فریقین میں کوئی جیتے یا ہارے، کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھے یا رسوئی اُس کا مقدر ہو، ہماری صحت پہ کیا اثر۔ یہ جو براجمانِ اقتدار ہیں اِنہوں نے قلیل عرصے میں ثابت کر دیا ہے کہ نااہلوں کے سردار ہیں۔ دوسری طرف مولوی صاحبان ہیں اور اِن کے نسخے بھی ہم خوب جانتے ہیں۔ نااہلوں کے ٹولے کو زیادہ زک نہ پہنچی تو اِن کی نااہلی جاری و ساری رہے گی۔ مولوی صاحبان محدود مقاصد کے علاوہ کچھ زیادہ حاصل نہیں کر سکتے لیکن برائے بحث مان بھی لیا جائے کہ وہ کامیاب ٹھہرتے ہیں تو اُنہوں نے کیا کرنا ہے سوائے ہمیں دوبارہ مسلمان بنانے کے؟ لہٰذا اِس لڑائی میں ہمارا کیا بگڑنا یا سنورنا ہے۔
2014ء کا دھرنا بھی بیکار کی مشق تھی۔ اُس کا مقصد میاں نواز شریف حکومت کو ہٹانا نہیں تھا صرف اُنہیں سبق سکھانا تھا تاکہ وہ لائن میں رہیں اور آپے سے باہر نہ ہو جائیں۔ کچھ ہوں گے جن کا نواز شریف سے مختلف وجوہات کی بناء پہ بغض ہو گا۔ وہ بھی دھرنے والوں کے ہمنوا بن گئے۔ پی ٹی آئی کے نوجوان سپورٹر اور بہت سے مڈل کلاسیے ویسے بھی ایک عجیب جنون میں گرفتار تھے۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو قائل کر لیا تھا کہ وہ کسی انقلابی تحریک میں شریک ہیں۔ اسی لیے ہر شام عمران خان کی بے ربط اور بے تُکی تقاریر سننے ڈی چوک کے کنٹینر کے سامنے جمع ہو جاتے تھے۔ عمران خان بھی ایک ہی تقریر ہر شام دہرا تے تھے۔ اُنہیں یقین ہو گیا تھا کہ وہ بڑے لیڈر کے طور پہ اُبھر رہے ہیں اور یہ اُن کا تاریخی موقع ہے۔
شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری کو تو صاف استعمال کیا گیا۔ استعمال کرنے والوں میں بہت سے تھے، کچھ گجرات سے اور کچھ درپردہ سایوں میں۔ شیخ الاسلام خود تو کنٹینر میں بیٹھے رہے لیکن اپنے جانثاروں کو تھکا‘ ہرا دیا۔ علامہ کو سمجھ نہ آئی کہ دھرنا کب ختم کرنا چاہیے۔ وہ طول دیتے رہے اس حد تک کہ اُن کے ورکر ہمت ہار گئے۔ دھرنے کے پیچھے دَرپردہ قوتوں کے تو مقاصد شاید پورے ہو گئے لیکن شیخ الاسلام کی پارٹی اُس مشق کی تھکاوٹ سے چکنا چور ہو گئی۔ جتنی سیاست شیخ الاسلام کی تھی وہ دھرنے کی نذر ہو گئی۔ عمران خان کو بھی دھرنے کی ناکامی کی وجہ سے بہت سیٹ بیک ہوا لیکن اُنہیں سایوں کی معاونت حاصل تھی اور جب نواز شریف کی قسمت ہاری اور پانامہ پیپرز والا قضیہ سامنے آیا تو عمران خان کی سیاست ایک بار پھر بھڑک اُٹھی۔
یہ بات البتہ نہیں بھولنی چاہیے کہ عمران خان اکیلے ہوتے تو کچھ نہ کر پاتے۔ نواز شریف کے خلاف بہت ساری قوتیں کھڑی ہو چکی تھیں اور پانامہ پیپرز کو سامنے رکھ کے اُنہیں ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کا اقتدار گیا لیکن وہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ اب تک ختم نہیں ہوا۔
اب تقریباً واضح ہے کہ 2014ء کے دھرنے کے پیچھے کچھ ہاتھ تھے۔ مولانا فضل الرحمن کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب ابھی تک نہیں مل رہا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اُنہیں تھپکی ملی ہے لیکن کس بناء پہ وہ ایسا کہتے ہیں واضح نہیں۔ لیکن پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ اتنا جلدی یہ ماجرا کیسے ہو رہا ہے۔ مولانا اپنے زور پہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں یا 2014ء کے دھرنے والی کیفیت ہے اور پھر سے کسی کو سبق سکھانے کا نیک ارادہ ہے۔ ابھی تک اِن سوالوں کے جوابات سامنے نہیں آ رہے۔
تو پھر سوال بنتا ہے کہ حاصل کیا ہو گا؟ عمران خان کے کئی ایک میانوالی سے تعلق رکھنے والے قریبی رشتہ دار‘ جو ہمارے بھی جاننے والے ہیں‘ ہم سے کہتے تھے کہ نالائق، نالائق ہی رہیں گے۔ سیاست کی اُنہیں سمجھ نہیں ہے اور حادثاتِ زمانہ کی وجہ سے اقتدار تو اُنہیں مل گیا ہے‘ لیکن اُنہوں نے وہ گُل کھلانے ہیں کہ تاریخ یاد رکھے گی۔ سیاسی ناپختگی کے تو ہم بھی قائل تھے۔ ارد گرد کے لوگوں کی صلاحیتوں سے بھی ہم بخوبی واقف تھے۔ لیکن قریبی رشتہ داروں کی باتوں کو ہم مبالغہ آرائی سمجھے تھے۔ اِن میں سے کچھ قریبی رشتہ داروں کی عمران خان سے ذاتی عداوت بن چکی تھی اور ہم اِن کی تنقید کو اُسی عداوت کا حصہ سمجھتے تھے۔ لیکن اب عیاں ہوتا جا رہا ہے کہ اُن کی تنقید اتنی بے جا نہ تھی۔ یہ واقعی نا اہلوں کا ٹولہ ہے اور اِن کی نا اہلی کا کوئی علاج نہیں۔ جب بنیادی سمجھ ہی نہ ہو تو آپ کسی کو بڑی سے بڑی یونیورسٹی میں ڈال دیں‘ وہ پھر بھی ناسمجھ ہی نکلے گا۔ درس گاہیں آپ کو تراش سکتی ہیں، عقل مہیا نہیں کر سکتیں۔ یہاں پہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
یہ جو ہمیں ہر موقع بے موقع بتایا جا رہا ہے کہ سیاسی اور دوسرے لوگ ایک ہی پیج پہ ہیں اِس سے ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ ایک صفحے پہ لاکھ اکٹھے ہوں بات آخر صلاحیت کی بنتی ہے۔ جب وہ نہیں تو ایک صفحے پہ ہونا بے معنی رہ جاتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ہے کہ آدھی سے زیادہ سیاست سلاخوں کے پیچھے ہے۔ ماضی کے تمام لیڈر کسی نہ کسی امتحان سے دوچار ہیں۔ رہ جاتے ہیں عمران خان اور اُنہیں آزمایا جا رہا ہے۔ آزمائش میں کتنے سرخرو نکل رہے ہیں وہ اب خاص و عام پہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔ کہنے کو تو یہ ٹھیک ہے کہ 2018ء کے الیکشنوں نے ایک جمہوری فیصلہ صادر کیا اور اُس کے نتائج جو بھی ہوں جمہوریت کے اصول کے تحت اُنہیں برداشت کرنا چاہیے اور اگلی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ 2018ء میں اصلی دیسی گھی نہیں تھا یعنی خالص جمہوریت نہیں تھی۔ اُس میں کچھ ملاوٹ بھی ڈالی گئی تھی اور ملاوٹ نہ ہوتی تو عمران خان کی صورت میں شاید موجودہ نتیجہ نہ نکلتا۔ لیکن اس اعتراض کے باوجود پھر بھی اور کوئی متبادل نہیں ہے۔ اسی سے گزارہ کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر گزارہ کرنا ہے تو یہ مولوی صاحب کہاں سے آ گئے؟ اِن کی اچانک سر اُٹھانے والی مہم جوئی کا مقصد کیا ہے؟ آسانی سے بات سمجھ آنے والی نہیں ہے۔
البتہ اتنا ہمیں پتہ ہے کہ سویلین حکمرانی نام کی کوئی چیز صحیح معنوں میں یہاں نہیں ہے۔ جمہوریت ہماری بس دکھاوے کی ہے۔ پارلیمنٹ بھی ہے، سیاسی پارٹیاں بھی، اور ایک حد تک آزاد میڈیا بھی۔ بیشتر مسلمان ممالک میں ایسا بھی نہیں۔ تو جو کچھ ہے اُسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔ نہیں تو مصر کے حالات ہم دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی بولے تو سہی وہاں اور اُس کا وہ حشر ہوتا ہے کہ لوگ یاد کریں۔ لیکن یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ ہماری جمہوریت ملاوٹ شدہ ہے۔ اصل طاقتیں اور ہیں اور بڑے فیصلے وہی کرتی ہیں۔
کچھ سیاست دانوں نے اپنے آپ کو گندا کیا اور مواقع گنوائے۔ کرپشن میں پڑے تو تمام حدیں پھلانگ دیں۔ اس سے اوروں کو موقع ملا کہ اِنہیں مزید گندا کریں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت سے ماورا طاقتیں اصل طاقت رکھتی ہیں۔ اور یہ پاکستان کی شروع سے کہانی ہے۔ آج کے سیاستدان تو مان لیا بڑے نکمّے اورکرپٹ ہیں لیکن خان لیاقت علی خان کا کیا قصور تھا؟ وہ نواب تھے اور سب کچھ چھوڑ کے پاکستان آئے تھے۔ سب جائیداد پیچھے چھوڑ دی اور یہاں ایک دھیلے کی جائیداد نہ بنائی۔ قابل بھی تھے۔ اُن کے قتل کا سبب کیا تھا؟ اُن کا قتل ہی پاکستانی تاریخ کا وہ فیصلہ کن موڑ تھا جب سیاسی قیادت کمزور ہوئی اور ملک کی قسمت پہ اعلیٰ نوکر شاہی کا قبضہ ہو گیا۔ 1958ء کے بعد نوکر شاہی کی جگہ اوروں نے لی۔ جمہوریت دکھاوے کیلئے ضرور ہے لیکن اصل کنٹرول کہیں اور ہے۔
یہ پاکستان کی بنیادی حقیقت ہے۔ باقی سب کھیل اور تماشے ہیں جو وقتاً فوقتاً ہمیں محظوظ رکھنے کیلئے برپا کیے جاتے ہیں۔ دھرنے ہوں یا لانگ مارچ، سامنے کی پُتلیوں کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ڈوریں پیچھے سے ہلانے والے عام نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اور پاکستان کا مزید بیڑہ غرق ہوتا رہتا ہے۔