پاکستان کی اچھی خاصی دوستی امریکا کے ساتھ رہی ہے لیکن وہ دوستی ہمیں سنوار نہ سکی۔ ہماری چین سے دوستی بہت گہری ہے لیکن یہ دوستی بھی ہمارا مستقبل سنوار نہیں سکتی۔ جاپان اپنی کوششوں سے جاپان ہے۔ جنوبی کوریا کا بھی یہی حال ہے۔ دوستی ہماری ہر ایک کے ساتھ ہونی چاہیے... امریکا، چین، حتیٰ کے روس سے بھی‘ لیکن اگر ہم نے کچھ اپنا بنانا ہے تو اپنی کوششوں سے کرنا پڑے گا۔ کسی اور نے آ کے ہمیں ترقی کی راہ پہ گامزن نہیں کرنا۔
بحیثیت قوم ہم میں ایک عجیب روش ہے۔ دوستی کو ہم نفسیاتی انحصار کی حدوں تک لے جاتے ہیں۔ امریکا سے ہم نے یہی کیا اور اب چین کے ساتھ بھی یہی کر رہے ہیں۔ چین کی مدد سے سڑکیں اور پاور ہاؤس اگر بن رہے ہیں تو بہت اچھی بات ہے لیکن یہ جو ہم شاعری میں پڑ جاتے ہیں کہ سی پیک 'گیم چینجر‘ ثابت ہو گا اور اس کی وجہ سے ہماری قسمت بدل جائے گی یہ نفسیاتی کمزوری کی نشانیاں ہیں۔ گفتگو کو محتاط ہم رکھ ہی نہیں سکتے۔ جارحانہ نعروں پہ جائیں تو حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ دوستی کی باتیں کریں تو ہمالیہ سے بلند، سمندوں سے گہری ، شہد سے میٹھی دوستی سے کم پہ راضی نہیں ہوتے۔
اس نفسیاتی کمزوری کی بنیادی وجہ ہماری ہندوستان دشمنی ہے۔ ریاستی پالیسی کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے، اُس نے ہمارے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور موقع ملنے پہ ہمیں تباہی سے ہم کنار کر دے گا۔ تمام دنیا کو ہم ہندوستان کی عینکوں سے دیکھتے ہیں۔ امریکا کی قربت ضروری تھی ہندوستان کی دشمنی کے حوالے سے۔ چین سے دوستی ضروری ہے ہندوستان کی وجہ سے۔ توازن ہماری سوچ میں آتا نہیں ہندوستان کی بناء پہ۔
یکا یک اِس سوچ نے تبدیل نہیں ہونا کیونکہ یہ سوچ ہماری رَگوں اور نفسیات میں رَچی ہوئی ہے۔ پاکستان بنا تھا مسلم قومیت کی بنیاد پہ۔ لیکن اس کے بعد ہماری تاریخ دیکھی جائے تو لگتا ہے کہ پاکستان ایک ہی نکتے پہ چل رہا ہے‘ ہندوستان دشمنی پہ۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آنکھیں بند کر کے سمجھ لیں کہ ہندوستان کے ارادے نیک ہیں یا مستقبل میں نیک رہیں گے۔ قوموں میں دشمنیاں ہوتی ہیں، مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا جو مسئلہ ہندوستان سے ہے وہ مفادات کے ٹکراؤ سے زیادہ ایک ذہنی کیفیت کا ہے۔ ہمارا ملک اتنا چھوٹا نہیں نہ اتنا بے سر و سامان ہے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جو ہم سے چھوٹے ہیں اور اُن کی تاریخی مخاصمت بڑے ملکوں سے رہی ہے۔ دو مثالیں ہی لے لیں۔ جب سے فن لینڈ ایک آزاد اور خود مختار ریاست بنا ہے‘ اُس کے تعلقات اپنے بڑے ہمسائے روس کے ساتھ تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ لیکن فن لینڈیوں نے وہ طریقے اپنائے جس سے اپنی خود مختاری بھی رہے اور روس سے تعلقات بھی اچھے رہیں۔ آج فن لینڈ روس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ فن لینڈ نے یہ خطرہ کبھی محسوس نہیں کیا کہ روس ایک ایٹمی طاقت ہے۔ ایسی سوچ فن لینڈیوں کے ذہنوں میں آتی ہی نہیں۔ دوسری مثال ویت نام کی ہے‘ جس کی اپنے بڑے ہمسائے چین سے ہزار سالہ رقابت رہی ہے۔ ویت نامی اپنے دفاع سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ جب 1978ء میں چین نے ویت نام پہ حملہ کیا تھا تو ویت نامیوں نے ڈٹ کے اپنا دفاع کیا اور چین کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔ لیکن ویت نام اپنے وجود کو چین کی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ دفاع پہ بھرپور توجہ دیتے ہوئے اپنے دیگر امور پہ بھی نظر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ویت نام کی معیشت دنیا کی تیز ترین معیشتوں میں سمجھی جاتی ہے۔
ہمارے مسائل ہندوستان سے ہوں گے‘ لیکن ہم نے انہیں روگ بنا کے اپنے گلے کا طوق بنا لیا ہے۔ کس نے کہا ہے کہ ہم اپنے دفاع سے غافل ہوں؟ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ جو ہمارا دفاعی تجزیہ کار منہ کھولتا ہے ہندوستان سے خطرے کی گردان پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا؟ ہندوستان ہم سے بڑا ہو گا، ہر لحاظ سے بڑا ہو گا، لیکن پاکستان اتنا گیا گزرا نہیں کہ وہ اُسے نگل جائے۔ پھر کیوں ہم ایسی باتیں کرتے ہیں جس سے تاثر ملتا ہے کہ ہمیں ہندوستان سے کوئی جانی خطرہ ہے؟
دونوں ممالک میں نیوکلیئر دوڑ سمجھ سے بالا تر ہے۔ ایک دوسرے کو ایک مرتبہ چھوڑ کے دس مرتبہ تباہ کرنے کی صلاحیت دونوں اطراف موجود ہے۔ پھر اِس نہ ختم ہونے والی دوڑ کی تُک کیا رہ جاتی ہے؟ جن کو ہم انگریزی میں ٹیکٹیکل (Tactical) نیوکلیئر ہتھیار کہتے ہیں اُنہیں اردو میں کیا کہیں؟ یہ وہ جوہری ہتھیار ہیں جو چھوٹے پیمانے پہ استعمال ہو سکتے ہیں‘ یعنی وہاں سے کوئی حملہ ہو تو آپ دہلی یا ممبئی پہ بم گرانے کی بجائے آنے والے فوجی دستوں کو نشانہ بنائیں۔ اِس سے زیادہ احمقانہ سوچ ہو نہیں سکتی۔ آپ اُن کے فوجی دستوں کو ٹارگٹ کریں تو ظاہر ہے رد عمل بھی آئے گا۔ لیکن ہمارے اونچے اونچے دفاعی تجزیہ کار ان بظاہر محدود پیمانے کے ہتھیاروں کی باتیں بڑی سنجیدگی سے کرتے ہیں۔
روس، فن لینڈ کو نگل نہیں سکا۔ چین، ویت نام کو دبا نہیں سکا۔ ہمارے ذہنوں میں کس نے یہ سوچ ڈال دی ہے کہ ہندوستانی فوج چلے گی اور ہمیں روند ڈالے گی؟ ایک ذہنی دباؤ کی فضا میں یہ ملک بنا تھا کہ پتہ نہیں ہندو ہمیں کھا جائیں گے۔ 1947ء میں ہندوستان کی کل آبادی چالیس کروڑ تھی جس میں سے دس کروڑ مسلمان تھے۔ ہمارے اکابرین اس خوف سے لرزاں تھے کہ ہندو اکثریت کے بل پہ حکمرانی ہو گی تو مسلمان نیست و نابود ہو جائیں گے۔ وہ تو چلیں تب کی باتیں تھیں ،تاریخ کا حصہ۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ وہ ڈر ہمارے ذہنوں سے گیا نہیں حالانکہ باتیں ہماری کوئی سُنے تو تاثر لے کہ ہمارے سے زیادہ دلیر قوم کرہ ارض پہ نہیں۔ کہتے ہم تھکتے نہیں کہ ڈر صرف اللہ سے ہے‘ لیکن بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے حوالے سے فکر ہمیں کھائے جاتی ہے۔ اس ذہنیت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ امریکا سے دوستی، چین سے قربت لیکن توازن کے ساتھ۔ پاکستان جب دو لخت ہوا تو نہ امریکی ساتواں بیڑہ ہمیں بچا سکا‘ نہ چین کی دوستی۔
وہ دسمبر کا ہی مہینہ تھا جب یہ سب کچھ ہوا۔ ہمارے فیصلہ سازوں نے کبھی برملا نہیں مانا لیکن اُس وقت اگر ہمارے کام کوئی آیا تو وہ روس تھا جس نے مسز اندرا گاندھی سے زور دے کے کہا تھا کہ مغربی پاکستان پہ حملے کا وہ سوچیں نہیں۔ یہ ایک ڈاکومنٹڈ حقیقت ہے۔
جہاں تک توازن کی بات ہے تو پھر ہندوستان سے بھی توازن رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ازلی دشمنی کی کیفیت سے ہمیں نکلنا چاہیے۔ جیسے عرض کیا‘ کبھی اپنے دفاع سے غافل نہ ہوں، اپنے مفادات کی حفاظت کریں لیکن اس بے جا دشمنی کی نفسیات سے نکلیں۔ پاکستان وسطی ایشیا یا کسی اور خطے کا حصہ نہیں۔ پاکستان بر صغیر کاحصہ ہے اور اس حقیقت سے کوئی چھٹکارا نہیں۔ ہم نے رہنا ہے تو یہیں اور دنیا کے ختم ہونے تک ہمارا ہمسایہ ہندوستان ہی رہے گا۔ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح ہندوستان سے نارمل تعلقات چاہتے تھے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ہمارے دو ملکوں کے تعلقات ایسے ہوں جیسے امریکا اورکینیڈا کے۔ لیکن جناح صاحب صرف یہی نہیں چاہتے تھے اُن کی اور بھی بہت خواہشات تھیں۔ ہم نے اُن خواہشات کو کون سا پورا کیا کہ ہندوستان کے بارے میں اُن کے خیالات کو اہمیت دیں۔
آخری بات کشمیر کی۔ ہمارے رونے دھونے سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال تبدیل نہیں ہو رہی۔ ہمیشہ سے کشمیر کا ایک ہی دیرپا حل تھا کہ ہندوستان اور پاکستان آپس میں کچھ طے کریں تا کہ کشمیریوں کی زندگی آسان ہو اور کشمیر کو تقسیم کیے ہوئے بارڈر مدھم پڑ جائے۔ دونوں اطراف آنا جانا آسان ہو جائے اور وہ صورتحال پیدا ہو جو کہ شمالی آئر لینڈ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم نہ سمجھے اور اب صورت حال ہندوستانی پالیسیوں کی وجہ سے یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ نئی سوچ کی ضرورت ہے لیکن وہ کہاں سے آئے گی؟