شاید عمر کا تقاضاہے کہ بہت سے تصورات اورخیالات سے جان چھوٹ چکی ہے ۔ غم ِ جمہوریت اب دل کو ستاتا نہیں۔ بہت سے حب الوطنی کے تقاضوں کو ایک طرف رکھ دیاہے۔ قوم کا کیا بنناہے ‘ ملک کی سمت کیا ہونی ہے ‘ بحران ِ قیادت کا حل کیا نکل سکتاہے ...بیشتر ایسے سوالات سے چھٹکارا حاصل ہوچکاہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ اخبارات کے بیشتر کالم اب پڑھے نہیں جاتے ۔قومی زندگی میں جو موضوعات عموماًاُٹھتے ہیں اُن سے بھی جی اُکتا چکاہے۔ کوئی اٹھارہویں ترمیم لے کے بیٹھ جائے گا۔ کسی نے موروثی سیاست پہ ضروراپنی رائے دینی ہے ۔ کوئی NFCایوارڈ کے بارے میں مقالہ لکھ ڈالے گا۔ ایک زمانہ تھا جب ایسے موضوعات دلچسپی کا باعث بنتے تھے‘ لیکن اب ان کا ذکر سن کے بوریت طاری ہوجاتی ہے ۔ کوئی بات موسیقی کی ہو‘ کوئی اچھے گانے کا ذکر چھڑے ‘ کچھ شب ِ تنہائی کی باتیں ہوں۔ اس عمر میں ثقیل موضوعات ہضم نہیں ہوتے۔ قوم کی سمت میں کچھ درستگی ہونی ہوتی تو اب تک یہ کارنامہ سرانجام ہوچکا ہوتا۔ نہیں ہوا تو ہمارے کہنے سے اب نہیں ہوگا۔ قیادت کا بحران ہے ‘ شاید یہ ہمارے نصیب میں لکھا ہواتھا۔ لیکن کیا کریں؟ بار بار کے ذکر سے تو اس مسئلے نے حل نہیں ہونا ۔
محدود سی خواہشات میں سرفہرست خواہش یہی ہے کہ صحت ٹھیک رہے ۔ کھانا دوٹائم کا کھا سکیں اوررات کو نیند ٹھیک آجائے۔ یہ دوچیزیں ہوتی چلیں تو انسان اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھے۔ اس عمر میں کچھ دوا تو لینی پڑتی ہے ۔ کچھ کولیسٹرول کیلئے ‘ شاید ایک عدد گولی بلڈ پریشر کیلئے ۔ لیکن اتنا ہی ہو اورڈاکٹروں اورہسپتالوں پہ زیادہ تکیہ نہ کرنا ہو تو انسا ن اپنے آپ کو ٹھیک سمجھے۔ اوراگر نصیب میں تسکینِ شب بھی لکھی ہو تو پھر انسان یوں سمجھے کہ قدرت اورآسمان اس پہ مہربان ہیں۔
ہاں‘ غم ِ جاناں ایسا مرض ہے جو سینے میں کچھ دل رکھنے والے کو لاحق رہتاہے۔ شام ڈھلے یہ غم ضرور زیادہ قریب آجاتاہے۔ بہت سال بیت گئے ہم صحافیوں کا ایک گروہ ڈھاکہ کے دورے پہ گیا ہواتھا ۔ ہمارے وفد میں استادِ محترم آئی اے رحمان بھی تھے ۔ زلفِ بنگال تو باقاعدہ ایک محاورہ ہے ۔ کہیں کسی کیفے میں ہم بیٹھے تھے تو زلف ِ بنگال کے چند ایک نظارے سامنے سے گزرے تو میں نے پوچھا کہ رحمان صاحب اپنے تجربے کی بنیاد پہ اگر بتا سکیں کہ جسے ہم دل کی خلش کہتے ہیں وہ کس عمر تک رہتی ہے ۔ رحمان صاحب مسکرائے نہیں ‘ سیدھا منہ رکھ کے انہوں نے کہا کہ یہ خاصی دیر تک رہتی ہے ۔
آندریاس پاپاندریو (Andreas Papandreo)یونان کے وزیراعظم ہوا کرتے تھے ۔ بہت سکینڈل بنا جب وزیراعظم ہوتے ہوئے 86سال کی عمر میں انہوں نے اپنی پہلی بیوی سے علیحدگی اختیار کی اورایک 36سالہ ائیر ہوسٹس سے شادی کرلی ۔یونان ایک رومینٹک قسم کا ملک ہے۔ جب یہ قصہ منظر عام پہ آیا تو لوگ خوب ہنسے اوراپنے وزیراعظم کو داد دی کہ اُن کے دل میں اب بھی دھڑکن ہے ۔ اٹلی کے سابق وزیراعظم سلویو برلسکونی کا میں کئی بار ذکر کرچکاہوں کہ عمر گو 84برس کی ہے شرارت اُن کے دل سے گئی نہیں۔ جہاں اُن کے اور بہت سے افیئرز تھے ایک زمانے میں اُن کی قربت ایک نوجوان مراکشی ماڈل سے رہی جس کا تخلص تھا Ruby the Heart Stealerیعنی روبی دل چرانے والی ۔اس کی فوٹوز دیکھ کے واقعی خیال اُٹھتا تھا کہ دل نے چوری ہونا ہو توایسے چہرے سے ہوگا۔ سلویو برلسکونی پہ مقدمہ بھی چلا۔ اب میں کیا کہوں مقدمے میں الزام کیا تھا‘لیکن یوں سمجھئے کہ روبی کی کم عمر ی کے حوالے سے تھا۔ جہاں تک اطالوی رائے عامہ کا تعلق ہے اُس پہ ذرا برابراثر اس سارے قصے کا نہ ہوا۔ اطالوی تو یونانیوں سے بھی زیادہ رومینٹک لوگ ہیں ۔ وہاں ایسی چیزوں کو کہاں بُری نگاہ سے دیکھاجاتاہے ۔
فرانس کے ایک صدر ہوا کرتے تھے ولیری غیسکار دستیں(Valery Giscard D'Estaing) جن پہ ایک جرمن ٹی وی جرنلسٹ نے الزام لگایاہے کہ دو سال پہلے سابقہ صدر نے اُن سے نازیبا حرکت کی ۔ خاتون جرنلسٹ کا مؤقف ہے کہ دوسال پہلے وہ اوراُن کی ٹی وی ٹیم سابق صدر کا انٹرویو لینے گئے اورانٹرویو کے بعد سب فوٹو کھنچوانے کیلئے کھڑے ہوگئے۔سابق صدر خاتون جرنلسٹ کے دائیں ہاتھ پہ کھڑے تھے ۔ خاتون جرنلسٹ کہتی ہیں کہ جب کیمرے چلنے لگے تو صدر صاحب کا بایاں ہاتھ اُن کی کمر کی طرف گیا ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ صدر صاحب کی عمر 94سال ہے اورجب یہ مبینہ واقع رونما ہوا تو اُن کی عمر 92سال تھی ۔ یعنی رحمان صاحب کی بات درست ہی ہے کہ دل کی خلش جلد جاتی نہیں۔
یورپ اورامریکا میں خواتین کو چھیڑنے کے حوالے سے ایک عجیب سا ماحول بن چکاہے ۔کم ازکم پاکستانی ذہنوں میں وہ ماحول عجیب ہی سمجھا جائے گا۔ یہ سابقہ فرانسیسی صدر کی بات کو ہی لے لیجیے ۔ اُن پہ اورکوئی الزام نہیں ہے ‘ صرف یہ کہ ایک گروپ فوٹو کھنچواتے ہوئے اُن سے تھوڑی سی لغزش ہوگئی ۔ اور وہ بھی ایک 92سال کے سابق صدر سے۔ لیکن باقاعدہ تفتیش چل رہی ہے اوراخبارات میں سرخیاں لگ رہی ہیں ۔ ٹی وی پہ مباحثے ہوئے ہیں۔ انگلستان میں ایک ایسا کیس ہوا کہ کنزویٹیو پارٹی کی ایک رکن نے الزام لگایا کہ جو وزیردفاع ہوا کرتے تھے‘ نو سال پہلے ایک میخانے میں اس نے خاتون کے گھٹنے کو ہاتھ لگایا۔ الزام میں یہ بھی اعتراف ہے کہ دونوں قریب بیٹھے تھے اورمے نوشی کررہے تھے ۔ لیکن الزام آیا تو وزیرموصوف نے اپنا استعفیٰ دے دیا۔ ہمارے ہاں ایسے موضوعات پہ حساسیت اتنی نازک نہیں۔ امریکی خاتون سنتھیا رچی نے سابق وزیرداخلہ رحمان ملک وغیرہ پہ کیا کیا الزام نہیں دھرے ۔ ظاہرہے ہماراماحول اور ہے اورہمارے رویے اتنے کچے نہیں ہوتے کہ لوگ استعفیٰ دیتے پھریں۔
ہالی ووڈ مغل ہاروی وائن سٹین (Harvey Weinstein)کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے ۔ بطور فلم پروڈیوسر کتنا طاقتور آدمی تھا ۔ خواتین اُس پہ مائل تھیں کیونکہ اُس کے ہاتھوں میں یہ صوابدید تھی کہ کسی خاتون ایکٹر کو بڑا رول دے کے بڑا سٹار بنا دے ۔ وہ خود اعتراف کرتاہے کہ اُ س سے زیادتیاں بھی ہوئیں ۔ اورخواتین کی ہراسگی کے ضمن میں اُس نے بہت کچھ کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی خواتین اُس سے ملتیں‘ کیونکہ ہالی ووڈ کا وہ سب سے بڑا پروڈیوسر تھا۔ اورایسی خواتین بھی تھیں جو ہراسگی کے الزامات کے بعد بھی وائن سٹین سے ملتی رہیں۔ آج وائن سٹین جیل میں ہے اورشاید اُس کی بقیہ زندگی جیل میں ہی گزرے ۔ یہ یاد رہے کہ امریکی جیلیں بڑی ظالم جگہیں ہوا کرتی ہیں۔ پاکستان میں اگر آپ تھوڑے سے مالدار ہوں تو جیل میں وقت نسبتاًآرام دہ طریقے سے گزر جاتاہے ۔ امریکی جیلوں میں یہ اے اوربی کلاس نہیں ہوتے۔ امیر ہوں یا غریب ایک ہی کلاس ہوتی ہے ۔ چھوڑیں ان بھاری باتوں کو ۔ حال ہی میں کسی نے گانا بھیجا ۔ کوئی سرائیگی سنگر ہیں جو وہ مشہور گانا گارہی ہیں '' بہوں ناراض آں ڈھولے تے ‘‘۔عطا ء اللہ عیسیٰ خیلوی نے بھی یہ گانا گایا ہے لیکن جس انداز سے اس خاتون نے گایا وہ واقعی لاجواب ہے۔ کیا آواز ہے اورساتھ ہی کیا ادا اورانداز ۔ ہاتھ اورانگلیاں اتنی خوبصورت کہ ہلاتے ہوئے دل کو لگتی ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے سنگر کا نام نہیں پتا چل رہا۔ جی میں تو یہ آتاہے کہ گانے کی خاص نشست کیلئے رجوع کیا جائے ۔ لیکن ظاہر ہے کچھ جیب کی طرف بھی دیکھنا پڑے گا۔