ملک کا موجودہ سیاسی چہرہ انوکھا ہے۔ جو دوبڑی پارٹیاں دو دو تین تین بار حکومت کر چکیں انکی حالت یہ ہے کہ لگتاہے جیسے اقتدار میں کبھی تھی ںہی نہیں۔ محسوس تو یہاں تک ہوتاہے جیسے وہ سیاست سے لاتعلق ہو گئی ہیں۔ ایسا ہے نہیں لیکن تاثر یہی ملتاہے۔ مذہبی جماعتیں بھی گمشدہ سی لگتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جتن کررہے ہیں کہ ریلیوِنٹ (relevant)رہیں لیکن بات بن نہیں رہی۔
مہنگائی اورمعاشی بدحالی کے باوجود عمران خان کی حکومت اپنی جگہ بیٹھی ہے اورکام چلا رہی ہے ۔ ہرطرف سے تنقید کی توپیں کھلی ہیں لیکن حکومت کو اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑرہا ۔عمران خان ویسے ہی میڈیا کی تنقید سے گھبرائے رہتے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو اُن کو زیادہ پروا نہیں کرنی چاہیے۔ جس بندوبست سے حکومت چل رہی ہے وہ مضبوط ہے ۔ یہ بندوبست عمران خان اوراداروں پہ مشتمل ہے ۔ ایک موازنہ ہم کرسکتے ہیں ۔ ہندوستان میں نریندرمودی بھاری اکثریت سے حکومت میں ہیں لیکن متعدد وجوہ کی بناء پہ اُن کی حکومت طوفانوں کی زد میں ہے ۔ عمران خان تو مانگے تانگے کی امداد سے حکومت میں بیٹھے ہیں لیکن وہ کسی طوفان کی زدمیں نہیں۔ معاشی بدحالی کے باوجود پاکستان میں اس وقت مکمل سیاسی استحکام ہے ۔
اپوزیشن جماعتوں‘ جو متعدد بار اقتدار کے پھیرے لگا چکی ہیں‘کی حالت پتلی ہے۔ شریفوں کی جماعت تو اب یوں سمجھیے لندن میں مقیم ہے ۔ ہونٹوں پہ چپ کے تالے لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے دوست شہبازشریف تو ویسے ہی مصلحت کی سیاست کے بادشاہ ہیں۔ انہوں نے موجودہ بندوبست کے خلاف کوئی بات کرنی نہیں۔ نون کی جانشینی کا تاج مریم نواز پہننا چاہتی ہیں۔ تندوتیز باتیں کرنے کی مہارت رکھتی ہیں لیکن موجودہ مصلحت کے موسم میں انہوں نے بھی چپ سادھی ہوئی ہے۔ ملکۂ ٹویٹر ہوا کرتی تھیں لیکن ٹویٹر اکاؤنٹ بھی بندہے۔ نون کے جو لیڈر ملک میں ہیں وہ بولیں یاچپ رہیں‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کچھ کریں تو شریف کریں لیکن بوجوہ انہوں نے مصلحت کی مخملی چادر اوڑھی ہوئی ہے ۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے آصف علی زرداری بھی مکمل بابائے مصلحت ہیں۔ اندر ہیں اوراندر رہنے کا صحیح ہنر خوب جانتے ہیں۔ اندر بھی ہوں تو بادشاہوں کی طرح رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو اِکا دُکافائر چھوڑ دیتے ہیں لیکن اُن کی عمر ایسی ہے کہ اُن کی کہی ہوئی بات کواب تک زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا۔
کچھ دن لاہور میں بلاول کاقیام ہوا ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں ۔لاہور میں اُن کا قیام ایک ایسے گھر میں ہوتاہے جو اوروں کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ گھر بھی کیا،کہتے ہیں تقریباً قلعہ ہے۔ لیکن اوروں کے دئیے ہوئے تحفوں میں رہتے ہوئے پارٹیاں زندہ نہیں ہوتیں۔ اپنے نانا کی مثال انہیں سامنے رکھنی چاہیے۔ جب اسلام آباد کی بنیادیں کھینچی جارہی تھیں تو ذوالفقار علی بھٹو وفاقی وزیر تھے لیکن دورانِ وزارت اوربعد میں جب وہ وزیراعظم بنے ،اسلام آباد میں انہوں نے کوئی پلاٹ نہ لیا۔ جب اپوزیشن میں تھے تو راولپنڈی میں اُن کا قیام تب کے انٹر کا نٹیننٹل ہوٹل میں ہوتاتھا۔ لاہور میں پہلے پہل فلیٹیز میں ٹھہرتے تھے اورپھر وہاں کے انٹر کا نٹیننٹل میں۔ گھر بنانے کا نہ اسلام آباد نہ لاہور میں سوچا۔ اُن کے بعدآنے والے سیاسی ادوار اور قسم کے تھے۔ شریفوں نے ہر جگہ اپنے گھر بنائے اورمحترم زرداری صاحب نے بھی۔شریفوں کو مری پسند آیا تو مری میں گھر ، ڈونگا گلی کا موسم اچھا لگا تووہاں عالیشان گھر کی تعمیر ۔ دور سے گیس لائی گئی اورگیس لانے کیلئے بہت سے درخت کٹے تو کٹتے چلے گئے ۔
ضمناََ یہ ذکر ہوچلے کہ پہلے بھی رئیس زادے سیاست میں آتے تھے لیکن سیاست کا ڈھنگ اورقسم کا ہوا کرتاتھا۔ خرچہ جیب سے ہوتا تھایا زمین کے کچھ ٹکڑے بیچ کر۔ یہ فیکٹریاں لگانے کا رجحان اور ہر طریقے سے مال بنانا‘ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہواجب ایک خاص قسم کے لوگ‘ جن کا بیک گراؤنڈ سیاسی کی بجائے زیادہ تر تجارتی تھا‘ سیاست میں آئے یاسیاست میں لائے گئے ۔ ان لوگوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا تو پھر پیچھے مڑکے نہ دیکھا ۔ مال بٹورنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے گئے ۔ اب سیاست میں یہی طریقے کا رگر ثابت ہوتے ہیں۔ سیاست میں ہمیشہ سے پیسے کا عمل دخل رہاہے لیکن پہلے وَقتوں میں گزارے کے پیسوں سے کام چل جاتاتھا۔ آج سیاست مہنگا کھیل ہو چکاہے ۔
بات ہورہی تھی موجودہ بندوبست کی۔ یہ ایک نیا تجربہ پاکستان میں ہورہاہے کہ ادارے اس انداز سے حکمرانی اورامور مملکت کاحصہ بن چکے ہیں ۔ایک پیج کی اصطلاح بھی اِسی مشق سے اُبھری ہے، یعنی حکومت اور اداروں میں مکمل یگانگت کا جو عالم ہے اُسی کیلئے یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتیں بے وقعت ہوکے رہ گئی ہیں۔ پہلے پاکستانی سیاست میں شورش تب اُبھرتی تھی جب ادارے کچھ کرنے کا سوچتے تھے ۔ اپوزیشن جماعتوں اوراداروں کا گٹھ جوڑ ہوجاتاتھا اورحکومتِ وقت مشکل میں پڑجاتی تھی ۔ ایک پیج کی وجہ سے وہ صورتحال یکسر بدل چکی ہے ۔ اداروں کے حوالے سے عمران خان مکمل اطمینان میں ہیں یا جوانگریزی کالفظ ہے comfortable ہیں۔ اسی وجہ سے جب توسیع کا مرحلہ آیا تو عمران خان کسی کنفیوژن کا شکار نہ تھے۔ ہر حالت میں وہ توسیع چاہتے تھے اورگو وزارتِ قانون نے اس مسئلے میں اپنا تھوڑا سا نکمّاپن ظاہر کیا ،عمران خان اس مقصد سے نہ ہٹے کہ ہر حالت میں توسیع دینی ہے۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ عمران خان کئی چیزوں میں نابلد ہوں گے لیکن اتنے بھولے بھی نہیں۔
ایک اوربات ہوچکی اوروہ خوش آئندہے۔ جہادی فلسفے سے پاکستان نے بہت حد تک دور ی اختیار کرلی ہے ۔حافظ سعید کی جماعت پہ پابندیاں کوئی ڈرامہ نہیں۔ اُن کی ایمبولینسیں اوردیگر گاڑیاں حکومت کی تحویل میں جاچکی ہیں اوراُن کے بہت سارے لوگ جو فلاحی کاموں میں لگے ہوئے تھے اُن کی تنخواہیں اب حکومت کے ذمے آچکی ہیں۔ پاکستان کی سوچ میں یہ تبدیلی نہ آتی توصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی وہ تعریف نہ کرنی تھی جوانہوں نے احمدآباد کے جلسے میں نریندر مودی کی موجودگی میں اوراُن کے عین سامنے کر ڈالی ۔ایک تو ماننا پڑے گا کہ صدر ٹرمپ منفرد قسم کے لیڈر ہیں ،جو کہنا چاہتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں۔ کوئی اورامریکی صدر اس انداز سے ایک ہندوستانی مجمع کے سامنے پاکستان کی ایسی تعریف نہ کرتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی کی بھی بہت ستائش کی اور ساتھ ہی دوتین جملے پاکستان کے حق میں کہہ ڈالے۔ لیکن اصل وجہ ان کلمات کی یہ بنی کہ پاکستان افغان امن معاہدے میں مدد گار ثابت ہواہے اورجہادی سوچ سے بھی دور جاچکاہے۔ ہمارے خمیر سے البتہ نام نہاد جہادی سوچ مکمل طورپہ خارج ابھی تک نہیں ہوئی۔ اعلیٰ عہدوں پہ جو لوگ فائز رہ چکے ہیں اُن سے گفتگو کریں تو صاف پتا چلتاہے کہ ابھی تک وہ ماضی کے سایوں سے نہیں نکل سکے۔ کشمیر کے حوالے سے عجیب عجیب باتیں کریں گے ۔اُن کے ذہنوں سے جنگی جنون ابھی بھی جھلکتاہے۔ بہرحال عمران خان صاحب اپنے تمام تر پیرپرستی اورخانقاہ پرستی کے باوجود ماضی کی جہادی سوچ کے قیدی نہیں۔ جہاد ی سوچ کے بارے میں واضح ہیں کہ اُس کی اب کوئی گنجائش نہیں۔
یہ روایتی سیاست کی کسمپرسی ہے کہ میڈیا کے پاس کوئی زیادہ سیاسی موضوع نہیں رہے ۔ یہ جوکئی دفعہ اخبارات میں سرخیاں لگ جاتی ہیں مڈٹرم الیکشن یااِن ہاؤس تبدیلی کے بارے میںیہ محض شوشے ہیں وقت ٹپانے کیلئے۔ ایک پیج مکمل طورپہ قائم ودائم ہے ۔بیرونی محاذ ٹھیک ہے ، مشکلات ہیں تو معیشت کے حوالے سے ۔لیکن کسی بھی ملک کی معاشی حالت راتوں رات ٹھیک نہیں ہوتی ۔ ادارے بھی یہ بات سمجھتے ہیں۔ اس لیے موجودہ صورتحال نے ہی چلناہے ۔ دیگر جماعتوں کے پاس ویسے بھی کہنے کیلئے کچھ نہیں۔ اُن کے لیڈروں کو اپنی مالی بقا کی لگی ہوئی ہے ۔اُن کی سوچ یہ لگتی ہے کہ یہ نامساعد موسم جیسے بھی ہے برداشت کیاجائے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے سیاست کا ذائقہ کچھ پھیکا سا ہوگیاہے ۔ بہت سے لوگ کہیں گے کہ یہ بھی ایک اچھی چیز ہے۔