یہ خیال وزیراعظم صاحب کے ذہن میں کیسے آیا کہ ایشین ٹائیگر کی حیثیت اور ریاستِ مدینہ کا تصور دو متضاد چیزیں ہیں۔ ایشین ٹائیگر ایک محاورہ ہے اُن مشرقی ایشیاء کے ملکوں کے بارے میں جنہوں نے بے مثال ترقی کی منزلیں طے کیں۔ ترقی اور جو تصور بھی ہم ریاستِ مدینہ کا سمجھیں اِن میں اختلاف کیا ہے؟
موجودہ دور میں کون سے ممالک ریاستِ مدینہ کہلا سکتے ہیں؟ جو ترقی کا راز پا گئے، جنہوں نے اپنے شہریوں کو اچھی زندگی عطا کی، جہاں غربت ختم نہ بھی ہو تو کم سے کم سطح پہ پہنچ گئی ہو، جہاں تعلیم کا معیار اُونچے سے اُونچا ہو، صحت کی سہولیات سب کیلئے یکساں موجود ہوں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے ممالک یا قوموں کو ہی ریاستِ مدینہ کے قریب سمجھا جا سکتا ہے۔
وہ قومیں جن کی اپنی زبان کچھ اور ہو اور بولیں کسی اور کی زبان، جن کی سوچ باہر سے آتی ہو، جہاں نہ تعلیم کا معیار ہو نہ صحت کا، اور جو ہمہ وقت کشکول اٹھائے پھرتی ہوں اُنہیں تو ریاستِ مدینہ کا نام تک نہیں لینا چاہیے۔ ہم سے عملی مشکلات حل ہوتی نہیں اور باتیں پتا نہیں ہم کس تصوف اور فلسفے کی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ماسوائے ترکی کے تمام مسلمان ممالک‘ جن کو اُمہ کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے‘ انیسویں اور بیسویں صدیوں میں طویل عرصے کیلئے دورِ غلامی میں رہے۔ دورِ غلامی کے ساتھ ساتھ انہیں دورِ جہالت بھی عطا ہوا۔ دورِ جدید میں قدم رکھا تو اپنے زور یا ہنر کی وجہ سے نہیں بلکہ جن طاقتور اقوام نے انہیں غلام رکھا انہی قوموں نے دورِ جدید کے تقاضوں سے آشنا کرایا۔ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک اگر مسلمان ممالک میں جدیدیت کی نشانیاں ہیں تو وہ اورقوموں کی عطا کردہ ہیں ۔ یونیورسٹیاں وہاں سے آئیں، ہسپتال اُن کے دَین تھے ،حتیٰ کہ جمہوریت کا تصور بھی باہر سے آیا ۔ وہ تصور بھی کہیں کہیں نظر آتاہے۔ چند ہی مسلمان ممالک اپنے آپ کو جمہوری کہہ سکتے ہیںنہیں تو بیشتر اب بھی ماشاء اللہ کسی نہ کسی طرز کی آمریت میں جکڑے ہوئے ہیں۔
بطور محاورہ تو ریاستِ مدینہ اچھا لگتاہے لیکن بار بار کے استعمال کرنے سے پہلے کچھ سوچ تو لینا چاہیے کہ ہم کہنا کیا چاہتے ہیں۔ سنگا پور کا لی کوآن یو (Lee Kuan Yew)کسی قسم کی عبادات میںمشغول نہیں ہوتا تھا لیکن جس ریاست کو اُس نے سنگا پور میں تشکیل دیا وہ ریاست ِ مدینہ سے قریب تر ہی سمجھا جائے گا۔ وہاں کی معاشی ترقی دیکھیے ، تعلیم کا معیار دیکھیے، صفائی کا نمونہ دیکھاجائے ۔ صرف سنگا پور ہی نہیں ، سارے ممالک جن کو ایشین ٹائیگرز کہاجاتاہے اپنے معاشروں کوغربت کی کن گہرائیوں سے ترقی کی کن منزلوں تک لے گئے ۔ اسلام کا پورا مطلب حضرت عمرؓ کے اُس قول میں سمو جاتاہے کہ دریائے دجلہ کے کنارے کوئی بھوکا کتا بھی ہوتو روزِ محشر عمرؓ سے سوال کیاجائے گا۔ جس زاویے سے بھی دیکھاجائے اسلام کا سارامفہوم اِن چند الفاظ میں بند ہو جاتا ہے ۔ جہاں بھوک ختم ہوئی وہ معاشرہ ریاست ِ مدینہ کے قریب آگیا۔ جس نے اپنے تمام شہریوں کو یکساں مواقع فراہم کیے ،جہاں اُونچ نیچ کا فرق کم سے کم تر ہو گیا ، وہی ریاست ِ مدینہ ٹھہرا۔
اگلے روز میں پڑھ رہا تھا کہ امریکا کی سیلیکون ویلی (Silicon Valley)کی پانچ بڑی انٹرنیٹ کمپنیز کی اجتماعی مالی حیثیت برطانیہ کی معیشت سے زیادہ ہے ۔ یعنی گوگل ، فیس بک اورتین دیگر کمپنیوں کی مالی پوزیشن اتنی ہے۔ آج ان کی ایجادات ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی اپنے آئی فون کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ اُنہیں بھی ٹویٹر پہ پیغامات کا شوق اتنا ہی ہے جتنا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ۔ ریاستوں کے اصول زمانوں کے ساتھ چلتے ہیں۔ تب کے گزرے ہوئے دور میں ریاست ِ اسلام ایک انقلابی وجود رکھتی تھی۔ اسلامی ریاست کو عروج خلافت ِ عباسیہ میں پہنچا۔ اس کے بعد دنیائے اسلام کا زوال شرو ع ہوگیا۔ زوال بھی ایسا کہ مغرب کی قوتیں اسلامی دنیا پہ چھا گئیں ۔ آج کل بھی اگر کوئی بین الاقوامی مقابلہ ہورہاہے تو وہ امریکا اورچین کے درمیان۔ ہم تو صرف باتوں کیلئے رہ گئے ہیں۔ہمارا مقابلہ اپنی پسماندگی سے ہے ۔ دنیا کے فیصلے دیگر قومیں کررہی ہیں۔ ہر نئی چیز کی پکار کہیں اور سے آرہی ہے ۔ ڈاکٹر عبدالسلام روتے روتے مرگئے کہ کاش مسلمان ممالک اپنا ایک فیصد دولت کا حصہ سائنس کی ریسرچ کیلئے مختص کردیں۔ اُن کا یہ رونا ہی رہا۔ عمل کسی نے ایسی باتوں پہ کیا کرنا تھا۔ اسلامی دنیا میں ایک کشتی خریدنے کیلئے 450 ملین ڈالر علیحدہ رکھے جا سکتے ہے۔ لیونارڈو ڈا وِنچی(Leonardo da Vinci)کی ایک پینٹنگ کیلئے بھی اتنی رقم خرچ کی جاسکتی ہے ۔ لیکن ایسی رقوم خرچ کرنے والے شہزادوں کے معاشروں کو دیکھیں تو پتہ نہیں کہاں کی ذہنی پسماندگی میں اب بھی پڑے ہوئے ہیں۔ البتہ باتوں میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک سال کے عرصے میں کچھ بنیادی تبدیلیاں نظر آنے لگتیں ۔ معاشی حالت بُری سہی لیکن ایسے سینکڑوں کیا ہزاروں کام ہیں جن کے کرنے کیلئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ اس ایک سال میں شہروں میں صفائی کا نظام بہتر نہیں ہو سکتا تھا؟ شہر ہمارے گندگی سے اَٹے ہوئے ہیں۔ اس گندگی کے بارے میں کچھ کرنے کیلئے کسی آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت تھی ؟تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے بارے میں کچھ سوچ بچار کا آغاز تو ہوسکتاتھا ۔ اس بارے میں تو زبانی جمع خرچ بھی نہیں ہوا۔ جیسے یہ مسئلہ پاکستان کو درپیش ہے ہی نہیں۔ کئی بار ذکر ہو چکاہے کہ ہندوستان میں کئی دہائیاں پہلے اولیو ل اوراے لیول کے امتحانات ختم کردئیے گئے تھے ۔ بیشتر پاکستانیوں سے بات کریں انہیں اس چیز کا علم ہی نہ ہوگا۔ یہ نہیں کہ وہاں کی تعلیم برباد ہوگئی ہے ،ہر لحاظ سے ہندوستان کا تعلیمی معیار ہم سے بہترہے ۔ گلف ممالک میں جا کے دیکھ لیں جہاں کہیں انگریزی کی ضرورت ہوتی ہے ہندوستانی ہم سے آگے ہوتے ہیں ۔ اپنے عوام کو تو ہم نے مزدوریوں کے لئے ہی رکھ دیاہے ۔
لیکن اس کا علاج کیاہے کہ تقریر کی تیاری وزیراعظم کبھی کرتے نہیں ۔ بولنے کا البتہ شوق ہے ۔ فی البدیہہ بولتے ہیں تو انہی چند خیالات کا سہارا لینا پڑتاہے جن سے اُن کی آشنائی ہے ۔ اور جب اورباتیں رہ جائیں تو ریاستِ مدینہ کا ذکر چھڑ جاتاہے۔ اَب یہ ایسی بات ہے جس سے نہ تو اختلاف نہ انکار کیاجاسکتاہے ۔ لیکن جب انہوں نے اپنی حکمرانی کا تمام فلسفہ ایسے محاورے کو بنادیا ہو تو لازم ہوجاتاہے کہ دیکھا جائے کہ آج کے مفہوم میں اِن الفاظ کے معنی کیا ہیں ۔
معنی فقط یہ ہیں کہ جن معاشروں نے جہالت کے اندھیرے دور کیے وہ اُن اصولوں پہ گامزن ہوئے جو اصول ریاستِ مدینہ میں کارفرما رہے۔ لیڈر صرف حکمران نہیں ہوتا۔ صحیح معنوں میںلیڈراپنی قوم کا معلم بھی ہوتاہے ۔ عموماً بڑے لیڈر بڑے معاشی ایکسپرٹ نہیں رہے ۔ معیشت کا کام اوروں نے کیا ۔ لیکن لیڈر اپنی قوموں کے معمار ضرور رہے ۔ نئے راستوں پہ اپنی قوموں کو ڈالا اورفرسودہ روایات سے اپنے لوگوں کو آزاد کرایا۔
یہ سب چیزیں کرنے سے پہلے بنیادی شر ط البتہ یہ ہے کہ ذہن میں کوئی کنفیوژن نہ ہو ۔ ہمارے انگریزی بولنے والوں کا یہی مسئلہ رہاہے ۔ خود کی تعلیم جیسی بھی رہی انگریزی کالجوں سے حاصل ہوئی ۔ لیکن وقت بے وقت جب کوئی مسئلہ درپیش آیاتو اسلام کا نعرہ بلندہوگیا ۔ وزیراعظم بھی ایچی سن اورآکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ اردو صحیح طرح سے پڑھ نہیں سکتے ۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ہر موقع پر جب اورکوئی بات نہیں آتی تو ریاست ِ مدینہ کی بات کردیتے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کے ذکر سے بہترذکر کیا ہوسکتاہے ۔ لیکن کچھ سمجھ تو لیاجائے کہ موجودہ دور میں ایسے ذکر کا مفہوم کیا بنتاہے۔