ہماری فیورٹ شوبز پرسنیلٹی عائشہ ثنا ان دنوں خبروں کی زینت بنی رہی ہیں۔ معاملہ جو سمجھ میں آتا ہے وہ کچھ لین دین کا ہے۔ ایک صاحب‘ جن کا شاید رئیل اسٹیٹ سے تعلق ہے الزام دھر رہے ہیں کہ ازراہ ہمدردی انہوں نے مختلف اوقات میں مس عائشہ کو رقم دی جس کے عوض اُن کو پوسٹ ڈیٹڈ چیکس دئیے گئے۔ چیکس بوگس نکلے اور انہوں نے عائشہ ثناکیخلاف متعلقہ تھانے میں مقدمہ درج کروا دیا۔ یہ صاحب کہتے ہیں کہ اُن کی عائشہ ثنا سے کافی پرانی راہ و رسم ہے۔ موصوفہ نے اپنی مشکلات بیان کیں تو انہوں نے دس لاکھ روپے دئیے، پھر دیتے گئے، حتیٰ کہ رقم پونے دو کروڑ ہو گئی۔ بقول شخصے عائشہ ثنا روپوش ہیں اور پولیس کے ہاتھ نہیں آرہیں۔ سوال اُٹھتا ہے کہ ایسی سخاوت کا مظاہرہ کن مخصوص حالات میں رونما ہوتا ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہم جیسا کنگلا ان صاحب سے پونے دو سو کی فرمائش کرے تو پوری نہ ہو اور یہاں یہ اتنے فراخ دل ثابت ہوتے ہیں کہ موصوفہ پہ بقول ان کے پونے دو کروڑ نچھاور کردیتے ہیں۔ چیکس انہوں نے ضرور لیے اور اپنے ایک انٹرویو میں عذر یہ پیش کیا کہ ہمارا دین بھی کہتا ہے کہ لین دین کے معاملات کو ضبطِ تحریر کر لیا جائے تو بہتر رہتا ہے۔ دین بھی ہمیں کہاں یاد آتا ہے۔ بہرحال چیکس لینے کی احتیاط تو کی لیکن یہ راستہ عموماً خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔
ہمارے چکوال میں کتنے ہی صاحب کمال ہیں جو عائشہ ثنا جیسی صورت نہ رکھتے ہوئے صرف چرب زبانی کی بنا پہ پیسے بٹورنے کا فن رکھتے ہیں اور آنکھ جھپکنے سے پہلے متعدد چیکوں پہ دستخط کرکے دوسرے کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ پھر نہ ملتے ہیں نہ چیک کسی کام آتے ہیں۔ ہاں کوئی صاحبِ اختیار ہو تو بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن جہاں شعبہ شوبز سے پیسے لینے والے کا تعلق ہو وہاں پیسے واپس کرانا اتنا آسان نہیں رہتا۔ ہماری دل پسند اداکارہ میڈم میرا کو ہی لے لیجیے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب نے الزام لگایا کہ وہ میڈم سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو چکے ہیں اور اُس کے ثبوت میں انہوں نے تھدی بھر فوٹوز اور ویڈیوز عدالت اور پبلک کے سامنے پیش کیں۔ کچھ ایسی بھی فوٹوز تھیں کہ کسی ساحل پہ موصوف نیکر پہنے اور خاصا معتبر پیٹ نکالے میرا کے ساتھ ہاتھ پکڑے کھڑے ہیں۔ میرا ہر چیز سے انکاری ہوئیں اور کہا کوئی شادی وادی نہیں ہوئی۔ مبینہ خاوند دہائیاں دیتے رہے کہ انہوں نے میرا کے نام ڈیفنس لاہور میں ایک بنگلہ کیا ہے۔ میرا بنگلے سے انکاری نہ ہوئیں لیکن شادی والی بات کے قریب نہ پھٹکیں۔ بات تھانے اور عدالت تک گئی لیکن مبینہ خاوند کے ہاتھ نہ میڈم آئیں نہ بنگلہ واپس ملا۔ اب وہ صاحب کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں کم ازکم پبلک کو نہیں معلوم۔ البتہ رئیل اسٹیٹ اور شوبز ٹکر کے پروفیشن ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سے منسلک لوگ عموماً لینا جانتے ہیں، دینا نہیں۔ شوبز سے وابستہ لوگوں نے بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے۔ مسکراہٹوں یا کچھ زیادہ کے عوض پیسے بٹورنا ہر ایک کا کام نہیں۔ بہرحال جن صاحب کا ذکر ہو رہا ہے پیسے تو انہوں نے دے دئیے لیکن اُن سے سوال پھر بھی بنتا ہے کہ اتنی سخاوت کی وجہ کیا تھی؟ اور اگر کوئی خاص وجہ تھی تو پھر اتنا ملال کیوں؟
ہمارے دیہاتوں میں کئی ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو شادی کا حسین خواب دِکھا کے ہم جیسے بیوقوفوں کی جیبیں خالی کر دیتے ہیں۔ دولہا خوشی خوشی بارات لے کے جاتا ہے‘ کئی بار تو ایسے بھی ہوتا ہے کہ آگے تالے پڑے ہیں کیونکہ پتہ چلتا ہے کہ دلہن والے عارضی کرایے دار تھے اور گھر چھوڑ کے جا چکے ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بارات کامیاب لوٹتی ہے اور زیور سے سجی دلہن اپنے نئے گھر پہنچ جاتی ہے لیکن چند ہی راتوں بعد اچانک غائب پائی جاتی ہے۔ ایسے کاموں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
جسے ہم رقص و سرود کی خاص محافل کہتے ہیں اُس میں ان آنکھوں نے دیکھا ہے کہ بیچارے دیہاتی نوٹ اڑائے پاگل ہو رہے ہوتے ہیں۔ پونجی پتہ نہیں کہاں سے جمع کی ہوتی ہے لیکن محفل شروع ہوئی اور آخر تک سب پونجی لُٹ گئی اور ان دور کے عاشقوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ ہر علاقے میں ایسی کئی داستانیں ہوتی ہیں کہ فلاں بہت شوق رکھنے والا تھا اور اُس نے اپنی ساری زمین اُڑا دی اس شوق کے پیچھے۔ ہماری کم عمر ی میں چکوال کے کئی کھلاڑی تھے جنہوں نے لاہور کے مخصوص بازار میں ہفتے کی شام ضرور پہنچنا ہوتا۔ کاروں کا رواج تب اتنا نہیں تھا۔ شرفا بھی بسوں پہ سفر کیا کرتے تھے۔ یہ خاص اصحاب بس پہ بیٹھے لاہور پہنچے، کسی کم خرچ ہوٹل میں کمرہ لیا، سیدھا بازار گئے، ساری رات گانا سنا اور پھر کچھ آرام کر کے واپس بس چکوال کی لی۔ اُس زمانے میں مشہور سنگر تصور خانم کا نیا نیا نام اُبھر رہا تھا۔ کسی وجہ سے یہ سارے چکوالی تصور خانم کے دیوانے ہو گئے تھے۔ اُن کی وجہ سے تصور خانم کا بھی چکوال آنا جانا ہو گیا۔ ہسپتال روڈ پہ ایک چھوٹا سا ہوٹل ہوا کرتا تھا اور ایک دفعہ میرا اتفاق ہوا جب کوئی مجھے وہاں لے گیا تصور خانم کو دیکھنے۔ بعد میں وہ جو ہم پنجابی میں کہتے ہیں ذرا صحت مند ہو گئی تھیں لیکن تب کیا کمال کا انداز تھا۔ رنگ سانولا لیکن بات چیت کا انداز بہت ہی دلنواز۔ جیب میں اب بھی زیادہ کچھ نہیں ہوتا‘ لیکن تب تو بالکل ہی خالی ہوتی تھی۔ صرف دور سے ہی ہم نظارہ کر سکے۔ ایک دوگانے تصور خانم کے بہت مشہور ہوئے اور پھر سننے میں آیا کہ اُن کی شادی کسی سندھی وڈیرے سے ہوگئی ہے۔ ایسے شوق پالنا آسان نہیں۔ بڑے زمیندار ایسا کیا کرتے تھے۔ ایوب خان کے زمانے تک پنجاب میں بھی زمینداریاں وسیع ہوا کرتی تھیں۔ جاپانی گاڑیاں تو تب ہوتی نہیں تھیں‘ وڈیرہ شاہی کی نشانی امریکن گاڑیاں تھیں۔ زمین کا کچھ ٹکڑا بِکا اور لاہور آگئے۔ شام ڈھلے اپنے کسی خاص ٹھکانے کی طرف چل پڑے۔ اب تو نہ وہ بازار رہا نہ گئے زمانے کی زمینداریاں۔ زمینداروں کی جگہ رئیل اسٹیٹ اور اس قسم کے پروفیشنز نے لے لی ہے۔ اس بازار کے کلچر میں پھر بھی کچھ کشش ہواکرتی تھی۔بازار پہ قدغنیں لگیں تو مکین پورے شہر میں پھیل گئے۔ آدابِ محفل اورذوق کے پیمانے بدل گئے۔
ہماری نوعمری میں سردار خان رند کا نام کبھی کبھار اخباروں میں آتا۔ یہ بلوچستان کے رند قبیلے کے سردار تھے اور خاصے رنگین مزاج نظر آتے تھے۔ اس زمانے کی ایک مشہور ایکٹریس زرقا تھی۔ سردار صاحب کی اُن سے شادی ہوئی۔ اخبارات میں بڑی ہلچل مچی جب یہ خبر چھپی کہ سردار رند نے دوسری شادی اُس زمانے کی مایہ ناز ایکٹریس شمیم آراء سے کرلی ہے۔ بڑی سرداریاں ہوں تو ایسے شوق پالنا آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن شاید پرانے زمانے میں یہ رواج نہیں تھا کہ دوستی بنی، آپ کسی پہ مہربان ہوئے اوراس کے عوض اُس سے چیک لکھوا لیے۔ سردارخان رند نے شمیم آراء سے کوئی چیک لکھوائے ہوں گے؟ بہرحال ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ مہربان البتہ ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ یہ لفظ مہربان بھی عجیب ہے۔ لکھنویِ ثقافت کے بہت سے مفہوم اس لفظ سے اُٹھتے ہیں۔ کوئی خاص متبادل اس کا انگریزی میں نہیں۔ مدھو بالا پہ فلمایا ہوا وہ گانا دیکھ لیجیے جس میں اِس لفظ کا بہت خوبصورت استعمال ہے۔ کسی کلب کاسین ہے۔ اشوک کمار ڈنر جیکٹ پہنے ایک میز پہ بیٹھے ہیں۔ مدھو بالا محو رقص ہے اوریہ گانا گارہی ہے ''آئیے مہربان، بیٹھیے جانِ جاں، شوق سے لیجیے دل، عشق کے امتحان ‘‘ ( یوٹیوب پہ اس گانے کے پندرہ ملین ویوز ہیں)۔ ٹھیک ہی کہا کہ یہ سب ہیں عشق کے امتحان۔