انگریزوں کی دی ہوئی ریل ہم سے نہ چلی‘ نہ روسیوں کی دی ہوئی سٹیل مل۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو ہماری صلاحیتوں سے بچا ہو۔ انگریزوں کے بنائے ہوئے نظام اور اُن کے بنائے گئے اداروں کو ہی اتنا ڈھیٹ سمجھنا چاہیے کہ ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود مکمل طور پہ ابھی تک تباہ نہیں ہوئے۔ ہمارا بس چلتا تو سب اداروں کا وہ حال کرتے جو ریلوے کا کیا ہے۔ لیکن ان چیزوں کو دل پہ زیادہ نہیں لینا چاہیے۔ چیزیں ہم سے نہ چل رہی ہوں گی لیکن نظریہ تو ہمارا مضبوط ہے۔ جہاں نظریہ مضبوط ہو باقی چیزوں کی کیا حیثیت۔
ہمارے نظریے کے بنیادی نکتے کیا ہیں؟ سب سے اہم تو یہ کہ قوم کو ہمیشہ مسلسل بخار میں رہنا ہے۔ کبھی نارمل نہیں ہونا۔ نارمل سوچ نہیں رکھنی اور نارمل حرکتوں سے دور رہنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ کہ ہمیشہ جذبات میں مغلوب رہنا ہے۔ ایک طرف سے بخار دوسری طرف سے جذبات۔ اس کیفیت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہر اطراف کسی سے بنا کے نہ رکھی جائے۔ مشرق کی طرف تو ہم نے جنگ و جدل اور تناؤ کو اپنے مزاج کا مستقل حصہ بنا لیا ہے۔ ہمارے نظریے کا بھی بنیادی نکتہ ہے کہ مشرق میں تناؤ ہی رہنا ہے۔ تناؤ کم ہو یا ختم ہو جائے تو ہماری بیشتر روشیں بے معنی ہو جائیں۔
مغربی بارڈر کے حالات بھی زیادہ بہتر نہیں۔ کچھ تو افغان قوم اپنے معاملات ٹھیک نہ رکھ سکی۔ ہمارے پڑوسی ملک کو کسی کی نظر بَد لگی جب وہاں کے سردار داؤد نے 1973ء میں اپنے کزن اور افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ دیا۔ تب تک وہاں کے حالات مستحکم اور پر امن تھے۔ کچھ ہم نے اپنا حصہ افغانستان میں ڈالا۔
دنیا بھر کا سیاح پاکستان سے ہوتے ہوئے افغانستان جایا کرتا تھا اور وہاں اُن کا لمبا قیام ہوتا۔ کابل بھی تب اتنا خوبصورت شہر تھا کہ وہاں پہنچ کے واپس آنے کا جی نہ چاہتا۔ کھلی اور کشادہ سڑکیں، پاپولر کے درخت اورخوبصورت چائے خانے۔ مغربی سیاحوں کی دو بڑی منزلیں ہوا کرتی تھیں، نیپال کا دارالخلافہ کھٹمنڈو اور کابل ۔ پھر نظر بَد ایسی لگی کہ افغانستان کی مصیبتوں کا آغاز ہوا۔ مصیبتوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ سردار داؤد کا تختہ 1978ء میں اُس کے کمیونسٹ ساتھیوں نے اُلٹایا۔ وہاں کے کمیونسٹ بھی کیا تھے، نیم پکے جو اپنے آپ کو بہت بڑے کمیونسٹ سمجھتے تھے۔ افغانستان کے اصل حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے انتہاء پسند کمیونسٹ پالیسیاں شروع کیں جن کی وجہ سے اُس قدامت پرستی میں ڈوبے ہوئے ملک میں بغاوت کی آگ بھڑکی۔ کمیونسٹوں کے ہاتھ سے حالات نکلنے لگے تو تب کے روس کی بوڑھی قیادت... جس کی اوسطاً عمر 75-74 سال کے لگ بھگ تھی... نے روسی فوج افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
یہ خود روس اور افغانستان کے لئے تباہ کن فیصلہ تھا۔ افغانستان کی شورش کو غنیمت سمجھتے ہوئے امریکا نے مداخلت کا فیصلہ کیا۔ کمیونسٹوں کے خلاف برسرِ پیکار جتھوں کو مغربی دنیا نے مجاہدین کا نام دیا۔ اِن مجاہدین کی بھرپور امداد کا سلسلہ شروع ہوا۔ امریکا نے اسلحے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور ڈالر مہیا کیے۔ سعودی عرب نے بھی ہر ڈالر کے برابر امداد دی یعنی ہر ڈالر کا انہوں نے بھی ڈالر دیا۔ امریکا کی حکمت عملی تو سمجھ میں آتی ہے۔ اُس وقت کی دنیا میں امریکا کا بڑا دشمن روس تھا اور اسے تکلیف پہنچانے کیلئے افغانستان میں شورش سے بڑا کوئی موقع نہ تھا۔ یہ رہنی تو چاہیے تھی بڑوں کی لڑائی لیکن ہمارا نظریہ اور بخارکہاں جاتے؟ امریکا تو افغانستان میں بعد میں آیا۔ جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں پاکستان پہلے ہی افغانستان میں کود پڑا تھا۔ امریکا کے تو مقاصد واضح تھے۔ وہ روس کو زک پہنچانا چاہتا تھا۔ ہمارے مقاصد کیا تھے؟
روسی فوج افغانستان آئی تو لاکھوں افغان اپنی دھرتی چھوڑنے پہ مجبور ہوئے۔ دس لاکھ کے قریب ایران گئے لیکن ایران نے انہیں کیمپوں میں رکھا اور اُن کی نگرانی بھی کی۔ ہمارا رویہ بالکل ہی مختلف تھا۔ ہم نظریے اور بخار کے ماروں نے افغانوں کو کھلی چھٹی دی۔ تیس سے چالیس لاکھ افغان یہاں آئے۔ جو بالکل ہی بے سر و سامان تھے۔ وہ کیمپوں میں رہے لیکن باقی افغانوں کی آبادی پورے پاکستان میں پھیل گئی۔ افغان نمبر پلیٹ لگائے اُن کے ٹرک ہماری سڑکوں پہ بلا روک ٹوک چلنے لگے۔ امریکیوں سے ہم نے یہ شر ط رکھی کہ اسلحہ اور ڈالر ہمارے ہاتھوں تقسیم ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔ مجاہدین کی اندرونی سیاست میں ہم پڑ گئے اور اپنے چہیتوں کو زیادہ امداد دینے لگے۔ بالآخر روسی افغانستان سے چلے گئے لیکن افغانوں کی مصیبتیں کم نہ ہوئیں۔ نام نہاد مجاہدین آپس میں لڑنا شروع ہو گئے اور عام افغان اُن کی حرکتوں سے اتنا تنگ آیا کہ جب قندھار اور اس کے گرد و نواح سے طالبا ن تحریک اُٹھی تو عام افغانوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔
افغانستان کی شورش کو ایران نے اپنے سے دور رکھا۔ لیکن جذبات کی ماری ہماری قوم نے افغانستان کی مصیبتوں کو اپنے گلے لگا لیا اور ایسے لگایا کہ آج تک اُن سے جان نہیں چھوٹ رہی۔
افغانستان میں روس کی شکست کا ایک اور نتیجہ بھی برآمد ہوا۔ پاکستانی فیصلہ سازوں کے دماغ خراب ہو گئے۔ روس کی شکست کا تمام سہرا انہوں نے اپنے سر باندھا۔ یہاں تک بھی اکتفا نہ کیا بلکہ جب سوویت یونین ٹوٹی اوردیوارِ برلن گری تو اس ساری صورت حال کا کریڈٹ بھی لیا۔ افسانہ نگاری یوں بنی کہ ہمارے کچھ فیصلہ ساز کہنے لگے کہ سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کا آغاز شکستِ افغانستان سے ہوا تھا۔ ظاہر ہے نام نہاد افغان جہاد میں ہمارا بڑا ہاتھ رہا۔ یوں ہمارے فیصلہ سازوں نے بہت ساری چیزوں کا کریڈٹ لیا۔
نظریاتی بخار میں مبتلا تو قوم پہلے ہی تھی۔ افغانستان میں روسی شکست نے اس بخار کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ جہادی سوچ نے زور پکڑا۔ یہ بھی سوچا جانے لگا کہ جو تدابیر افغانستان میں کامیاب ہوئیں وہ کشمیر میں بھی آزمائی جا سکتی ہیں۔ جب مقبوضہ کشمیر میں اپنی وجوہات کی بناء پہ بغاوت اُٹھی تو جو آوازیں پہلے جہادِ افغانستان کا نعرہ لگاتی تھیں‘ وہ اب جہادِ کشمیر کا لگانے لگیں۔
مقبوضہ کشمیر میں کوئی مثبت پیش رفت ہوئی یا نہ ہوئی یہ الگ بحث ہے۔ اس ساری صورت حال میں پاکستان مارا گیا کیونکہ پوری دنیا متفرق جہادی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کو ایک مخصوص نظر سے دیکھنے لگی۔ ہندوستان سے تو پہلے ہی پاکستان پہ دہشت گردی کا الزام لگتا تھا۔ اب مغربی دنیا بھی اس کی ہم نوا ہو گئی۔
جہاد کے بخار سے کچھ اور چیزیں بھی نمودار ہوئیں۔ پاکستان میں کچھ ادارے بہت مضبوط ہو گئے، انہوں نے طاقت پکڑی اور جمہوری ادارے نسبتاً کمزور ہوتے گئے۔ کچھ تو معروضی حالات ایسے تھے۔ جب ہر طرف بات جہاد اور لڑائی کی ہو رہی ہو تو ظاہر ہے جہاد کرنے والے عناصر ہی مضبوط ہوںگے۔ لیکن کچھ ہمارے جمہوری اکابرین کی بھی کمزوریاں تھیں۔ حکمرانی کی بجائے اُن کا زیادہ دھیان اور چیزوں پہ لگا رہا۔ اس روش کی وجہ سے انہیں بُرا بھلا کہنا ایک قومی مشغلہ بن گیا۔ اُن کے خلاف کچھ سازشیں دیگر عناصر نے کیں لیکن کچھ سازشیں اپنے خلاف وہ خود کرتے رہے۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم نہ یہاں کے رہے نہ کسی اور جگہ کے۔ جب بڑے بڑے ایڈونچروں میں ریاست پڑی رہی، ایسے ایڈونچر جو اُس کی بساط سے زیادہ تھے، تو حکمرانی کمزور ہوئی اور ملک کی معاشی حالت خراب ہوئی۔ آج جس موڑ پہ قوم پہنچ چکی ہے وہ اِس تمام صورت حال کا نتیجہ ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ قوم اس صورت حال سے کیسے نکلے؟ مسئلہ یہ ہے کہ جن کے ارادے نسبتاً نیک ہیں وہ کمزور ہیں۔ بخار میں مبتلا اور بخار میں ڈالنے والی قوتیں بہت مضبوط ہو چکی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ مرض ہے لیکن اس کا علاج کیا ہے کسی کو نہیں معلوم۔
اسی لیے بس چل رہے ہیں کچھ نظریے کے سہارے کچھ بخار کے۔