک ہوئی ہیں۔ افغانستان کا مسئلہ حل کرنا آسان کام نہیں لیکن امریکی بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ کام ہو نہیں سکتا۔ یہ بھی نئی بات ہے کہ افغانستان کے حوالے سے، اور ہندوستان کے حوالے سے بھی، عمران خان نے ماضی کا کوئی بوجھ نہیں اُٹھا رکھا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اس بارے میں ان کے کوئی تحفظات نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ نارمل تعلقات کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ساتھ ہی جس بھرپور انداز سے وہ کشمیر کی بات کرتے ہیں اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح افغانستان کے بارے میں بھی وہ پرانی سوچوں میں گرفتار نہیں۔ وہ تو واشنگٹن میں یہاں تک کہہ گئے کہ ماضی کی سٹریٹیجک گہرائی کی باتوں سے پاکستان کو نقصان پہنچا۔ اُنہوں نے برملا کہا کہ پاکستان کی اب کوئی سٹریٹیجک گہرائی والی سوچ نہیں ہے۔ یہ کوئی پاکستانی لیڈر واشنگٹن میں کہہ سکتا تھا؟ کسی اور میں اتنا اعتماد ہوتا؟
ہمارے جو لیڈران رہے ہیں... کیا اُن کا نام بار بار لیں... اُنہیں تو اپنی دولت کی ہی پڑی رہتی تھی۔ اب بھی پڑی ہوئی ہے۔ وہ جو جیل میں ہیں یا پیشیاں بھگت رہے ہیں ماضی کی کرپشن کی وجہ سے اُن کے ساتھ یہ ہو رہا ہے۔ وہ بارہا کہیں کہ اُن سے انتقام لیا جا رہا ہے یا یہ کہ جمہوریت خطرے میں ہے اُن کی بات نہ کوئی ذی شعور پاکستانی دل پہ لے رہا ہے نہ باہر کی دنیا ایسی باتیں سننے کیلئے تیار ہے۔ ایک مذاق تو پہلے ہی تھا، جمہوریت کا حسن۔ اُس کے ساتھ دوسرا مذاق آن کھڑا ہوا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ کوئی چیز خطرے میں نہیں۔ بہت عرصے بعد بیشتر پاکستانیوں کو اچھا لگا کہ ایک ڈھنگ کا لیڈر باہر جا کر پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے۔ جس کا یہ مطلب نہیں وہ تنقید سے مبرّا ہے۔ غلط کام کرے گا تو تنقید کی توپیں کھلیں گی۔ لیکن اس دورے کے حوالے سے تو اچھے الفاظ کا حق دار ہے۔