آئے روز اس تاثر کو تقویت پہنچ رہی ہے کہ یہ حکومت اپنے سے گہرے پانی میں کھڑی ہے۔ اِن سے کچھ ہو نہیں رہا اور معاملات کی سمجھ اِن میں نہیں ہے۔ گیس انفراسٹرکچر ٹیکس پہ جو تماشا حکومت نے بنایا‘ یہ اس کی ایک مثال ہے۔ اتنی لعن طعن انہیں اِس پہ ہوئی کہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ فیصلہ واپس ہوا لیکن تماشا تو بن گیا۔ دوسرا اُس غریب کی کہانی جس کا نام صلاح الدین تھا۔ کہاں اُس کی قسمت ہاری کہ وہ پولیس کے ہتھے چڑھا اور جان گنوا بیٹھا۔ عمران خان کی زبان پہ یہ بات چڑھی ہوئی تھی کہ ہم پولیس کو درست کریں گے۔ درستی کا یہ عالم ہے۔
لیگیوں اور پیپلیوں کو تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے حمایتی اَب حیران ہو رہے ہیں کہ ہماری حکومت کیا کر رہی ہے۔ پہلے تو اس عذر کو کھینچا جا سکتا تھا کہ نئے لوگ ہیں‘ انہیں کچھ وقت دینا چاہیے۔ لیکن اب ایسی باتوں کی گنجائش نہیں رہی۔ نکمیّ پن اور نا اہلیت کا تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ پتہ نہیں کہاں سے یہ وزیر اور مشیر آئے ہیں‘ جن کی باتوں سے اس تاثر کو ہوا ملتی ہے۔
معیشت کا تو رہنے ہی دیجیے۔ یہ محض بہلانے کی باتیں ہیں کہ موجودہ تکلیف کچھ عرصے کی بات ہے اور چھ آٹھ ماہ یا ایک سال میں حالات بہتری کی طرف ہو جائیں گے۔ یہ تو اب عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ معیشت سکڑ گئی ہے اور حالات خراب ہیں۔ بے روزگاری تو ایسی ہے کہ انسان بازار میں باہر نکلے تو اُسے کچھ سمجھ آئے۔ اب تو ڈیلی ویجز کی کسی آسامی کا لوگوں کو پتہ چلے تو دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ یہ بہانہ اب پرانا ہو چکا کہ پرانی حکومتوں کا قصور ہے۔ اب تو ڈرائیونگ سیٹ پہ آپ بیٹھے ہیں، کب تک دوسروں پہ الزام دھرتے رہیں گے۔
ان سب باتوں کا جو مجموعی تاثر اُبھر رہا ہے وہ حکومت کی ناکامی کا ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا‘ اِن کے اپنے حامی مایوس ہونے لگے ہیں۔ یہ سارا کچھ ایک سال میں ہو گیا ہے۔ اِس گزرے سال کی کارکردگی سے نہیں لگتا کہ آگے کچھ بہتری ہو سکتی ہے۔ تو پھر ہو گا کیا؟ پہلے کی دو بڑی پارٹیاں ناکام ٹھہریں۔ وہ کرپٹ تھیں اور اُنہوں نے قومی دولت پہ ڈاکہ ڈالا۔ یہ بات تو ہو گئی۔ یہ جو نئے آئے ہیں اِن سے اُمیدیں وابستہ تھیں کہ یہ سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ ان کا اپنا نعرہ بھی ایک نئے پاکستان کا تھا۔ اِس ایک سال میں نئے پاکستان کا نعرہ مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ لیکن پھر وہی سوال کہ اَب راہ کون سی رہ گئی ہے؟ کون سا نسخہ باقی ہے جو آزمایا نہیں گیا؟
وَقتی طور پہ کشمیر کے مسئلے نے باقی ہر چیز کو پیچھے کر دیا ہے۔ مسئلہ تو واقعی سنگین ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم ہمارے مسائل کا تو حل نہیں۔ سری نگر میں کرفیو لگے‘ اُس سے یہاں تو مہنگائی کم نہیں ہونی۔ نریندر مودی کو جتنی ہم گالیاں دیں اُس سے ہماری حکومت کی کارکردگی تو بہتر نہیں ہوتی۔ وہاں مظالم رہیں گے تو ہمیں بولنا پڑے گا لیکن اِس سے ہمارے مسائل تو ختم نہیں ہوتے۔ خارجہ امور کی اپنی اہمیت ہے‘ لیکن داخلی امور سے زیادہ دیر توجہ نہیں ہٹا سکتے۔
ہمارا مسئلہ کچھ عجیب سا ہے۔ دیگر ممالک کو بھی مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن یہ تاثر ہر ایک کے بارے میں نہیں اُبھرتا کہ یہ مسائل کے سامنے بے بس ہیں۔ برطانیہ میں شدید سیاسی مسئلہ چل رہا ہے، یورپین مارکیٹ میں رہنا ہے یا نہیں۔ باقاعدہ سیاسی بحران وہاں پیدا ہو چکا ہے لیکن کوئی نہیں کہتا کہ برطانیہ اس مسئلے سے نمٹ نہیں سکتا۔ سنگل مارکیٹ میں رہتے ہیں یا نہیں، نکلتے ہیں تو کن شرائط پہ، یہ اَبھی طے ہونا باقی ہے۔ لیکن کوئی نہیں کہہ رہا کہ سیاسی قیادت صلاحیت سے محروم ہے۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو روزمرّہ کی بنیاد پہ شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آئے روز وہاں تبصرے ہوتے ہیں کہ خطرناک قسم کے رجحانات امریکہ میں پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں کہتا کہ امریکہ کی مجموعی صلاحیتوں سے یہ مسائل بڑے ہیں۔
ہمارے ہاں مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ یہاں حکومتوں کی کمزوریوں یا ناکامیوں کے بعد تنقید صرف ایک حکومت یا ایک پارٹی پہ نہیں ہوتی بلکہ یہ خیال زور پکڑتا ہے کہ سسٹم ہی نہیں چل رہا اور کسی بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں کوئی نہیں کہتا کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو رہا ہے۔ امریکہ میں کوئی نہیں کہتا کہ آئین تبدیل ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنا موازنہ بڑے ممالک سے نہیں کرنا چاہیے‘ لیکن یہ صرف مثال دی جا رہی ہے کہ ہمارا معاملہ کیسے مختلف ہے۔ یہاں بات نظام پہ پہنچ جاتی ہے کہ وہ فیل ہو رہا ہے۔ برطانیہ میں دیکھیں بورس جانسن تیسرا وزیر اعظم ہے جسے یورپین مارکیٹ کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون گیا، تھریسا مے ناکام ہوئیں اور بورس جانسن آیا، لیکن نظا م چل رہا ہے۔ یہاں ایسا لگتا ہے کہ جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے ان سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس صلاحیت ہی نہیں۔ عمران خان کی پوری معاشی ٹیم کو لے لیجیے۔ انہیں ایک میز کے گرد بٹھائیں۔ کتنے پاکستانی ہوں گے جنہیں اس ٹیم کی قابلیت پہ یقین ہو گا۔ کتنے پاکستانی ہوں گے جو کہیں گے کہ یہ ٹیم ٹھیک کر رہی ہے اور اِسے حالات کا صحیح ادراک ہے؟ کتنے لوگ پنجاب میں ہوں گے جو کہیں گے کہ پنجاب حکومت ٹھیک ہاتھوں میں ہے اور اِس کی کارکردگی تسلی بخش ہے؟
تیس پینتیس سال دو پارٹیاں قوم کے سر پہ مسلط رہی ہیں۔ اُن کے کارنامے ایسے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ اُن سے جان چھوٹی تو ایک تیسری جماعت آئی جس کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا کہا جا رہا تھا کہ کون سی توپیں چلائے گی اور پاکستان کو کہاں آگے لے جائے گی۔ ایک سال کے اندر اندر اس جماعت کا پول کھلتا جا رہا ہے۔ یا یوں کہیے کہ کھل چکا ہے۔ وہ پنجابی کا کیا لفظ ہے 'بھُلیکھا‘؟ اب تو وہ بھی نہیں رہا۔ اَب کس پہ اُمید باندھی جائے۔ کون سا فارمولا دیا جائے کہ ایسا کریں تو حالات سدھر جائیں گے۔ یہ خطرناک سوچ ہے اور شاید خطرناک کھیل بھی ہو کہ سب کچھ ناکام ہو اور پھر دیکھا جائے گا۔ اپنی تاریخ میں ہم سب کچھ آزما چکے ہیں۔ بڑے سورما بھی یہاں آئے اور اپنی حشر سامانیاں پیچھے چھوڑ گئے۔ اُن کا ذکر کیا کیا جائے۔ اُن کے نام بھی سن سن کے کان پک چکے ہیں کہ فلاں نے یہ کیا اور فلاں کے دورِحکومت کی وجہ سے قوم کو یہ کچھ بھگتنا پڑا۔
مایوسی اتنی جلدی ہونی نہیں چاہیے لیکن حالات ایسے ہیں کہ مایوسی کی طرف کھینچ رہے ہیں۔ کہیں سے تو بہتری کی اُمید ہو، کوئی تو سیاسی اُفق پہ چہرے ہوں جنہیں دیکھ کے کچھ اُمید پیدا ہو سکے۔ وزیروں کو دیکھیں تو سبحان اللہ۔ مشیروں کا یہ حال ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ قوم کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ بہتری تو چلیں دور کی بات ہے، کوئی احساسِ سمت تو ہو کہ قوم کا سفر ٹھیک راستے پہ ہے۔
آج کی دنیا میں چھ بلین ڈالر کی حیثیت کیا ہے، لیکن آئی ایم ایف سے یہ رقم لینے کے لیے پورے ملک کو کتنی طویل اور دشوار مشق سے گزرنا پڑا۔ لاطینی امریکہ کا جو بڑا ملک ارجنٹینا (Argentina) ہے وہ بھی آج کل مالی اور معاشی مشکلات میں پھنسا ہوا ہے۔ لیکن وہاں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضہ جات کو آگے پیچھے کر دیا جائے۔ ایٹمی طاقت ہم ہیں لیکن ایسی ہمت ہم میں کہاں سے آئے۔ قرضہ جات ہمارے تھے اور ادائیگیاں ہم نے کرنی تھیں۔ کیا ہم نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہماری ادائیگیاں آگے پیچھے کر دی جائیں؟ وَقتی طور پہ مشکلات ہوتیں لیکن اُن سے گزر جاتے۔ ایسا کرنے کے لیے باہمت لیڈر چاہیے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بس بڑھکیں ہیں اور نعرے بازی۔ لیکن پھر وہی سوال کہ جائیں تو جائیں کہاں۔