فیاض الحسن چوہان جب پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیر اطلاعات و ثقافت بنے تو اُن سے ایک دن ٹیلی فون پہ بات چیت ہوئی۔ میں نے شاید کچھ ثقافت کے بارے میں لکھا تھا اور اُن کا فون اُسی سلسلے میں تھا۔ بڑے بلند بانگ دعوے انہوں نے کیے۔ کہنے لگے کہ گورنر ہاؤس میں فلاں محفل ہونے والی ہے اور تمہیں بھی دعوت نامہ پہنچ جائے گا۔ یہ بھی کہا کہ الحمرا میں گانے بجانے کا ایک سلسلہ شروع ہو گا‘ جس کے تحت پنجاب بھر سے ٹیلنٹ چُنا جائے گا۔
ثقافت کے حوالے سے فیاض الحسن چوہان نے اپنی وزارت میں ایک ایڈوائزری کونسل بھی بنا رکھی تھی۔ ایک ممبر تو اُس کی ہماری دوست طلعت عظیم تھیں اور اُنہی کے گھر میں ایک دو اور ممبران سے ملاقات ہوئی۔ ظاہر ہے خواتین تھیں اور ماشاء اللہ بہت ہونہار لگتی تھیں۔ ہماری جو ٹیلی فونک گفتگو چوہان صاحب سے ہوئی اُس میں انہوں نے کہا کہ ہماری ایڈوائزری کونسل میں سے کوئی تم سے رابطہ کرے گا۔ چونکہ ایڈوائزری کونسل کے ایک دوممبران ہم دیکھ چکے تھے تو دل ہی دل میں اِس بات پہ خوش ہوئے۔ لیکن نہ کسی گورنر ہاؤس کی محفل کا دعوت نامہ آیا اور نہ ہی ایڈوائزری کونسل کے کسی رُکن نے رابطہ کیا۔ چند دن بعد ہی چوہان صاحب کی وزارت بھی گئی۔ اَب دوبارہ پنجاب کابینہ میں لے لیے گئے ہیں لیکن قلم دان انہیں صرف اطلاعات کا ملا ہے۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ ہماری اُن سے شناسائی ہے لیکن اُن کے اطلاعات کے محکمے سے ہم نے کیا کرنا ہے۔ ثقافت اُن کے پاس رہتی تو پھر کوئی بات بھی تھی۔ الحمرا آیا جایا کرتے۔ ٹائم اچھا پاس ہو جاتا۔
اطلاعات میں کیا پڑا ہے۔ ایک اور فردوس عاشق اعوان بن جانا یا شیخ رشید۔ وہ آسامیاں تو پہلے ہی پُر ہیں۔ اعوان صاحبہ اور شیخ رشید دونوں کا ملکہ ہے کہ اور کام کر سکیں یا نہیں بولنے میں مہارت رکھتے ہیں اور بولتے ہی رہتے ہیں، موضوع چاہے جو بھی ہو۔ ایسے ماحول میں اپنی جگہ بنانا آسان کام نہیں لیکن چوہان صاحب کی صلاحیتوں کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بھی خوب بول لیتے ہیں لیکن ہمارے فائدے کی بات اِس میں کچھ نہیں۔ ثقافت کا قلم دان اُن کے پاس ہوتا تو بات بنتی۔
بات کرنے پہ وہ قصہ یاد آیا جو میڈم نور جہاں سے منسوب ہے۔ ہمارے دوست خالد حسن‘ جو اپنے زمانے کے ٹاپ کے انگریزی کالم نگار تھے‘ نے میڈم پہ ایک پروفائل لکھا‘ جس میں یہ درج تھا کہ میڈم سے کسی نے ایک دفعہ کہا کہ سردار محمد اقبال‘ جو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے‘ بہت اچھے آدمی ہیں۔ میڈم نے کہا: واقعی اچھے آدمی ہیں۔ بات کرنے والے شخص نے کہا: سردار صاحب بڑی اچھی باتیں کرتے ہیں۔ میڈم نے کہا: واقعی بہت اچھی باتیں کرتے ہیں، ساری رات باتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔
اخبارات میں ذکر آیا ہے ہمارے دوست ظفر اقبال مرزا کی وفات کا۔ اپنی نوعیت کے الگ ہی انسان تھے۔ اپنی ذات میں ایک پوری انجمن۔ ہماری یاری بھی اُن سے ہو گئی تھی لیکن اب افسوس آتا ہے اِس بات پہ کہ ہم بے وفا نکلے۔ وہ بیمار پڑے تو ہم پوچھنے بھی نہ گئے حالانکہ بڑی محفلیں اُن کے ساتھ کیں اور اُن کے گھر بھی اُن کی میزبانی سے متعدد بار لطف اندوز ہوئے۔ بس کاہلی سمجھیے یا لا پروائی حالانکہ اصل نام تو ایسی کیفیت کا بے وفائی ہی ہے۔
ایک دفعہ کا قصّہ ہے‘ ہم لاہور میں تھے اور مرزا صاحب کے ساتھ بیٹھ کے شام کی محفل کہیں سجی۔ بیچ میں شاید کسی چیز کی کمی پڑ گئی تو کہنے لگے: چلو ایف ای چوہدری کے گھر چلتے ہیں۔ ایف ای چوہدری پاکستان ٹائمز کے سینئر فوٹو گرافر تھے۔ یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ اُن کے بیٹے ونگ کمانڈر سیسل چوہدری کا شمار 1965ء کی جنگ کے ہیروز میں ہوتا ہے۔ چوہدری کے گھر پہنچے تو باہر سے ہی آواز دی۔ وہ کھڑکی سے نمودار ہوئے اور اُونچی آواز میں پوچھا ''کی گل اے‘‘۔ مرزا نے کہا کہ فلاں چیز کی کمی پڑ گئی ہے تو چوہدری اندر گئے اور ضرورت پوری کر دی۔ ہم واپس ایبٹ روڈ لوٹے جہاں اب دنیا اخبار اور ٹی وی کا دفتر ہے۔ اُس زمانے میں لاہور کی سب سے مشہور ٹکا ٹک کی دکانیں اس روڈ پہ تھیں۔ وہاں ہم نے کھایا پیا اور پھر پروگرام بن گیا کہ بادشاہی مسجد کے متصل محلے میں چلتے ہیں۔ میری فوکس واگن گاڑی تھی، اُس پہ ہم وہاں پہنچے۔ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا اور گو پہلے جیسی رونقیں نہیں تھیں‘ پھر بھی تھوڑی بہت سی جگہیں کچھ نہ کچھ معاملہ کر لیتی تھیں۔ ایک ایسی جگہ پہ ہم پہنچے۔ سنگیت سے متعلقہ لوگ منہ لٹکائے اُداس سے بیٹھے ہوئے تھے۔ لگتا یوں تھا کہ پوری شام ہم اُن کے پہلے مہمان تھے۔ ہمیں دیکھ کر سازندوں کی آنکھوں میں جان آئی۔ سنگیت شروع ہوا۔ ہمارے پاس کہاں اتنے پیسے تھے۔ چند نوٹ ہی ہوں گے سو سو کے حالانکہ اُس وقت سو کے نوٹ کی پھر بھی کچھ قدر تھی‘ آج والی بے توقیری نہیں تھی۔ ایک سو کا نوٹ جیب سے نکالا اور اُسے تڑوایا۔ ایک ایک روپے کی تھدّی ملی اور وہ سازندوں پہ نچھاور ہوئی۔ دوسرا سو کا نوٹ تڑوایا تو کسی نے ہاتھ مارا اور پورے سو کی تھدّی ہوا میں بکھر گئی۔ وہاں موجود سب ہنس پڑے۔ اتنے میں دروازے پہ زور زور سے کسی نے دستک دی۔ دھڑام کر کے ایک پولیس پارٹی اندر آئی۔ اُن کا جھگڑا وہاں رہنے والوں سے ہو گا‘ لیکن بہانہ انہوں نے یہ بنایا کہ تمہاری گاڑی غلط جگہ پہ کھڑی ہے۔ ایک پھول والا تھانیدار تھا۔ میں نے اُسے گھور کے دیکھا تو آگے سے اُس نے کہا ''کدی تھانے دار نئیں ویکھیا؟‘‘۔ مرزا نے گھٹنے پہ تھپکی دی کہ چپ رہو۔ غصہ پینا پڑا لیکن بعد میں جب بھی ایسا کوئی موقع ہوتا تو مرزا کہتے کدی تھانیدار نئیں ویکھیا۔
اَب مرزا نہیں رہے اور ہمارے بال بھی سفید ہو گئے ہیں۔ جنرل ضیاء بھی گئے، اُن کا دور بھی گیا۔ اب یہ ایک نئی دنیا ہے۔ اِس کے اپنے مسئلے اور اپنی قباحتیں ہیں۔ بہرحال گزرے وقتوں کے بارے میں زیادہ سوچنا اچھا نہیں ہوتا۔ نوسٹیلجیا (Nostalgia) یعنی گزرے وقتوں میں گم رہنا اچھی چیز ہے اور اِس کا اپنا مزہ ہے لیکن ماضی میں زیادہ رہنا ایک حد تک ہی ہونا چاہیے۔
ڈپریشن سے ہم دور رہتے ہیں۔ اَب کوئی حقیقی یا مصنوعی صدمہ اپنے دل پہ نہیں آنے دیتے۔ لیکن کیا کریں اخبارات کا اور اپنے دھندے کا۔ یہ اپنی مزدوری ہے اور کچھ شوق کے تحت کچھ مجبوری کے تحت کرنی پڑتی ہے۔ روزانہ کی خبروں پہ نظریں دوڑائیں تو ڈپریشن کا آنا لازمی ہو جاتا ہے۔ فلاں نے اتنے کی کرپشن کی۔ فلاں کے اتنے پیسے باہر پڑے ہیں۔ نیب یہ کر رہی ہے اور یہ انکوائری شروع کر رہی ہے۔ کرپشن کے بارے میں کچھ کرنا بھی ہے یا ساری رات باتیں ہی کرتے رہنا ہے؟ اِن کہانیوں سے اَب تنگ آ چکے ہیں۔ کوئی اچھی بات ہو‘ ثقافت کے حوالے سے ہی سہی۔ لیکن یہاں چھوڑا ہی کیا ہے۔ کتنا بڑا شہر لاہور ہے؟ دنیا کے بڑے شہروں میں اِس کا شمار اب ہوتا ہے۔ لیکن لے دے کے ایک الحمرا ہال اور چند تھیٹر جہاں کچھ ناچ وغیرہ اور ذُو معنی ڈائیلاگ دیکھنے اور سُننے کو ملتے ہیں۔ اُس پہ بھی لوگوں کو اعتراض رہتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی ذُو معنی گفتگو نہ کرے تو اور کیا کرے۔ سیدھی اور صاف بات یہاں ہو نہیں سکتی۔ پھر اشاروں کنایوں پہ ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔
بس ٹھیک ہے‘ جو ہے بس ہے۔ تبدیل اِس صورت حال نے ہونا نہیں۔ معاشرے کی تشکیل کے لیے دو چیزیں چاہیے ہوتی ہیں: ہمت اور ذوق۔ خدا کے فضل سے یہ دونوں اشیاء ہمارے ہاں نایاب ہیں۔