دن کیسے شروع ہونا چاہیے؟ عرصے سے ہماری صبح کا آغاز کافی سے ہوتا رہا ہے۔ ایک طرف پیالی دوسری طرف اخباروں کا پلندہ۔ لیکن اخبارات اَب بور کرتے ہیں۔ روزانہ کی سیاسی خبریں جی کو بوجھل کر دیتی ہیں۔ کچھ ایسا لکھا بھی نہیں ہوتا جس سے دل ہلکا اور خوش ہو جائے۔
ایک زمانہ تھا جب ریڈیو سیلون پہ پرانی فلموں کے سنگیت سُنا کرتے تھے۔ شارٹ ویو ریڈیو کان سے لگائے پرانے زمانے کے مدھر گیت سُننے کی عادت بن گئی تھی۔ اسی سے آشنائی کندن لعل سہگل کی آواز سے ہوئی کیونکہ اِس پروگرام کا آخری گیت ہمیشہ اُن کا ہوا کرتا تھا۔ عمر تب اتنی زیادہ نہ تھی‘ اور اُس چھوٹے پن میں تجسّس ہوتا تھا کہ یہ کون سا گائیک ہے جس کی آواز میں یہ آخری گیت سُنایا جاتا ہے۔ تجسّس پورا کرتے ہوئے سہگل صاحب کے گانوں کی تلاش شرو ع کی اور پھر آہستہ آہستہ احساس ہوا کہ واقعی کتنے بڑے گانے والے ہیں۔ سہگل صاحب کی آواز سے تو ناتہ رہا لیکن ریڈیو سیلون سے تعلق ٹوٹ گیا۔ کیسٹ ریکارڈ آ گئے، ہم نے کیسٹ لینے شروع کیے اور پھر ریڈیو سیلون پہ تکیہ کرنا جاتا رہا۔ لیکن اَب حسن اتفاق ایسے ہوا کہ وہ ٹوٹا ہوا رشتہ بحال ہو گیا ہے۔
یو ٹیوب پہ اچانک ایک دن یہ راز کھلا کہ ریڈیو سیلون انٹر نیٹ پہ بھی سُنا جا سکتا ہے یعنی صبح سات بجے جو اِس پروگرام کا وقت مقررہ ہمیشہ سے رہا ہے آپ مس بھی کر جائیں تو بعد میں کسی بھی وقت انٹرنیٹ پہ جا کے آپ پروگرام سُن سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ صبح کا آغاز پرانی فلموں کے سنگیت سے نہ بھی ہو تو کسی وقت شام کو جب سامانِ شب ترتیب دینے کا وقت آئے تو جی چاہتا ہے کہ آدھ گھنٹے کیلئے گزرے زمانے کے اِن گانوں کو سُن لیا جائے۔ پرانے وقتوں میں ریڈیو سیلون کی کیسی کیسی اناؤنسرز ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اَب بھی کمال کی ہیں۔ ساری اچھی ہیں لیکن دل میں بہہ جانے والی آواز جیوتی پرمار کی ہے۔ ایک تو بلا کی آواز اوپر سے انداز بھی ایسا کہ بس مزا آ جاتا ہے۔ ذوق بھی جیوتی پرمار کا بہت عمد ہ ہے کیونکہ جب وہ پروگرام کرتی ہیں تو گانوں کی سلیکشن بہت اچھی ہوتی ہے، ایسے ایسے گانے جو پہلی بار سُننے کو ملتے ہیں۔ ایک اور اُن میں منفر د بات ہے کہ جب پروگرام کے اختتام پہ پہنچتی ہیں تو اکثر یہ کہتی ہیں کہ اَب کندن لعل سہگل صاحب کی امر آواز میں ہم فلاں گانا سنانے جا رہے ہیں۔ یقین مانیے کہ کئی بار جب وہ اَمر کا لفظ استعمال کرتی ہیں تو آنکھیں بھیگ سی جاتی ہیں۔ سہگل صاحب کے گانے کے بعد جب وہ پروگرام ختم کر رہی ہوتی ہیں تو یہ بھی کہتی ہیں کہ آپ نے ہمارا پروگرام سُنا اِس کیلئے ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کامنا کرتے ہیں کہ آپ سب کیلئے آج کا دن شُبھ ہو۔ کئی بار میں ریوائنڈ کر کے یہ آخر کے جملے ایک سے زیادہ بار سُنتا ہوں۔
ایک اور اناؤنسر پدمنی پریرا ہیں۔ وہ سری لنکا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ہندی پروگرام کی شاید ہیڈ ہیں۔ وہ بھی کبھی کبھی پرانی فلموں کا سنگیت پیش کرتی ہیں۔ اُن کا انداز بھی بہت بھلا ہے۔ سہگل صاحب کی برسی 18 جنوری کو ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے اُس دن سارا پروگرام اُنہی کے گانوں پہ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ وہ برسی والا پروگرام پیش کر رہی تھیں اور بیچ میں انہوں نے کہا کہ ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ سہگل صاحب کی کمزوری کیا تھی۔ لیکن ساری دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ سہگل صاحب کی آواز میں جو نشہ تھا وہ مَے میں نہیں۔ پھر انہوں نے وہ مشہور گانا سُنایا ''پیے جا اورپیے جا‘‘۔
لتا منگیشکر کی عمر اِس وقت لگ بھگ نّوے سال ہے۔ کچھ دن ہوئے اُن کی طبیعت خراب ہوئی اور انہیں ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ اِن دنوں پرانی فلموں کے سنگیت میں جیوتی پرمار اور پدمنی پریرا دونوں نے متعدد بار لتا منگیشکر کی بیماری کا ذکر کیا، اُنہیں خراج تحسین پیش کیا اور دُعا مانگی کہ وہ جلد صحت یاب ہوں اور اُن کی عمر لمبی ہو۔ لتا منگیشکر کی آواز ہماری عمر کے لوگوں کی زندگی کا حصہ رہی ہے۔ ہوش سنبھالی تو اُن کی آواز سُنی اور اَب تک سُنتے آ رہے ہیں۔ بر صغیر میں بڑے گویّے آئے ہیں لیکن اَب دل گواہی دیتا ہے کہ فی میل سنگرز میں لتا منگیشکر سے کوئی بڑا نہیں آیا۔ 1940ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اور 1950ء کی دہائی میں اُن کے گانے بے مثال ہیں۔ فن کی جن بلندیوں پہ وہ پہنچیں کوئی اور نہیں پہنچ سکتا ۔اُن کی آواز کا جادو پتہ نہیں پھر اِس دنیا میں آئے گا یا نہیں۔ ہر بڑے گانے والے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کی آواز خدا کی دَین ہے۔ لتا کے انمول گانے سُنیں تو لگتا ہے کہ یہ بس خدا کی دَین ہے۔ میوزک ترتیب دینے والے بہت سے آئے لیکن کئی ایک ایسے گانے ہیں جن کی دُھن کھیم چند پرکاش نے ترتیب دی ۔ وہ دُھنیں دل کو بہت لگتی ہیں۔ انیل بسواس نے بھی بہت اعلیٰ میوزک ترتیب دی ہے۔ غلام محمد کے بھی کئی لتا منگیشکر کی آواز میں گانے ہیں‘ جن کا اَثر دل سے نہیں جاتا۔ البتہ کہا جاتا ہے کہ لتا منگیشکر کو صحیح دریافت کرنے والے ماسٹر غلام حیدر تھے۔ تب فلمی گانوں پہ راج نور جہاں کا تھا۔ یہ تقسیمِ ہند سے پہلے سالوں کی بات ہے۔ جیسے ہم جانتے ہیں نور جہاں کی آواز بھری ہوئی تھی۔ اُن کی نسبت لتا منگیشکر کی آواز تھوڑی پتلی تھی۔ تب کے میوزک ڈائریکٹر کہتے تھے لتا کی آواز زیادہ نہیں چل سکتی۔ اسی لیے اُنہیں زیادہ کام اُس وقت نہیں ملتا تھا۔ لیکن ماسٹر غلام حیدر کہتے تھے کہ ایک دن آئے گا جب تمام میوزک ڈائریکٹر لتا کے پاؤں پڑیں گے گانوں کیلئے۔ اُن کی بات سچ نکلی۔
شروع کے سالوں کے گانے بھی لتا منگیشکر کے بہت اعلیٰ پائے کے ہیں۔ لیکن جب فلم محل میں اُنہوں نے کھیم چند پرکاش کی موسیقی پہ وہ لا جواب گانا گایا ''آئے گا آنے والا‘‘ تو پورے ہندوستان میں یوں سمجھیے ایک تہلکہ مچ گیا۔ اور پھر ایک سے ایک بڑا گانا لتا نے گایا۔ جیوتی پرمار اور پدمنی پریرا ٹھیک ہی دعا مانگتی ہیں کہ اُن کی عمر اِس سے بھی لمبی ہو۔
ہر آرٹسٹ کی زندگی میں چھوٹے موٹے پرابلم آتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔ لتا منگیشکر کا جھگڑا اُس دوسرے لافانی گائیک محمد رفیع سے رہا۔ لتا کہتی تھیں کہ گانے والوں کو رائیلٹی بھی ملنی چاہیے۔ رفیع صاحب کا مؤقف تھا کہ ایک دفعہ گانے کے پیسے لے لیے تو وہی کافی ہونے چاہئیں۔ جھگڑا ایسا بڑھا کہ کئی سال لتا اور رفیع نے مل کر گانے نہیں گائے۔ پھر آخر میں صلح ہو گئی۔ مشہور میوزک ڈائریکٹر ایس ڈی برمن سے بھی لتا ناراض ہوئیں کیونکہ اُن کے کانوں تک یہ بات پہنچی کہ ایس ڈی برمن کہتے ہیں کہ اُنہوں نے لتا کو بنایا۔ لتا نے اُن کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا۔ جب وقت گزرے گا تو یہ جھگڑے اور ایسی باتیں کسی کو یاد نہ رہیں گی۔ دِلوں میں جو چیز بسے گی وہ لتا منگیشکر کی لا جواب آواز ہے۔ صدیاں بیت جائیں گی اُن کے گانے سُنے جائیں گے۔ اور آنے والی نسلیں حیران ہوں گی کہ ایسی آواز بھی تھی۔
ایک بات دلچسپی سے خالی نہیں۔ لتا جب چھوٹی تھیں اور سہگل صاحب کے گانے سُنتی تھیں تو وہ کہتی تھیں کہ بڑے ہو کے اُنہوں نے سہگل صاحب سے شادی کرنی ہے۔ دونوں کی ملاقات بھی کبھی نہ ہو سکی لیکن لتا منگیشکر سہگل صاحب کی آواز سے متاثر رہیں۔ جیسے اوپر عرض کیا‘ بر صغیر میں بڑے بڑے گویے آئے لیکن سب مانتے ہیں کہ بر صغیر کے سینما کے پہلا سپر سٹار کندن لعل سہگل تھے۔ اُن کی آواز منفرد تھی، اُن کے گانے کا انداز اپنا تھا۔ اُن جیسا کوئی اور نہیں آ سکتا۔ اور یہ بھی سب مانتے ہیں کہ لتا منگیشکر جیسی گانے والی بھی نہیں آ سکتی۔