ہندوستان میں جوکچھ ہورہاہے ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ۔وہ اس لحاظ سے کہ وہاں پہ وسیع عوامی حلقے ایک ایسے قانون کے خلاف سرا پااحتجاج ہیں جوکہ مسلم دشمن سمجھا جاتاہے ۔احتجاج کرنے والے حلقے کہہ رہے ہیں کہ اس شہریت کے قانون سے ہندوستان کا سیکرلر چہرہ مسخ ہورہاہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا آئین کسی مذہب کے حق میں نہیں ہے ۔ بلا تمیز ِ مذہب تمام ہندوستانی شہری قانون کی نظر میںبرابر ہیں۔
مجوزہ قانون براہِ راست ہندوآبادی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تا۔ اس قانون کا ٹارگٹ مسلمان ہیں‘ لیکن وہاں کے وسیع حلقے شور مچا رہے ہیں کہ ایساقانون ہندوستان میں نافذ نہیں ہونا چاہیے۔ ہندوستانی آئین کی سیکولرسوچ پہ یہ کاری ضرب ہوگی ۔
لمحہ فکریہ دوحوالوں سے بنتاہے ۔ایک یہ کہ بہت سارے ایسے ہندو ہیں جو تعصب سے ہٹ کر وہاں کے مسلمانوں کے حق میں نہ صرف بات کرسکتے ہیں بلکہ باہر نکل کے بھرپوراحتجاج کا بھی حصہ بن رہے ہیں۔ دوئم یہ کہ سیکولر نظریات ہی ایسے ہندوؤں کو مسلمانوں کے حق میں بات کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ سیکولر سوچ نہ ہوتی اور صرف تعصب ہوتا تو پھر ہندوستان میں کسی ہندو نے وہاں کے مسلمانوں کے حق میں بات نہیں کرنا تھی ۔
مخصوص حالات کے پیش نظر ہمارے ہاں لفظ سیکولر برا سمجھا جاتارہاہے ۔ یہاں تک کہ سیاسی اکھاڑے میں کسی حوالے سے بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔خاص خیالات کے حامل افراد نے لفظ سیکولر کا ترجمہ لادینیت سے کیاہے۔ یعنی اس لفظ کے اصلی مفہوم سے ہٹ کر اسے دین کے خلاف لاکھڑا کیاہے؛ حالانکہ سیکولرازم کا مطلب صرف اتناہے کہ امورِریاست اورسیاست میں مذہب کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ جہاں ہوگا معاشرے میں مختلف قباحتیں پیدا ہوں گی ۔ اپنے ہاں کی بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے ‘کیونکہ بہت سے موضوعات پہ ہمارے ہاں کھل کے بات نہیں ہوسکتی ۔ فتویٰ لگ جاتا ہے یا ڈنڈے چل جاتے ہیں۔ ڈنڈوں تک ہی بات رہتی پھر بھی غنیمت تھی ۔ جنہیں ہم حساس نوعیت کے ایشو کہتے ہیں وہاںتو گولیوں تک بات پہنچ جاتی ہے ۔ اس لیے بحث کی غرض سے ہندوستان کو ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔وہاں جو کچھ ہورہاہے اُس کی بنیاد مذہبی انتہا پسندی ہے ۔موجودہ حکمران جماعت ہندوستان کو سیکولرازم سے ہٹ کر ایک ہندوراشٹریہ بنانا چاہتی ہے۔اُن کے نزدیک ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے اور اس میں مسلمانوں کی جگہ ہے تو دوسرے درجے کے شہریوںکے طورپہ۔ ایسی سوچ کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کو خطرہ حکمران جماعت کی مذہبی سوچ سے ہے ۔اس منطق کا لازمی مطلب یہ بھی بنتاہے کہ اگر اس بیس کروڑ آبادی کاکوئی دفاع ہے تووہ ہندوستان کی سیکولرازم میں پنہاںہے ۔ باالفاظ دیگر ہندوستانی سیکولرازم کمزور پڑے تومسلمانوں کیلئے اچھا نہیں۔ سیکولرازم مضبوط ہو اُس میں مسلمانوں کی بھلائی ہے ۔
کیسا مخمصہ ہے یہ ہمارے لیے جہاں سیکولرازم کو برا سمجھاجاتاہے ۔ ہم اپنے لیے جو چاہیں کر سکتے ہیں ۔جس قسم کی ریاست بنانا چاہیں وہ ہماری صوابدید ہے‘ لیکن ہندوستان کی مسلمان آبادی کیلئے ہمارا ایک اخلاقی فرض تو بنتاہے۔ ہم اُن کے لیے اگر کچھ کرنہیں سکتے تواُن کی بہتری کی تمناتودلوں میں رکھ سکتے ہیں۔تقسیم ہوگئی ‘ الگ ملک بن گئے‘ لیکن برصغیر کے مسلمانوں سے ایک رشتہ تو ہمارا رہتاہے ۔ مشرقی پاکستان کو ہی لے لیجیے۔ ہم سے جدا ہوکے ایک علیحدہ ملک بن گیا لیکن کیا ہم بنگلہ دیش کے لوگوں کی بھلائی نہیں چاہیں گے ؟اسلام میں توقومیت یا قوم پرستی کا کوئی تصور نہیں ۔ جہاں تک برصغیر کا تعلق ہے تقسیمِ ہند سے پہلے ہندوستان کے سارے مسلمان اپنے آپ کو ایک برادری کاحصہ سمجھتے تھے ۔ یہ تو تقسیم ہند کی وجہ سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہوئے ۔لیکن ایک رشتہ تو پھر بھی قائم ہے ‘ اورکہیں نہیں تو دلوں میںسہی۔ جب اُتر پردیش میں تعصب اور پاگل پن سے بھرے لوگ کسی مسلمان پہ ظلم ڈھاتے ہیں تو ہمیں دُکھ نہیں ہوتا؟مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں سے زیادتی ہو تو ہمیں کیااچھا لگتاہے ؟
ہم اگر بیس بائیس کروڑ ہیں تو تقریباً اتنے ہی مسلمان ہندوستان میں ہیں ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ وہاں کے مسلمانوں کی بہتر ی کس میں ہے۔ پاک بھارت تعلقات خراب ہوتے ہیں تو وہاں کے مسلمانوں کے لیے عمومی ماحول خراب ہوجاتاہے ۔ پاک بھارت جنگ ہو تو وہاں کے مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔ وہاں کے مسلمان وہیں رہیں گے ۔ جنہوں نے آناتھا وہ آچکے ۔ انتہاپسند ہندوسوچ مسلمانوں کیلئے اچھی نہیں۔لیکن یہ یاد رہے کہ انتہا پسند ہندو سوچ کا متبادل کچھ اور نہیںصرف سیکولرازم ہے ۔اگرہمارے بیس کروڑ ہم مذہبوں کیلئے ایسی سوچ اچھی ہے تو ہم نے اُسے اتنا بُرا کیوں سمجھا ہوا ہے؟
جوکچھ ہندوستان میں ہورہاہے وہ ہمارے لیے ایک عظیم موقع ہے ۔ اگر ہندوستان کی حکمران جماعت تعصب اور تنگ نظری کی راہوں پہ چل رہی ہے تو ہمارے لیے موقع ہے کہ ہم تنگ نظری کی راہیں ہمیشہ کیلئے ترک کردیں۔ ہندوستان کی حکمران جماعت ہمارے لیے موقع فراہم کررہی ہے کہ ہم ایک روشن خیال معاشرے کی طرف قدم اُٹھائیں ۔
ایسا ہمیں کرناچاہیے‘ پر کیا ہم ایسا کرپائیں گے ؟روشن خیال ریاست کیلئے روشن خیال قیادت لازمی ہے ۔ کیا ہمارے ہاں ایسے لوگ ہیں ؟ یہاں تو ڈھنگ کی بات کرنا مشکل ہے ۔ جیسے اوپرعرض کیا کئی موضوع ہیں جن کو چھوا نہیں جاسکتا۔ ہمارے سکولوں اورکالجوں میں پڑھایا کیا جاتا ہے۔ جس قسم کا یہاں نصاب ہے اورجس قسم کی یہاں بحثیں ہوتی ہیں اُن کے نتیجے میں ذہنوں نے کھلنا کیا ہے‘ مزید بند ہی ہونا ہے ۔ پھر کہنا آسان ہے کہ یہ لمحہ ہمارے لیے موقع ہے ۔ عمل کرنے والے حضرات کون سے ہیں اورکہاںہیں ؟
یہ عجیب باتیں ہیں کہ ہمیں کشمیر کیلئے جہاد کرنا چاہیے ۔ایسے خیالات کا اظہار ایک دور وز پہلے جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے کیا ۔ کشمیر کے بارے میں ہم نے جو جہاد کرنے تھے و ہ کرچکے ۔ ایک زمانہ تھا جب سمجھا جاتاتھا کہ بزورِ شمشیر ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔ وہ زمانہ اب رہا نہیں ۔ہمارا جنگوں کا تجربہ کچھ تلخ رہاہے۔ اب تو ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے ۔ ہم مانیں یا نہ مانیں کشمیریوں کی بہتری بھی اسی میں ہے کہ پاکستان اوربھارت کے تعلقات اچھے ہوں ۔ ایسی نوعیت کے ہوں کہ بتدریج کشمیر کی لائن آف کنٹرول مدہم پڑ جائے اورآنا جانا آسان ہوجائے ۔ بارڈر رہے‘ لیکن تلخیاں اتنی کمزور پڑ جائیں جیسا ہم یورپ میں دیکھتے ہیں ۔ تاریخ کی سب سے تباہ کن جنگیں یورپ میں لڑی گئیں‘ لیکن آج بہت سی تاریخی تلخیاں مٹ چکی ہیں ۔ ایسا یہاں بھی ہوسکتاہے بشرطیکہ دونوں اطراف اچھی سوچ رکھنے والے سامنے آئیں۔
ہم نے ایک ذہنی حصار میں اپنے آپ کو بند کیا ہواہے ۔ ہم کہیں آگے نہیں جاسکتے اگراس حصار کو ہم توڑیں نہیں۔ جوازِ اسرائیل یہ نہیں کہ اسرائیل یہودیوں کیلئے ایک خطہ ٔزمین ہے ۔ جواز ِاسرائیل یہ ہے کہ تمام مشرق وسطیٰ میں وہ سب سے ترقی یافتہ ملک بن چکاہے ۔ہر لحاظ سے اپنے عرب ہمسائیوں سے وہ آگے ہے ۔اسی لحاظ سے جوازِ پاکستان یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہر شعبے میں دوسروں سے ہم آگے نکلیں ۔ یہاں کی ہر چیز تقسیم سے پہلے کے ہندوستان سے بہتر ہوتی ۔تعلیم بہتر ہوتی ‘ سوچ آگے کی ہوتی ۔ تعصب اورنفرت نام کی چیزیں یہاں ہو نی نہیں چاہئیں تھیں۔ برداشت ہماری پہچان ہوتی ۔ کشمیر ی ہم کو دیکھتے ‘ ہندوستان کے مسلمانوں کی نظریں ہماری طرف ہوتیں۔ بنگلہ دیش کو جوازِ علیحدگی فراہم نہ ہوتا۔بہت کچھ ہوسکتاتھا‘ لیکن ہم حاصل نہ کرسکے۔ اَب بھی موقع ہے ۔