پاکستان کا پرابلم نالائقی ہے۔ انفرادی ہنر ہم میں ہو گا لیکن ہماری تاریخ ثابت کرتی ہے کہ اجتماعی طور پہ ہم پرلے درجے کے نالائق لوگ ہیں۔ کوئی کام ہم سے سیدھا ہوتا ہے؟ سڑکوں سے لے کر دفتری کاموں تک، ہم کہیں بھی دیانتداری کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ کیفیت ایسی ہو تو نظامِ حکومت آپ جو مرضی لے آئیں نتیجہ وہی نکلے گا جو ہمارے اجتماعی حال میں نظر آتا ہے۔
کوئی ایک ادارہ تو ہو جو ہماری نالائقی سے بچا ہو۔ انگریز اچھا بھلا نظام تعلیم دے گئے تھے، اس کا ہم نے بیڑہ غرق کر دیا۔ تعلیم کے حوالے سے غور کرنے کی بات یہ کہ ہمارے تمام تر مذہبی دعووں کے باوجود پاکستان میں جس کسی کی تھوڑی سی استطاعت ہو چاہتا ہے کہ اس کے بچے مشنری یا انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ پاکستان میں تعلیم کی معراج یہی مشنری سکول اور کالج رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مشنری سکولوں کو بھی ہم نے نہیں بخشا اور ان کا وہ معیارِ تعلیم و تدریس نہیں رہا جو گزرے وقتوں میں ہوا کرتاتھا۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ مولانا محمد خان شیرانی‘ جو جے یو آئی کے بڑے لیڈر ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے ہیں‘ نے اپنے ایک بیٹے کا داخلہ ایچی سن کالج لاہور میں کرایا۔ یعنی دوسروں کو تلقین مدرسوں کی تعلیم کی اور اپنا فرزند ملک کے صفِ اول کے انگریزی سکول میں۔ یہ الگ بات ہے کہ فرزند زیادہ دیر وہاں ٹھہر نہ سکا۔
سڑکیں اور پل اچھے بھلے بنتے تھے۔ انگریزوں کے پرانے پلوں پہ ایک نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ تعمیر کے معیار کیا ہوا کرتے تھے۔ اب ان کاموں میں کتنے گھپلے ہوتے ہیں ہم سب جانتے ہیں۔ ریلوے نظام ہمارے ہاتھوں تباہ ہوا۔ اینگلو انڈین یعنی جنہیں ہم دیسی انگریز کہتے تھے ریلوے نظام میں کلیدی ذمہ داریاں سنبھالا کرتے تھے۔ وہ سب چھوڑ گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے تقریباً ساری اینگلو انڈین آبادی کو یہاں سے بھگا دیا۔ ریاست کا ماحول ہی ایسا بن گیا کہ اُن دیسی انگریزوں نے یہاں سے ہجرت کرنے میں اپنی بہتری سمجھی۔ ان کا رنگ ہمارے جیسا تھا لیکن انگریز اثر کی وجہ سے محنت اور ڈسپلن اُن کے مجموعی مزاج میں ہم پکے دیسیوں سے تھوڑا زیادہ تھا۔ ایک زمانے میں ریلویز کا بہت اچھا نظام ہوا کرتا تھا۔ پھر خرابی کیا بربادی آتی گئی اور آج ریلویز کا نظام کھنڈر بننے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
یہ ذہن نشین رہے کہ آج بھی جو ادارے ہیں سارے کے سارے انگریزوں کے بنائے ہوئے تھے۔ قانون ان کے، عدالتی نظام ان کا، ضابطے کی کارروائیاں سب ان کی ترتیب کردہ۔ آفرین ہو ہماری اجتماعی صلاحیتوں پہ کہ کوئی ایک ادارہ نہیں جو ہماری اجتماعی نالائقی سے بچ گیا ہو۔ نہیں، صرف ایک ادارہ ہے جس نے اپنے آپ کو بچا رکھا ہے اور وہ ہے عسکری شعبہ۔ عسکری اداروں نے بہت حد تک انگریز کے ورثے کو سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔ نعرے جو بھی ہوں، ان اداروں کا مزاج یا جسے ہم انگریزی میں ethos کہتے ہیں وہی ہے جو انگریز کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ ہندوستان کی فوج ہو یا بنگلہ دیش اور پاکستان کی، اِن کی تنظیم اور ٹریننگ کے طریقہ کار وہی ہیں جو ہمیں ورثے میں ملے۔
پی آئی اے واحد ادارہ ہے جو ہمارے ہاتھوں سے بنا۔ جب تک اس کے سربراہ وہ رہے جن کی تعلیم و تربیت انگریزی ماحول میں ہوئی تھی‘ اس کا معیار بلند رہا۔ ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان پاکستانی تربیت گاہوں کی پیداوار نہ تھے۔ ان کی سکولنگ اور تربیت انگریز اداروں میں ہوئی۔ جو مزاج ان کا وہاں بنا اُسی مزاج کو انہوں نے پی آئی اے کا حصہ بنایا۔ جب پاکستانی جمہوریت یونین بازی کی شکل میں پی آئی اے میں داخل ہوئی تو ہماری ایئر لائن بربادی کے راستے پہ چل نکلی۔ یہ بات بھی ہے کہ نور خان اور اصغر خان جیسے سربراہ پی آئی اے میں آنا بند ہو گئے۔ آتے بھی کیسے جب وہ ساری پود ہی ختم ہوتی گئی۔ جو ماحول ہم نے ملک کا بنا دیا ہے اُس میں کسی معجزے سے ہی کوئی نور خان یا اصغر خان پیدا ہوسکتا ہے۔ اب تو انہی پہ گزارا کرنا پڑتاہے جوموجود ہیں۔
ایسے میں جمہوریت اورآمریت کی بحث بے معنی ہے۔ تاریخِ دنیا میں زیادہ کارنامے آمروں کے کھاتوں میں آتے ہیں۔ سکندرِ اعظم ہو یا چنگیز خان وہ سب آمر تھے۔ جولیئس سیزر، نپولین، آپ نام لیتے جائیں سارے کے سارے اپنے زمانوں کے مردِ آہن تھے۔ جمہوریت تو پچھلے سوسال کی پیداوار ہے۔ برطانیہ میں پہلے آئی اوریورپ کے دیگر ممالک میں بہت عرصے بعد اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ ہمارا المیہ یہ رہاہے کہ جمہوریت تو یہاں تھی ہی کمزور اورجو آمر آئے انہوں نے بھی نالائقی کے فن میں کمال کر دیا۔ کوئی سوچ، فکر، ویژن کسی ایک میں نہ تھا۔ مطلق العنانیت تو تب کسی کام کی کہ آپ کے سامنے کوئی سوچ ہو۔ مصطفی کمال اتاتُرک ایک آمر تھا۔ اندازہ لگائیے کہ ہٹلر جیسا آدمی بھی اتا تُرک کو ایک بڑا آدمی سمجھتا تھا۔ لیکن اتاتُرک جیسے کتنے اور لیڈر مسلم ممالک میں پیدا ہوئے ہیں؟ پچھلے سوسال میں اتاتُرک جیسا لیڈر کسی مسلم ملک کو نصیب نہیں ہوا۔ کامیاب جرنیل تو تھا ہی لیکن شکست کی راکھ سے اس نے ایک نئے وطن کی تعمیر بھی کی۔
جاپان کو جمہوریت امریکیوں نے دی‘ نہیں تو وہ خالصتاً ایک آمرانہ ملک تھا۔ چین میں تو ہے ہی ایک پارٹی سسٹم۔ اور جو ہمارا تصورِ جمہوریت ہے اس کو تو چین مانتا ہی نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان میں آمریت ہونی چاہیے۔ جیسے عرض کیا‘ ہماری آمریتیں بھی نالائق نکلیں۔ چین جیسی آمریت کے ہم قابل نہیں۔ ہمارا وہ تاریخی پسِ منظر ہی نہیں جس کی بدولت ہم انقلاب کی راہوں پہ چل سکیں‘ لیکن ہمارا مسئلہ جمہوریت نہیں۔ یہاں آپ انگریز کی پارلیمنٹ لے آئیں ہم نے اس کو ناکارہ بنادینا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ محض جمہوریت کسی چیز کا حل نہیں۔ روس کی جمہوریت آئی اور سوویت یونین کی وحدت کا شیرازہ بکھر گیا۔ بورس یلسن جمہوری طور پہ روس کے صدر منتخب ہوئے تھے اور اُن سے نکماّ سربراہ پوری روس کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ روس کی تنزلی کو ولادیمیر پیوٹن نے روکا اور جمہوری طریقوں سے نہیں بلکہ ایک مردِآہن کے طورپر۔
ہمارے شہروں کاگند کیسے صاف ہو؟ پاکستانی عوام کو صفائی کا درس کون دے گا؟ کراچی کے قدرتی نالے جوکہ بارشوں کا پانی سمندر میں لے جاتے تھے بند ہوئے تو چاہے ملک میں کوئی آمر حکومت کررہا تھا یا جمہوریت کی بہار تھی‘ لوٹ مار کا بازار ہر دور میں گرم رہا۔ آمر مسلط ہو یا انتخابات کا انعقاد ہورہا ہو، کبھی کرپشن کا خاتمہ اس ملک میں ہوا؟ پٹوار اورتھانے کا نظام ہر موسم میں ایک طرزکا رہا۔ پھر ہم جو مڈل کلاسیے یا خودساختہ دانشور ہیں جمہوریت اورآمریت کی بحث میں کیوں پڑے رہتے ہیں؟ 95 فیصد عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتاکہ یہاں کو ن سا نظامِ حکومت ہے۔ پاکستان میں کب چیزیں ہونے لگیں گی؟ ہرکام کی رفتار کب تیز ہوگی؟ بے ایمانی‘ جواب معاشرے میں اتنی پھیل چکی ہے‘ اس کی سطح کب تھوڑی نیچے آسکے گی؟ مسائل تو یہ ہیں۔ اِن کا حل کیا ہے؟
ہم پنجابیوں میں خوبیاں بہت ہیں‘ لیکن کچھ کام ہمارے بس کی بات نہیں۔ ریاست ایسی بن چکی ہے، خاص طورپہ ایسٹ پاکستان کے الگ ہونے کے بعد، کہ ہم پنجابیوں کا پلڑا اس میں بھاری ہوگیا ہے۔ آبادی اوروسائل کے لحاظ سے باقی قومیتوں سے ہمارا وزن زیادہ ہے۔ اس بنا پہ ریاست چلانے کی ذمہ داری بھی ہمارے کندھوں پہ زیادہ ہے۔ لیکن تاریخِ پاکستان ثابت کرتی ہے کہ فنِ حکمرانی ہم پنجابیوں کو نہیں آتی۔ سکندراعظم سے لے کر آج تک ہم پنجابی مہاراجہ رنجیت سنگھ کو چھوڑ کر کبھی اقتدار میں نہیں رہے۔ حکمرانی کے جوہر پھر ہمیں کہاں سے آئیں گے؟