آج اقتدار پہ براجمان لوگ ہمیں تبدیلی کا درس کیا دیں گے۔ اپنی زندگی میں بہت تبدیلیاں ہم دیکھ چکے، اتنی کہ اب جی تبدیلی سے بھر چکا ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان کا واحد مسئلہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ انتخاب ہوں گے تو سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ 1970ء میں خدا خدا کر کے ملک کے پہلے عام انتخابات ہوئے اور وہ بھی ایک خالص فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں۔ نتائج ایسے نکلے کہ ہم سنبھال نہ سکے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی طاقت اور سوشلزم کا نعرہ لگایا۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ایسے نکلے کہ بھٹو کا دور ایک مارشل لاء پہ ختم ہوا۔ وہ بھی ایسا کہ قوم کا مزاج درست ہو گیا۔ کسی نہ کسی شکل میں اس مارشل لاء کے نقوش قوم کے اجتماعی ذہن پہ اب تک موجود ہیں حالانکہ سوچنے کا مقام ہے کہ ضیاء الحق کو گئے تیس سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ قوم میں فراست و ہمت ہوتی تو اِس عرصے میں ضیاء دور کے اثرات مٹائے جا سکتے تھے۔ وہ تو ہماری قیادتیں کر نہ سکیں لیکن فیشن بن چکا ہے کہ ہر گناہ اُن کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔ ایک نکتہ ہی لے لیجیے۔ ضیاء الحق کی وفات سے لے کر اب تک پاکستان کی آبادی سو ملین یعنی دس کروڑ بڑھ چکی ہے۔ یہ اضافہ ضیاء الحق کی وجہ سے ہوا؟
ضیاء الحق دور میں قوم بٹی ہوئی تھی۔ ایک وہ تھے جن کی تمام بات اسلام سے شروع ہوتی اور وہیں پہ ختم ہوتی۔ ضیاء الحق کے ہر کارنامے کو اسلام کی عظمت کے پیرائے میں دیکھا جاتا۔ دوسری طرف جمہوریت پسند یا لبرل سوچ رکھنے والے لوگ تھے جن کو ضیاء الحق کی ہر چیز بُری لگتی تھی اور وہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ملک کا مسخ شدہ چہرہ تب ہی درست ہو گا جب جمہوریت واپس آئے گی۔ ضیاء الحق کی زندگی میں آدھی جمہوریت واپس لوٹ آئی اور بقیہ اُن کی وفات کے بعد آ گئی۔ اِس واپس آئی ہوئی جمہوریت کے علم برداروں نے ایسے گُل کھلائے کہ قوم کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ گویا قوم نے دونوں مزے چکھ لیے، آمریت کے اور پھر خالص جمہوریت کے۔
جنرل مشرف کے زمانے میں قوم ایک اور انقلاب سے گزری۔ آمریت بھی تھی لیکن مکمل نہیں۔ میڈیا آزاد تھا اور نجی ٹی وی چینلوں کو کھلنے کی اجازت ملی۔ قوم کو اس آزادی سے کیا ملا یہ کہنا تو آسان نہیں لیکن میڈیا سے منسلک لوگوں کے حالات بہتر ہو گئے۔ میڈیا نے کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا اور بالآخر اُسی ہاتھ کو کاٹا جس سے اُس کو فائدہ پہنچا تھا‘ لیکن یہ ایک اور کہانی ہے۔
دو اور چیزیں بھی مشرف دور میں ہوئیں۔ افغانستان پہ امریکہ نے حملہ کیا تو القاعدہ افغانستان سے ہمارے قبائلی علاقوں میں منتقل ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد پاکستان کو سمجھ آنے لگی کہ اِس منتقلی سے اُسے کیا نقصان ہوا ہے۔ لیکن اُس دور میں امریکہ کا حمایتی بننے کی وجہ سے پاکستان میں پیسہ بھی بہت آیا۔ اُس پیسے سے قوم نے بنایا تو کچھ زیادہ نہیں لیکن بہت سارے طبقات کو فائدہ ضرور پہنچا۔ جو سائیکلوں پہ تھے وہ موٹر سائیکل پہ آ گئے، موٹر سائیکل والے کاروں کے مالک بن گئے۔ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس پاکستانیوں کے لئے یہ ایک نیا تجربہ تھا کہ کسی بینک کے اندر گئے اور ایک کاؤنٹر پہ خوش لباس خواتین بیٹھی ہوں جو اُن کے سامنے کاغذ رکھیں۔ آپ دستخط کریں، کچھ ایڈوانس میں رقم دیں اور باہر نکلتے ہی نئی کار کے مالک بن جائیں۔ سڑکوں پہ کاروں کی ریل پیل نظر آنے لگی۔ اُس سے پہلے ٹوڈی گاڑی رکھنا سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹوڈی عام سی گاڑی ہو گئی۔ پیسے کی وجہ سے کاروبار بھی خوب چلے اور بہت سارا پیسہ رئیل اسٹیٹ میں گیا۔ زمین کے کاروبار میں خوب دھوم مچی اور ایک طبقے نے زمین کے اصلی اور نقلی کاروبار میں خوب پیسہ کمایا۔
لیکن پاکستان کی مڈل کلاس یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ اُس کے فائدے میں کیا ہے۔ اَب یہ مانے گا تو کوئی نہیں لیکن مشرف دور میں بیشتر طبقات کیلئے آسانیاں تھیں۔ آسانیاں بھی اور آسودگی بھی۔ لیکن جوں جوں مشرف کا اقتدار طویل ہوا مڈل کلاس اور لبرل طبقات میں اُکتاہٹ پیدا ہوئی اور جمہوریت کی تڑپ اُنہیں پھر اپنی لپیٹ میں لینے لگی۔ اچھی خاصی جمہوریت مشرف دور میں موجود تھی۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل جو چاہیں کہہ سکتے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب فوج پہ تنقید کا کوئی سوچ نہیں سکتا تھا۔ مشرف دور کے آخر میں وہ وقت بھی آیا کہ ہر کالم نویس اپنا کالم مکمل نہ سمجھتا جب تک فوج پہ دو تین پھبتیاں نہ کستا۔ لیکن مڈل کلاس میں یہ بخار پھیل چکا تھا کہ صدر ہو تو بغیر وردی کے۔ وردی والے صدر کے ہوتے ہوئے جمہوریت نہیں آ سکتی۔ اُن سے کوئی پوچھتا کہ وردی والے صدر سے آپ کی صحت پہ کیا اثر پڑتا ہے؟ لیکن قومی ضد بن چکی تھی کہ صدر ہو تو وردی کے بغیر۔ وکلاء کی تحریک بھڑک اُٹھی اور چیف جسٹس افتخار چوہدری قوم کے ہیرو بن گئے۔ لیکن کچھ اندر کی بھی بات تھی۔ کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ کسی نہ کسی شکل میں جسٹس چوہدری کو جنرل کیانی‘ جو تب آرمی چیف نہیں ایک ادارے کے سربراہ تھے‘ کی حمایت حاصل تھی۔ جو بھی حقائق ہوں جنرل مشرف کی حکومت وکلاء تحریک پہ قابو نہ پا سکی اور اُس سے کمزور بھی ہوئی۔
نواز شریف کو قوم دو دفعہ بطور وزیر اعظم بھگت چکی تھی۔ یعنی قوم میاں صاحب کی خوبیوں اور خامیوں سے بخوبی واقف تھی۔ لیکن دورانِ جلا وطنی نواز شریف یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوئے تھے کہ اب کی بار آئیں گے تو پرانا نہیں ایک نیا نواز شریف ہو گا، خامیوں سے پاک اور نئے عزم سے سرشار۔ جمہوریت کے نشے میں قوم نے ایک بار پیپلز پارٹی کو پھر بھگتا اور پی پی پی کے دورانیے کے بعد نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن گئے۔ آج کا قرض لدا پاکستان اُن دو جمہوری ادوار کا شاخسانہ ہے۔ پی پی پی اور نواز شریف سے نیا کیا ہونا تھا۔ دونوں جماعتیں اور قیادتیں پرانی ڈگروں پہ ہی چلتی رہیں۔ کسی بات سے بھی شائبہ نہیں ہوتا تھا کہ اُنہوں نے تاریخ یا اپنے حالات سے کچھ سبق سیکھا ہو۔
لیکن قصور صرف سیاسی قیادتوں کا نہیں رہا۔ دیکھا جائے تو ہمارے شاہسواروں نے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں شاہسواروں نے نواز شریف کو تیار کیا اور انہیں بطور نجات دہندہ قوم کے سامنے پیش کیا۔ پیپلز پارٹی سے حساب چکایا گیا تو نواز شریف سے بھی اُکتا گئے۔ اُن کی جگہ ایک نیا نجات دہندہ تیار کیا گیا جس کے کارناموں کی زَد میں قوم آج کل ہے۔ جو تعاون ہو سکتاتھا اِس نجات دہندہ کو بہم پہنچایا گیا‘ لیکن سکے کو آپ جتنا بھی پالش کریں اُس کی حقیقت تو نہیں بدلتی۔ یہی کچھ اب دیکھنے میں مل رہا ہے۔ البتہ قوم کو نوید دی جا رہی ہے کہ یہ تکلیف کے دن بس تھوڑے سے ہیں۔ قوم یہ برداشت کر لے گی تو جلد ہی ترقی اور خوشحالی کے راستے کھُل جائیں گے اور پاکستان جنوبی کوریا نہیں تو ملائیشیا کے ساتھ ضرور آن کھڑا ہو گا۔ بہت سے مڈل کلاسیوں نے یہ سہانا خواب خرید لیاتھا۔ آج کے نجات دہندہ کے حامی یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ بس تھوڑا صبر کریں اور کچھ ٹائم دیں‘ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن ان تیرہ چودہ مہینوں میں قوم کی ایسی درگت بنائی جا چکی ہے کہ تگڑے حمایتیوں کی آنکھوں سے بھی پٹیاں کھلنے لگی ہیں۔
اِس اثناء میں قوم کو ایک اور پیغام ملا ہے کہ نواز شریف صعوبتوں کے سامنے اپنی ثابت قدمی کی وجہ سے مزاحمت کی علامت بن گئے ہیں۔ حوصلہ افزا خبر ہے لیکن سوال بنتا ہے کہ یہ مزاحمت اور اُس کے حوالے سے علامت قوم کے کس کام آئے گی۔ کیا نواز شریف قوم کے لینن بننے جا رہے ہیں؟ کیا نون لیگ انقلاب روس کے راستے پہ چلنے کی تیاری کر رہی ہے؟ فی الحال تو ایک نئی تبدیلی کا بگل مولانا فضل الرحمان بجا رہے ہیں۔ یعنی جن عطار کے لونڈوں سے قوم کی آدھی بیماری لاحق ہوئی ہے وہی اب دوا بیچنے نکل پڑے ہیں۔ ہماری تقدیر میں ایسے ہی انقلاب لکھے ہوئے ہیں۔