جن خطوط پہ ہماری ریاست استوار ہے انہوں نے تبدیل نہیں ہونا۔ ارتقائے نظریہ کی گنجائش پاکستان میں نہیں۔ پہلے ادوار میں نظریاتی تبدیلی کی پھر بھی تھوڑی سی گنجائش تھی، وہ اب ختم ہو چکی ہے ۔ نہ قد کاٹھ کے سیاست دان ہمارے معاشرے میں رہ گئے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کا جو حال ہے اُس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔
اِس ریاست میں ادارے پہلے ہی مضبوط تھے۔ اُن کی اجارہ داریوں کو کوئی چھو نہ سکتا تھا‘ لیکن اب ادارے نہ صرف مزید طاقتور ہو چکے ہیں بلکہ اُن کا دائرہ کار نا قابل تسخیر ہو گیا ہے۔ دیکھ لیں کیا حشر سیاسی قوتوں کا ہو رہا ہے‘ موجود ہیں پر بے وقعت ہوتی جا رہی ہیں۔ یوں تو سیاسی پارٹیاں میدان میں ہیں لیکن سیاسی فیصلہ سازی میں اُن کا وجود اور اُن کی وقعت کم ہو گئی ہے۔ بڑے بڑے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور سیاسی قوتیں دُم ہلائے پیچھے ہو لیتی ہیں۔ ایسے مواقع آئے جب سیاسی قوتیں اپنی جگہ بنا سکتی تھیں لیکن وہ غافل رہیں یا اتنی سوچ نہ تھی اور وقت ہاتھ سے نکل گیا۔ آج پاکستان مضبوط ہو نہ ہو غیر سیاسی اجارہ داریاں مضبوط ہو گئی ہیں۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ کوئی دوسری بات کرنے والا نہیں رہا۔
لہٰذا کسی بڑی تبدیلی کا سوچنا بھی محال ہے۔ ریاست کے خدوخال یہی رہیں گے۔ نظریات بھی یہی ہوں گے ۔ ہری پور میں یا کسی اور ضلع میں ایسے ہی فیصلے ہوتے رہیں گے کہ سکول جانے والی لڑکیوں کو عبایوں اور حجاب میں ہونا چاہیے۔ گھوٹکی سندھ میں جو واقعہ ہوا ہے اتنا انوکھا نہیں۔ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں‘ خاص طور پہ پنجاب کے شہروں میں ۔ کسی نے شوشہ چھوڑ دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ لگ گئی۔ بے حسی کی انتہا ہے جب محض شوشوں کو روکنے والا کوئی نہ رہے۔ ایسے واقعات جس قسم کا معاشرہ ہم نے بنایا ہے اس کی علامت ہیں اور ہم سوچتے بھی نہیں کہ ایسے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں۔
کیا یہ معاشرہ مختلف خطوط پہ استوار ہو سکتا تھا؟ کیا کوئی مختلف عمارت تعمیر ہو سکتی تھی؟ کہنے کو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حالات کسی دوسرے رخ بھی جا سکتے تھے‘ لیکن تھوڑا سا دماغ لگا کے سوچا جائے تو شاید اور کوئی راستہ نہ تھا۔ شروع کی بنیادیں ہی ایسی تھیں کہ یہی عمارت کھڑی ہو سکتی تھی۔ ابتداء کے سالوں میں پاکستان ویسے ہی مغربی عسکری معاہدوں میں نہیں چلا گیا تھا۔ قیادت کی سوچ ایسی تھی کہ وہ مغرب کی طرف ہی مائل ہو سکتی تھی کیونکہ اُن کی نظروں میں کمیونزم کفر کے مترادف تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ سالوں بعد ہم چین کے قریب ہو لیے ۔ وہ بھی کمیونسٹ ملک تھا لیکن اُس وقت کی مجبوریوں کے تابع اس خیال سے ہمیں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی۔ لہٰذا ہم نے ایک تفریق کر ڈالی : روس سے دوستی خطرے سے خالی نہیں ، چین سے دوستی عین حالات کے مطابق ہے ۔ یہ تو ضمنی سوال ہے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ایک خاص قسم کی ریاست ہم بناتے گئے۔
نظریاتی لیپا پوچی اِس ریاست کی جو بھی ہو اس کی بنیادی خاصیت یہ بن گئی کہ اِس میں کوئی نئی سوچ نہ پیدا ہو۔ اسی لیے مستقبل کی راہیں تلاش کرنے کی بجائے ریاست پیچھے ہی جاتی رہی۔ نو آموز ریاست تھی کیا، انگریزوں کا ورثہ۔ تمام ادارے ، تمام انتظامی ڈھانچہ اور تمام کے تمام قوانین انگریز راج کے تشکیل کردہ تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بنیاد کو لے کر آگے کی طرف دیکھا جائے اور انگریزوں کی حکمرانی کو آگے لے جایا جائے تاکہ ماڈرن زمانے کی ضروریات سے ریاست ہم آہنگ ہو سکے۔ لیکن ایسا نہ کیا گیا۔ ریاست کی تشکیل میں مشکلات درپیش آئیں تو ماضی کے جھمیلوں میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں پاکستان ایشیاء کے ماڈرن ترین ممالک میں اپنا شمار کرا سکتا تھا‘ وہ ہر شعبے میں پیچھے ہوتا گیا۔
نئی سوچ کی ضرورت ہر شعبے میں تھی۔ دفاعی تقاضے تو ہر ریاست کے ہوتے ہیں۔ ہمارے بھی تھے لیکن انہیں کسی نئی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت تھی۔ تقسیم ہند کے ہنگام کے باوجود ہندوستان سے اچھے تعلقات قائم کیے جا سکتے تھے۔ لیکن اِس طرف ہماری مختلف قیادتوں کی سوچ کبھی گئی نہیں۔ بیوروکریٹ ہوں یا دوسرے اداروں کے سربراہ اُن کی سوچ ایک ہی نکتے کے گرد گھومتی رہی کہ نئی ریاست کو ایک ہی سمت سے خطرہ ہے۔ اس سوچ نے ایسا زور پکڑا کہ ریاست کی تمام توانائیاں اس میں جکڑی گئیں۔ آج تک اِس سوچ سے نکلا نہیں جا سکا۔ دنیا میں کوئی اور ملک نہیں ہے، ایک بھی نہیں، جو کہ نام لے کے کہے کہ فلاں ملک ہمارا دشمن ہے۔ ہاں ایران کہتا ہے کہ مسلمانوں کا دشمن اسرائیل ہے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ ہمارا دشمن ہندوستان ہے۔ سرد جنگ کی انتہاء پہ امریکہ نے کبھی نہیں کہا کہ روس دشمن ہے۔ چین نے کبھی نہیں کہا کہ امریکہ دشمن ہے۔ نظریاتی کشمکش اور تصادم کا ذکر ضرور ہوتا تھا‘ لیکن نام لے کے دشمنی کی پکار کی روایت نہ تھی۔ ہم اِس لحاظ سے مختلف ہیں۔
اندرونی محاذ پہ بھی نئی سوچ اور اُس سے پیدا نئی راہیں کہیں کارفرما نہ ہو سکیں۔ ہم تعلیمی نظام نہ بدل سکے۔ بدلنے کا یہ مطلب نہیں کہ انگریزی کی جگہ اردو یا علاقائی زبانیں لے آتے لیکن اِس امر کی تو ضرورت تھی کہ ملک میں ایک تعلیمی نظام رائج کیا جا سکے۔ آج تک ہم یہ نہیں کر سکے جس کی وجہ سے تعلیمی میدان میں ایک کھچڑی پکی ہوئی ہے: انگریزی سکول بھی ہیں، ٹاٹ والے اردو سکول بھی اور پھر دینی مدرسے۔ اِس صورتحال کو تبدیل کرنے کی سوچ ہمارے معاشرے میں سرے سے موجود نہیں۔ اس پہ بحث بھی نہیں ہوتی بس جو ہے سو ہے، انگریزی دان بھی خوش، مولوی صاحبان بھی خوش اور ملک کی جو حالت بنے کسی کو پروا نہیں۔
نئی سوچ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہی ہم وہ وسائل تعلیم اور صحت کو نہ دے سکے جو دینے چاہئیں تھے۔ ہماری ترجیحات ہی اور تھیں۔ عوامی فلاح و بہبود نعرے بازی تک تو قومی مقاصد رہے‘ لیکن عملی طور پہ اس کے لئے ہم کچھ کرنے سے قاصر تھے کیونکہ وسائل کی بھرمار ہی کسی اور طرف جا رہی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک لیڈر تھے جو نئی راہیں تلاش کر سکتے تھے لیکن وہ بھی ایسی چیزوں میں پڑ گئے کہ اُن کی تمام توانائیاں وہیں غرق ہو گئیں۔ ذہین بہت تھے‘ مدّبر نہ تھے۔ مدّبر ہوتے تو تب کی نیشنل عوامی پارٹی‘ جس کی حکومتیں صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بن چکی تھیں‘ سے لڑائی نہ مول لیتے۔ اگر بھٹو اپنے آپ کو پروگریسیو سمجھتے تھے تو نیشنل عوامی پارٹی اُن کی قدرتی حلیف تھی۔ مدّبر ہوتے تو میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل کو بلوچستان میں اقتدار میں رہنے دیتے۔ سکندر خان خلیل کو فرنٹیئر کا گورنر قبول کرتے اور مفتی محمود (مولانا فضل الرحمان کے والد) کو صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کے طور پہ برداشت کرتے۔ پاکستان میں پروگریسیو سیاست اور ترقی پسند سوچ کو فروغ ملتا۔ اس میں بھٹو کا اپنا فائدہ تھا لیکن وہ یہ سمجھ نہ سکے۔ پروگریسیو عناصر سے ہی جنگ شروع کر دی اور جب 1977ء میں اُن پہ بُرا وقت آیا تو یکا و تنہا رہ گئے۔ پاکستانی تاریخ کے المیوں میں یہ ایک بڑا المیہ ہے۔
بینظیر بھٹو نئی سوچ کی علم بردار ہو سکتی تھیں۔ لیکن اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود وہ آخری تجزیے میں محدود سوچ کی مالک رہیں۔ چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں اُن کا وقت گزر گیا اور پروگریسیو سوچ کو تو وہ بالکل ہی خیر باد کہہ گئیں۔ امریکی سوچ کے نیچے ایسے لگیں کہ گمان ہوتا تھا کہ امریکی معاونت کو ہی اپنے اقتدار کا ضامن سمجھتی ہیں۔
عمران خان کچھ نیا کر کے دکھا سکتے تھے۔ واقفانِ حال پہلے ہی جانتے تھے کہ اِن کی سوچ محدود ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات مزید عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ اوروں کی امداد سے اقتدار میں آئے اور اوروں کی سوچ ہی اُن پہ حاوی ہے۔ نئی سوچ رکھنے والے یہاں کہاں سے آئیں گے؟