یہ بول ہیں ایک گانے کے جو آشا بھوسلے نے فلم 'پہلی بیگم‘ کیلئے گایا تھا۔ گیت قیس عرفانی کا ہے اور موسیقی روبن چیٹرجی نے ترتیب دی۔ فلم 1953ء میں ریلیز ہوئی جب آشا بھوسلے کی عمر بیس سال تھی۔ گانا کیا ہے، پہلی بار سُنا تو مدہوشی کا عالم طاری ہو گیا۔ یقین نہ آیا کہ اتنی عمر میں ایسا کوئی گا سکتا ہے۔ دو دن ہوئے اسی کو صبح شام سُنتا رہا۔
بات فقط گانے کی نہیں، صلاحیت کی ہے۔ تب آشا کا اتنا نام نہ تھا‘ لیکن کمال کی گائیکی ہے۔ یہی کیفیت لتا منگیشکر کے شروع کے گانوں میں ہے۔ جب فلموں میں گائیکی شروع کی تو لتا کی عمر بیس سال سے کم تھی۔ بالکل آغاز کے گانوں میں تو وہ بات نہیں لیکن جب ماسٹر غلام حیدر اور انیل بسواس جیسے میوزک ڈائریکٹرز کی ترتیب دی ہوئی دُھنیں گانے کو ملیں تو کمال کر دکھایا۔ آواز اتنی مدھر، گائیکی کا انداز لا جواب۔ بڑا نام تو بعد میں پیدا کیا لیکن ذاتی پسند کی بات ہے میرے فیورٹ وہ بالکل شروع کے گانے ہیں۔ 1960-70ئ‘ جب فلمی دنیا میں اُن کا طوطی بولتا تھا‘ کے دور کے گانے بہت عظیم ہیں‘ لیکن میری چاہ اُس سے پہلے کے گانوں کی طرف جاتی ہے۔
ذرا غور کیجیے، شروع کے دنوں میں لتا ٹرین پہ بیٹھ کے ریکارڈنگ کے لئے سٹوڈیو جایا کرتی تھیں۔ گاڑی وغیرہ نہیں تھی۔ والد صاحب دینا ناتھ منگیشکر کا انتقال ہو چکا تھا اور گھر کی کفالت کا ذمہ لتا کے کندھوں پہ آیا تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے گانا شروع کیا لیکن تب نور جہاں کا نام ہر طرف گونجتا تھا۔ اُس زمانے میں اور بھی بہت گانے والے تھے لیکن سب سے اونچا مقام نور جہاں کا تھا۔ شمشاد بیگم اور ثریا نے بھی اپنا مقام بنایا اور اُس زمانے میں بہت مشہور تھیں۔ کئی بڑے ناموں کے سائے میں لتا نے اپنی گائیکی کا بس آغاز کیا۔ نورجہاں کی آواز بھری ہوئی تھی۔ شمشاد بیگم کی آواز کی اپنی پہچان تھی۔ ثریا گاتی بھی تھیں اور بہت بڑی ایکٹریس بھی تھیں۔ لتا بس‘ ٹرین پہ ہی سٹوڈیو آیا کرتیں۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اُن کی آواز ذرا پتلی ہے اور دوسروں کے مقابل پتلی تھی بھی۔ روایت ہے کہ ماسٹر غلام حیدر نے کہا تھا کہ لتا کی آواز نکھرے گی تو بڑے بڑے ڈائریکٹر اِس کی منتیں کیا کریں گے۔ فلم محل کیلئے کھیم چند پرکاش نے لتا سے گانا گوایا 'آئے گا آنے والا‘ اور جب فلم ریلیز ہوئی تو گویا پورے ہندوستان میں تہلکہ مچ گیا۔ اور پھر لتا آگے ہی چلتی گئیں، حتیٰ کہ وہ وقت دور نہ تھا جب وہ فلم گائیکی کی ملکہ کے طور پہ مانی گئیں۔
یہ گانوں کا قصہ کہاں سے چھڑ گیا؟ فراغت کا موسم ہے۔ ٹرانسپورٹ کی بندش کی وجہ سے اخبار آتے نہیں تو ایک لحاظ سے اچھا ہی ہے۔ وہ وقت جو اخبار بینی میں ضائع ہوتا تھا اُس میں اب کچھ اور پڑھ لیتے ہیں۔ پھر فرصت پاتے ہی ریڈیو سیلون پہ پرانی فلموں کا سنگیت سُن لیا جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ پروگرام میں ایسے گانے سننے کو ملتے ہیں جو پہلے کبھی نہ سُنے۔ کیا خزانہ برصغیر کی پرانی سنگیت کا ہے۔ ایک سے بڑھ کے ایک دل کو لگنے والی گائیکی۔ کیا لکھنے والے تھے اور کیا موسیقی دینے والے۔ کتنے نام آئے اور چلے گئے۔
رونا یہ ہے کہ اُس زمانے کی گائیکی کے بارے میں کچھ زیادہ لکھا نہیں گیا۔ کوئی مستند کتاب میرے نظروں سے نہیں گزری۔ کندن لعل سہگل کو ہی لے لیجیے۔ اُن کے بارے میں کچھ کچھ مل جاتا ہے لیکن جسے آپ مستند سوانح حیات کہہ سکتے ہیں وہ نہیں لکھی گئی۔ اُن کے بچپن اور جوانی کے بارے میں کہانیاں ہیں لیکن جس کاوش سے اُن کی زندگی کے بارے میں لکھا جانا چاہیے وہ نہیں ملتا۔ باقی سنگرز اور ایکٹرز کے بارے میں بھی یہی کیفیت ہے۔ اس کے برعکس مغربی دنیا میں کوئی بڑا گانے والا یا ایکٹر آتا ہے تو اُس کے بارے میں آپ کو ڈھیر ساری کتابیں مل جائیں گی۔ مثلاً مارلن برینڈو (Marlon Brando) اور فرینک سیناٹرا (Frank Sinatra) کے بارے میں پتہ نہیں کتنی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ میڈم نور جہاں کے بارے میں بھی ایسی کوئی کتاب نہیں ملتی۔ ہمارے مرحوم دوست خالد حسن‘ جو انگریزی کے بہت ہی عمدہ لکھنے والے تھے‘ کا ایک مضمون میڈم کے بارے میں ہے۔ اُن کی ملاقات میڈم سے تھی اور اِسی حوالے سے وہ مضمون لکھا گیا۔ نہایت دلچسپ ہے لیکن مضمون ہے سوانح حیات نہیں۔ شاید ہم میں کچھ کمی ہے، نہ لکھنے والے نہ پڑھنے والے میسر آتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ان موضوعات پہ وہ لکھے جسے فکر معاش نہ ہو۔ بس شوقیہ لکھے۔ محنت کرکے کچھ مرتب ہو تو پڑھنا بعد کی بات ہے اُسے کون خریدے گا؟ ہمارا پڑھنے والا معاشرہ نہیں۔ آغا شورش کاشمیری کی ایک تحریر میں، میں نے پڑھا تھا کہ جب تقسیم ہند کے وقت وسیع پیمانے پہ اِدھر اُدھر ہجرت ہوئی تو بہت سی خواتین پتہ نہیں کن کن ہاتھوں چڑھ گئیں۔ آغا شورش نے یہ لکھا کہ ایک کم سن بچی لاہور کے مشہور بازار کے کسی گھرانے میں پہنچ گئی۔ جب وہ بڑی ہوئی اور اس نے جیسا وہاں پہ گھرانوں کی روایت ہے گانا وغیرہ سیکھا تو فلمی دنیا میں آ گئی اور بڑا نام کمایا۔ وہ تھیں‘ نسیم بیگم۔ اسے آپ حادثہ یا واقعہ کہیے، کیا کہانی اس میں پوشیدہ ہے۔ لیکن بس ہلکا سا ذکر ہے، باقاعدہ کسی نے تمام حقائق ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ وہی نسیم بیگم ہیں جن کا مشہورِ زمانہ گانا ہے 'اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘۔
لتا منگیشکر کی عمر اب نو ّے سال ہے۔ کسی کی موت پہ جو تحریر لکھی جاتی ہے اُسے انگریزی میں اوبچیوری (obituary)کہتے ہیں۔ جب ایک عمر کو مشہور آدمی پہنچتے ہیں تو بھلے اُن کی موت بیس سال بعد واقع ہو اخبارات اُن کی obituary پہلے تیار کر لیتے ہیں‘ یعنی مخصوص لکھنے والوں کو وقت سے بہت پہلے اس کام پہ مامور کیا جاتا ہے کہ آپ نے فلاں شخصیت کی obituary لکھنی ہے۔ مشہور شخصیت نے سانس لینا بند کیا تو اُس کی obituary تیار ہوتی ہے۔ یہ برطانیہ، جرمنی، فرانس یا امریکا ہو تو لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے پہ لکھی ہوئی تحریر تیار پڑی ہو گی۔ ہمارے ہاں یہ روایت نہیں ہے۔ جس دن آدمی مرتا ہے اُس دن کوئی صحافی اُس پہ لکھنے بیٹھ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی ریسرچ وغیرہ تو ہوتی نہیں۔ بس ٹوٹی پھوٹی تحریر ہوتی ہے اور دوسرے دن اخبارات میں چھپ جاتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس قسم کا کام کرنے کی یہاں پہ روایت نہیں۔ کسی صحافی نے وقت سے پہلے کسی کے بارے میں ریسرچ کرکے کچھ لکھ بھی دیا تو اُسے کیا ملے گا۔ کوئی تسلیم بھی نہیں کرے گا کہ اُس نے کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہے۔
ویسے بھی شوقیہ لکھنے والے ہمارے ہاں کم ہیں۔ ایک پورا طبقہ ہے جسے فکر معاش نہیں لیکن اُس طبقے میں کتنے ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکے کہ اُنہیں لکھنے کا شوق ہے۔ ماحول اور کلچر کی بھی بات ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالب کے زمانے میں دہلی میں ایسا ماحول تھا‘ اور ایسے لوگ موجود تھے جن کا مشغلہ ہی لکھنا پڑھنا تھا۔ غزل اور نظم کہتے، ایک دوسرے کو خطوط لکھتے۔ پاکستان میں بھی ایسا ماحول رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لاہور میں فیض احمد فیض اور منیر نیازی تھے۔ حبیب جالب اپنی مخصوص شاعری کہتے تھے۔ ایسے لوگوں کے اپنے مخصوص مسکن اور بیٹھنے کی جگہیں ہوا کرتی تھیں۔ گانے والے اور جن کا تعلق فلمی دنیا سے ہوتا اُن کی اپنی بیٹھکیں ہوتیں۔ اب وہ زمانہ رہا نہیں۔ ایسی بیٹھکیں اُجڑ چکی ہیں۔ شہروں کا حلیہ بگڑ کے رہ گیا ہے۔
راولپنڈی صدر ہوا کرتا تھا، کتب خانے وہاں تھے، بیٹھنے کی جگہیں تھیں۔ اب ہر طرف دکانیں نظر آتی ہیں۔ لاہور کا بھی یہی حال ہوا ہے۔ مال پہ بہت سے ریستوران اور چائے خانے ہوا کرتے تھے جہاں اہل قلم یا جنہیں آپ اہل دانش کہہ سکتے ہیں شام کو چائے کی پیالی پر اکٹھے ہوتے اور لمبی لمبی بحثیں ہوتیں۔ اب اُن ریستورانوں میں ایک بھی نہیں رہا۔ نام نہاد اہل دانش شاید کہیں اکٹھے ہوتے ہوں لیکن وہ کون سی جگہیں ہیں کسی کو نہیں معلوم۔