اوروں کا لاہور وسیع ہوگا‘ ہمارا لاہور بہت ہی محدود ہے اور اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارا لاہور اس سرائے کے کمرے تک رہ گیا ہے جہاں ہمارا قیام ہوتا ہے۔ جائیں بھی تو کہاں جائیں؟ جانے کی جگہیں کتنی رہ گئی ہیں؟
اسے ہمارا اجتماعی کارنامہ ہی سمجھنا چاہیے کہ پورے لاہور میں نہ کوئی لائبریری نہ ریڈنگ روم رہ گیاہے جہاں عام آدمی کی رسائی ہوسکے۔ مال پہ ڈھنگ کا صرف ایک ہی کتب خانہ رہ گیاہے، صدیقی اینڈ سنز، جہاں بہت عمدہ قسم کی پرانی کتابوں کاذخیرہ ملتا ہے۔ کبھی کبھار وہاں چلے جاتے ہیں اورشاذ ہی ایسا ہوتاہے کہ پھر کوئی کتاب نہ لے کر واپس آئیں۔ جتنی دیروہاں کتابیں پھرولتے رہیں مالکِ دکان کے ماتھے پہ شکن نہیں پڑتی۔ باغ جناح میں قائداعظم لائبریری کا ریڈنگ روم ضرور ہے لیکن وہاں زیادہ تروہ لڑکے اورلڑکیاں ہوتے ہیں جوکسی امتحان کی تیاری کررہے ہوں۔ نجانے کیوں وہاں ایک اداسی کاسماں چھایا رہتاہے۔ اُس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ موجود طالب علم اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ زیادہ ہی فکرمند لگتے ہیں۔ یہ جو اَب لائبریری ہے گزرے وقتوں میں جمخانہ کلب ہوا کرتاتھا۔ بلڈنگ کا ڈیزائن بہت ہی اعلیٰ قسم کا ہے اوراندرون بھی ڈیزائن دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔ اونچی چھت جس میں رنگین شیشے آویزاں ہیں اور مکمل فرش لکڑی کا۔ آرکیٹکچر کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں رکھتا لیکن اس بلڈنگ کے سٹائل کو شاید گریکو رومن (Greco-Roman) ہی کہاجائے۔ ایک دوبار قائداعظم لائبریری کا باقاعدہ ممبر بننا چاہا لیکن فارم لینے سے آگے بات نہ بڑھ سکی۔ فارم پہ ایک شرط درج ہے کہ کسی گریڈ 17کے افسر کے دستخط ہوں۔ گریڈ 17 کے افسر کوہم کہاں سے ڈھونڈیں۔
شمالی ہندوستان میں مال لاہور سے زیادہ خوبصورت کوئی شاہراہ نہ تھی۔ چائے خانوں کی بھرمار ہوا کرتی تھی۔ دیگر شام کو اکٹھا ہونے کی جگہوں کا ذکر کیا کروں، شاید اُن کا ذکر ممنوع ٹھہرے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پورے مال پہ ایک کام کا چائے خانہ نہیں۔ بڑے ہوٹلوں کے چائے خانوں میں ہم جانے سے رہے۔ اب تو بیماری کی وجہ سے بند ہیں لیکن جب کھلے بھی تھے اُن کا ماحول جی کوکچھ زیادہ بھاتانہیں تھا۔ تھیٹر جب کھلے تھے وہاں بھی نہیں جاپاتے تھے کیونکہ وہاں کے شو بہت دیر سے شروع ہوتے۔ انگلستان وغیرہ میں رواج ہے کہ تھیٹر کے شوز شام کو ہوتے ہیں۔ بن سنور کے وہاں لوگ جاتے ہیں اورپھر شو کے بعد کسی ریستوران یا نائٹ کلب میں شام گزرتی ہے۔ یہاں حساب اُلٹا ہے۔ شام کو آپ جھک مارتے رہیں اورپھر رات گئے شو پہ جائیں۔ یہ مہذب طریقہ ہی نہیں، لیکن ہماری کس نے سننی ہے۔ لاہور عجائب گھر جانے کی جگہ ضرورہے لیکن وہاں بھی دو تین پینٹنگز عبدالرحمان چغتائی کی ہیں اورفقط تین اُستاد اللہ بخش کی۔ عجائب گھر کا شاہکار البتہ لارڈ بدھا کا وہ مجسمہ ہے جسے انسان سامنے کھڑا ہوکے دیکھے تو دیکھتا ہی رہ جاتاہے۔ کن ہاتھوں نے اسے تراشا ہوگا۔ مجسمہ تو لگتا ہی نہیں۔ سامنے دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ بوہڑ کے درخت کے نیچے واقعی لارڈ بدھا محو خیال بیٹھے ہیں۔
پاکستان کی محفلیں ایک عجیب رنگ اپنا چکی ہیں۔ کسی شہر جائیں تو شام ڈھلے تفریح کا یہی ایک ذریعہ رہ گیاہے کہ آپ کسی دوست کے ہاں جائیں۔ دوست رنگین مزاج ہو تو محفل جم جاتی ہے نہیں تو پھر آپ ہیں اورآپ کی تنہائی۔ اپناتو دل نہیں کرتا کہ طلب کی نگاہوں سے کسی دوست کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ میں کوئی ذومعنی بات نہیں کررہا لیکن مرد حضرات سے شام کو ملنا زیادہ اچھا نہیں لگتا۔ پاکستان کی سڑکوں پہ ویسے ہی مرد نظر آتے ہیں۔ آنکھوں کیلئے کیا یہ کافی نہیں کہ دن بھر مرد حضرات کو دیکھا؟ لہٰذا جو شب سرائے کے کمرے میں گزرتی ہے خود کی صحبت میں ہی گزرتی ہے۔ کسی دوست نے بھولے سے فون بھی کرلیا تو عذر بنا لیتے ہیں کہ فلاں کام میں مصروف ہیں۔ کوئی پطرس بخاری یا حبیب جالب ہو پھر تو بات ہوئی، نہیں تو اکثر مرد حضرات کی گفتگو شام کے وقت خاصی ثقیل لگتی ہے۔ وہی سیاست، وہی پیسے بنانے اورکرپشن کی کہانیاں۔ اس سے تو بہتر ہے کہ انسان اپنی کمپنی میں بیٹھے اورکچھ اچھے گانے سُن لے۔ گانوں کے ساتھ ساتھ انسان مزید کیا کرے وہ میں کہنے سے رہا۔
بہرحال ایک لحاظ سے ہم پاکستانی اچھے رہے ہیں۔ پابندیاں اور قدغنیں تو معاشرے میں موجود ہیں لیکن پاکستانی ذہنوں نے ایسے راستے ڈھونڈ نکالے ہیں کہ بہت سی پابندیاں ظاہراً تو ہیں لیکن اصل میں بے معنی ہوکے رہ گئی ہیں‘ یعنی قدغنوں کے گرد دوسرے راستے ڈھونڈ لیے گئے ہیں۔ پابندیوں کے باوجود کون سی چیز ہے جو یہاں دستیاب نہیں؟ آج کل کے نوجوان تو اُن اشیا کو استعمال میں لاتے ہیں جن کے ناموں سے ہم پرانے لوگ واقف بھی نہیں۔ ہم پرانے لوگ ہیں ہماری عادات بھی پرانی ہیں۔ پرابلم صرف یہ ہے کہ یہ جو گھوم پھر کے کام نکالنا پڑتا ہے اس سے اہل شوق کے مشغلے بیشتر آبادی کی دسترس سے نکل چکے ہیں۔ یعنی خرچے اور دام بہت بڑھ گئے ہیں۔ اونچی اونچی بلڈنگوں والوں کو فرق نہیں پڑتا‘ لیکن محدود آمدنی والے اس صورتحال میں مارے گئے ہیں۔ بارہا میں ذکر کرچکا ہوں کہ پرانے پاکستان میں تفریقِ آمدن تو تھی لیکن بالحاظِ وسائل ہر انسان اپنا کام چلا لیتاتھا۔ ظاہر ہے امراء کی اپنی تفریح کی جگہیں تھیں لیکن تفریح پہ حق عام آدمی کا بھی تھا۔ اس بازار کی کیا حالت ہوا کرتی تھی جس کا نام سردار ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب ہے‘ میں کہنے سے رہا۔ ایسا ذکر اچھا نہیں سمجھا جائے گا لیکن فقط اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ راہ چلتے خواص بھی ہوتے اورعوام بھی۔ جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ قوانین سے اورکچھ حاصل ہوا یا نہیں لیکن ایک تو اجتماعی منافقت میں اضافہ ہوا اور دوئم محدود وسائل کے لوگوں کیلئے تفریح کے حوالے سے حالات مشکل بن گئے ہیں۔
اپنا رونا صرف اتناہے کہ جیسے فضول کی سیاست سے مبرّا ہوئے وہاں قوم کی بہتری اور روشن مستقبل کے بارے میں بھی فکر ایک طرف رکھ دی ہے۔ قوم جانے اور اس کا مستقبل۔ ہمیں غرض ہے اپنے دنوں اورشاموں سے۔ دنوں سے بھی اتنی نہیں کیونکہ دن گزر ہی جاتے ہیں۔ اداسی کا احساس شاموں کوآن گھیرتا ہے۔ اتنا اپنے بارے میں ضرورکہیں گے کہ لاہور میں ہماری فون کال چل جاتی ہے، یعنی کارگر ثابت ہوتی ہے‘ لیکن یہ کافی نہیں۔ کمرے سے باہر نکلنے کا خیال آتاہے۔ لاہور آئیں تو سوچ اُٹھتی ہے کہ ایسی جگہیں بھی ہونی چاہئیں جہاں روشنیاں مدھم ہوں اور اچھی موسیقی چل رہی ہو۔ لیکن جسے امریکا میں downtown کہتے ہیں یعنی شہر کا وہ حصہ جہاں شام ڈھلے روشنیاں جگمگاتی ہیں ہمارے ہاں سرے سے موجود ہی نہیں۔ ڈاؤن ٹاؤن کا تصور ہوا کرتاتھا لیکن بھولے بسرے پاکستان میں۔ وہ جگہیں گئیں‘ وہ سینما ہال بند ہوگئے، وہ لوگ بھی نہیں رہے۔
باہر تالے لگا کر سب کچھ ہم نے اندر کردیاہے۔ جو کرو چھپے دروازوں کے پیچھے کرو۔ حالات جب ایسے ہوں تو فکرِ دنیا کو لے کر ہم کیا کریں۔ اسی لیے فکر دنیا سے ہم بے نیاز ہوچکے ۔ فکر کبھی ہوتی ہے تو یہی کہ گزرے زمانوں کے اندھیروں سے کہیں پرانا فلیٹیز یا انٹر کا نٹیننٹل لوٹ کے آجائے۔ معتبر اخبار تب پاکستان ٹائمز ہوا کرتاتھا اوراس میں باقاعدہ اشتہار مع فوٹو چھپتے تھے کہ فلیٹیز یا کسی اورہوٹل میں شام کا پروگرام یہ ہوگا۔ میسر ہر چیز ہے، اس سے انکار نہیں‘ لیکن اس خلوت کی روشنیوں سے دل کبھی اُکتا جاتاہے۔ جی کرتاہے کہ پرانی محفلیں لوٹ آئیں۔ گزرے زمانے کا کوئی ہوٹل ہو، کونے میں اپنا مستقل ٹیبل ہو اور ویٹر جانتا ہو کہ صاحب کی مرضی کیا ہے۔ ایسی حسرتیں رہ گئی ہیں۔