شراب اوراس کا ذکر ہمارے معاشرے میں کیا کم معیوب سمجھے جاتے ہیں کہ مملکت کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کو نیب کا ادارہ احتساب کے کٹہرے میں لا رہا ہے اور وہ بھی شراب کے کسی قضیے کے حوالے سے؟ بہرحال نیب کا شکریہ کہ ایسا کرکے اُس نے اِس حساس موضوع پہ کچھ نہ کچھ رائے زنی کا موقع فراہم کر دیاہے۔
ہمارے پاک اور پاکیزہ معاشرے میں تویہ حال ہے کہ ہر واردات کا ارتکاب ہوسکتا ہے لیکن اس موضوع کو چھیڑا نہیں جا سکتا۔ کبھی ذکر ناگزیر ہو جائے تو گھماپھرا کے کام چلانا پڑتا ہے۔ عرب والوں کے ہاں اصطلاح مناسب ہے یعنی ام الخبائث، نہیں تو ہم ثواب کے مارے لوگ کبھی روحانیت کی آڑ لیتے ہیں اورکبھی راحت کی۔ ایک تو لفظ کا لفظی معنی ہوتاہے اور ایک اس کا مفہوم۔ مے نوشی کے لفظ کے پیچھے مفہوم کی ایک پوری دنیا آباد ہے جس کے سہارے کے بغیر نہ فارسی نہ اردو شاعری مکمل ہوسکتی ہے‘ لیکن حالات کا جبر دیکھیں‘ ہم نے اپنے اوپر وہ ظلم ڈھائے کہ لغتوں کے اوراق کو بھی بند کرنا پڑا۔ ہمارا شاعری ورثہ دیکھیے، اردو سے لے کرپنجابی اوردوسری زبانوں تک۔ الفاظ کا ایسا ذخیرہ کہ بن پلائے سرور طاری ہوجائے‘ لیکن یہاں حالات ایسے پیدا کئے گئے کہ شاعری کے دروازوں پہ تالے لگانا پڑیں۔ اس چیز کا ذکر نہیں ہو سکتا، فلاں کا ذکر خطرناک ہے۔ ایسے معاشرے میں سوچ یا فکر کا صحیح ارتقا کیسے ہو سکتا ہے۔
غالب اور باقی ہندوستانی شاعروں کو تو چھوڑئیے‘ اقبال کو ہی سامنے رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں کیا مے اورمے نوشی کا ذکر نہیں ہے؟ ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مغربی کلچر میں چونکہ کسی لحاظ سے بھی مے نوشی پہ کوئی قدغن نہیں تو روشِ رندانہ کا کوئی خاص مفہوم نہیں؛ البتہ مسلم تہذیب میں مے نوشی کے عمل کوایک خاص نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ وہ نگاہ پسندیدگی کی نگاہ نہیں۔ لہٰذا جب شاعر لوگ مے اورمے نوشی کا استعمال کرتے ہیں تو بطور نشانیِ بغاوت (symbol of revolt) استعمال کر رہے ہوتے ہیں‘ یعنی معاشرے کی موجود اقدار‘یا جسے ہم انگریزی میں Established norms‘ کہتے ہیں انکے خلاف آواز بلند کرنا ہو توایسی اصطلاحیں کام آتی ہیں۔ لہٰذا ہر مے نوشی کا ذکر تلقینِ شراب نوشی نہیں ہوجاتا۔ ہم جب حرکاتِ ممنوعہ کا ذکر کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ ہم کسی خاص چیز کی تلقین کر رہے ہوں۔ ایسے موضوعات کاذکر محاورتاً ہوتا ہے یعنی metaphorically یا symbolically‘ اور جب یہ استدعا آتی ہے کہ ضیا دور کی پابندیاں ختم ہونی چاہئیں تومطلب یہ ہوتاہے کہ جوپہرے ہم نے اپنی اجتماعی سوچ پہ بٹھا دئیے ہیں وہ کسی طرح ہٹ جائیں‘ لیکن ایسی باتیں ڈنڈا برداروں کے سامنے کیسے کی جائیں؟ حال وہ ہو جائے جو مجنوں کے سر کا ہوا تھا۔
پاکستان کے ساتھ ہوا کچھ یوں ہے کہ بنانے والے اور تھے اور ہتھے اوروں کے چڑھ گیا۔ یہ نہیں کہ بنانے والے بہت انقلابی تھے، اس غلطی میں نہیں پڑنا چاہیے‘ لیکن کم ازکم وہ ان خصلتوں سے مبرّا تھے جو آج مملکت میں ہرطرف دیکھی جاسکتی ہیں۔ بانیانِ پاکستان سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جس ملک کو بنانے کی تگ ودو میں وہ لگے ہوئے ہیں اس کا حشر یہ ہوجائے گا۔ بات مادی ترقی کی نہیں۔ مادی لحاظ سے پاکستان میں بہت کچھ ہواہے لیکن نظریات اورسوچ کے حوالے سے ملک پیچھے ہی پھسلتا گیاہے۔ ہمیں تو ایک مثال ہونا چاہیے تھا۔ آج کے ہندوستان کے دانشور اورلبرل طبقات پاکستان کی طرف دیکھ کے کہہ رہے ہوتے کہ دیکھو انہوں نے کیسا آزاد ملک بنالیا ہے۔ وہاں نہ تعصب ہے نہ مسلکی بنیادوں پہ کوئی نفرت یعنی نریندرمودی کے ہندوستان کا ہم اپوزٹ (opposite) ہوتے۔ ہندوستان کے باسی یہاں آتے تو فرق محسوس کرتے‘ لیکن جن ہاتھوں ہم چڑھے اس کے نتیجے میں ملک پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔
بہرحال جو الزام بزدارصاحب پہ لگا ہے اس نے چند چیزیں توواضح کردیں۔ ایک یہ کہ قانون میں بہرحال گنجائش موجود ہے کہ خاص قسم کے ہوٹلوں کو مخصوص نوعیت کے پرمٹ جاری کیے جائیں۔ الزام دو نوعیت کے ہیں، ایک تکنیکی قسم کا کہ ضابطے کی خلاف ورزی کی گئی، دوسرا یہ کہ پرمٹ جاری کرنے میں رشوت کا ارتکاب ہوا۔ ائیرپورٹ کے نزدیک جس ہوٹل کا ذکر آرہا ہے، کہا جا رہا ہے کہ اُسے ایک خاص ضابطے کی کارروائی پوری کرتے ہوئے ایک سرٹیفکیٹ لینا چاہیے تھا اور اُسی سرٹیفکیٹ کی بنا پہ اُسے مخصوص پرمٹ مل سکتاتھا۔ یہ تو کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ لگتا یوں ہے کہ عذر چاہیے تھا اورعذر گھڑ لیاگیا۔ ایک تو حکومت کہتے نہیں تھکتی کہ یہاں ٹورازم کا فروغ ہونا چاہیے۔ باہر کا ٹورسٹ یہاں کیوں آئے جب بوند بوند کو ترسے اور وہ سہولیات کماحقہ نہ ہوں جو بنکاک یا دوبئی میں میسر ہوتی ہیں۔ اُن ملکوں میں ٹورازم سے اتنا کمایا جاتاہے جو ہماری تمام قومی آمدنی سے زیادہ ہے۔ بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ ڈنڈا بردار نظریات جو ہمارے معاشرے میں رچ بس گئے ہیں وہ معاشرے ایسے نظریات سے بچے ہوئے ہیں۔ وعظ ونصیحت کرنے والے ہر معاشرے کی طرح دوبئی اور بنکاک میں بھی موجود ہیں۔ بنکاک میں تو بسوں اورکشتیوں پہ بدھ مت کے مبلغین کیلئے جگہیں مخصوص ہوتی ہیں جہاں عام آدمی نہیں بیٹھ سکتا‘ لیکن وہاں کے مبلغین اپنے کام تک رہتے ہیں اوراپنا جبر معاشرے پہ نہیں ٹھونستے۔ دوبئی ہم سے کم مسلمان ملک نہیں لیکن جو نظریات کا جبر یہاں ہے وہاں اس کا تسلط ناممکن ہے کیونکہ وہاں کے حکمران ایک پل بھی ایسا برداشت نہ کریں۔ نظریات کا جبر یا نریندر مودی کے ہندوستان میں دیکھنے کو ملتا ہے یا، اوریہ میں ذرا جھجک سے کہہ رہاہوں، ہمارے ہاں۔ نظریات ہمارے مختلف ہوں گے لیکن معاشرے کے جبرمیں مماثلت نظرآتی ہے۔
رشوت والا الزام زیادہ سنگین ہے۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جام صادق علی نے اپنے دورِ اقتدار میں سندھ میں بے پناہ پرمٹ جاری کیے۔ اس وجہ سے جو مسئلہ ہم پنجابیوں کو درپیش ہے سندھ میں سرے سے موجود نہیں۔ قانوناً نہیں تو عملاً سندھیوں نے اپنے آپ کو ضیاالحق کے حدود قانون کی اس مخصوص قدغن سے آزاد کرلیاہے۔ مخصوص اشیا کے پیچھے سندھی مارے مارے نہیں پھر رہے ہوتے لیکن جام صادق نے قانون کے تحت پرمٹ جاری کرنے کیلئے کوئی رشوت نہیں لی تھی۔ ایسا کبھی سننے میں نہیں آیا۔ اگر جو الزام بزدار صاحب پہ لگ رہاہے اس میں ذرہ بھر بھی صداقت ہے توبڑے شرم کی بات ہے۔ مے پرستی میں نہ تو ملاوٹ کا شائبہ ہونا چاہیے نہ رشوت کا۔یہی تو ایک چیز میخانے کے ماحول کو منفر د رکھتی ہے کہ رند جو میخانے میں قدم رکھے وہ بازار کی چالاکیوں کو باہررکھ آتاہے لہٰذا دیگر اقسامِ رشوت کیلئے شاید کوئی معافی ہو لیکن مے پرستی کے حوالے سے کسی قسم کی بے ایمانی کیلئے کوئی معافی نہیں بنتی۔
الزام سچا ہے تو ذوق کی کمی کی بھی کچھ نشاندہی کرتا ہے۔ عرصے بعد پنجاب میں کسی نئے پرمٹ کا اجرا ہوا اور وہ بھی متنازعہ بن جائے۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔ ہم پنجابی کرتے تو ہر چیزہیں لیکن دکھاوے میں کمی نہیں آنے دیتے۔ کریں جو بھی سر پہ تقویٰ و پاکیزگی کی ٹوپی پہنے رکھتے ہیں۔ اگر آج یہ تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے تو مستقبل قریب میں کسی پنجابی وزیر اعلیٰ نے ایسا پرمٹ جلدی سے جاری نہیں کرنا‘ یعنی یوں سمجھیے کہ ایسی کارروائی پہ فی الحال بریک لگ جائے گی۔ محکمہ ایکسائز کے سامنے کوئی درخواست آئے تو پڑھنے سے پہلے انگلیاں کانوں تک پہنچ جائیں گی۔ اگر بزدار صاحب کا کوئی رشتہ دار اس سارے قصے میں ملوث ہے تو وہ برسرعام چھتر کا مستحق ہے۔ اللہ اللہ کرکے کوئی ایک چیز ہوئی اوراسے بھی خراب کردیا۔