باقی چیزیں فروعی اور ثانوی نوعیت کی ہیں۔ کون کس سے ملا، کہاں ملا، ان موقعوں پہ کیا بات چیت ہوئی۔ اصل سوال کا جواب نہیں آرہا کہ جو کچھ آل پارٹیز کانفرنس کے سامنے نوازشریف نے لندن سے بیٹھ کر کہا وہ حقیقت کے نزدیک ہے یانہیں؟ انہوں نے توایک پوری ایف آئی آر کاٹ کے رکھ دی کہ یہاں کسی کو کام نہیں کرنے دیا جاتا، بدبخت وزیراعظموں کی مدت پوری نہیں ہوتی اور مسلسل مداخلت ہوتی رہتی ہے‘ حتیٰ کہ ایک متوازی (parallel) حکومت بن جاتی ہے اور سیاسی وزیراعظم مفلوج ہوکے رہ جاتے ہیں۔ جواب تو یہ آنا چاہیے کہ اس چارج شیٹ میں کوئی حقیقت ہے یا نہیں۔
نوازشریف نے بات کیا کی‘ بوکھلاہٹ پیدا کردی۔ اس بوکھلاہٹ کے نتیجے میں مزید کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر فلاں سے ایک دفعہ نہیں دودفعہ ملے۔ سیاستدانوں کی کھیپ نے چپکے سے ایک ملاقات کی اوروہاں انہیں بریفنگ ملی۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ خفیہ طورپہ خود ملتے ہیں اورپھر اداروں پہ حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں‘ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جو ریاست کے بیچ میں ریاست اور ریاست کے اوپر ریاست والی بات نوازشریف نے کی وہ سچ ہے یا نہیں؟ آئیں بائیں شائیں بہت ہورہی ہے لیکن اس سوال کاجواب ہر کوئی دینے سے کترارہا ہے۔
مؤثر جواب تو وزیراعظم کی طرف سے آنا چاہیے لیکن انہوں نے یہ کام اپنے وزرا پہ چھوڑ دیا اور یہ شاہسوار ایسے ہیں کہ اِن کی کوئی بات سنے تو ہنسی آجاتی ہے۔ اور تو کچھ سوجھا نہیں الٹا یہ الزام دے مارا کہ نوازشریف کی لائن تو ہندوستان کی لائن ہے۔ ہندوستان ہمارے اداروں کے خلاف ہے اور یہی بات نوازشریف کہہ رہے ہیں۔ ایسی عقل کی باتوں پہ کون کان دھرے۔
صاف ظاہر ہے کہ بات چبھی ہے۔ اس لئے بھی چُبھی ہوگی کہ پچھتاوا ہوگا‘ نوازشریف کو جانے کیوں دیا؟ یہیں رکھا ہوتا تو ایسی تقریر ادا نہ ہو سکتی ۔ یہ خیال بھی ذہنوں میں اُبھرا ہوگا کہ شریفوں پہ اعتبار نہیں کیاجا سکتا۔ ماضی میں بھی جس کسی نے اُن پہ مہربانی کی اُس کا ہاتھ انہوں نے ڈسا۔ صدر غلام اسحق خان اُن کے محسن تھے، اُن سے جالڑے۔ جنرل پرویز مشرف کو بے وقوف بنایا‘ اور اس بار پھر نوازشریف کو ازراہ ہمدردی لندن جانے دیا اوردیکھیں اُس کا صلہ کیا ملا۔
اگر کچھ ذہنوں میں ایسے سوال اُبھر رہے ہیں تو اُنہیں پہلے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ کوئی کھیل جاری ہے یا ایک طرح کی حالتِ جنگ؟ بقولِ شاعر جنگ اور عشق محبت میں ہر چیز جائز ہوتی ہے۔ نوازشریف نے جو کچھ بھی کیا ہو، کسی جرم کے بھی مرتکب رہے ہوں، اُن سے سیاست کی گئی۔ اگر اُن سے کوئی گلہ بنتا ہے تو اُن کا دل بھی ارمانوں سے بھرا ہے۔ طاقتور وزیر اعظم تھے لیکن اُن کے خلاف ایسی مہم چلی کہ بے بس ہوکے رہ گئے۔ وزیراعظم تھے لیکن جے آئی ٹی نے اُن کے ساتھ وہ کیا جس کا وہ سوچ بھی نہ سکتے ہوں۔ اور پھر ایک اقامے کی بنیاد پہ انہیں فارغ کر دیا گیا۔ موقع ہاتھ آیا انہوں نے اپنا بدلہ لیا اور بدلہ بھی ایسا کہ آگے سے کوئی بات بن نہیں رہی۔
یہ ایشو یہیں مر جائے پھر بھی بات ہے‘ لیکن خدشہ لاحق یہ ہے کہ جو موضوع نوازشریف نے اُٹھایا اس کی بازگشت دور تک جائے گی‘ حتیٰ کہ اگلے الیکشن میں یہی بنیادی موضوع ہوگا۔ کرپشن کی کہانیاں ویسے ہی کمزور پڑچکی ہیں۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر صاحب کا منفرد کمال ہے کہ انہوں نے کرپشن کی کہانیوں سے عوام کو بیزارکر دیاہے۔ پریس کانفرنسیں کرنے سے باز آتے نہیں لیکن جب کرتے ہیں بیزاری پیدا کردیتے ہیں۔ دوسال ہوگئے ہیں کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں۔ پاکستانی عوام شریفوں اور زرداریوں کی حقیقت جانتی ہے‘ لیکن ایک ہی موضوع چھیڑا جائے اور اُس سے کچھ برآمد نہ ہورہا ہو تو لوگ اُکتا جاتے ہیں۔ سزائیں ہوتیں، جائیدادیں ضبط ہوتیں، پھر تو کوئی بات تھی‘ لیکن روز کی محض الزام تراشیاں شوشہ لگنے لگ پڑتی ہیں۔ شہزاد اکبر صاحب نے احتساب کے عمل کو یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ اب اُن کی بات کون سُنے کون مانے؟
ہمیں چھوڑئیے، ہماری کیا توقعات ہوسکتی ہیں، لیکن عوام کا ایک بڑاحصہ تھا جسے عمران خان سے توقعات تھیں کہ وہ پتا نہیں کیا کیا معجزات آکے دکھائیں گے۔ وہ توقعات ایسی پوری ہوئی ہیں کہ جب حکومتی کارکردگی پہ بات آئے تو عام آدمی کا جی چاہتا کہ کان پکڑ لے۔ اب احتساب کیا لوگ سیاست سے بیزار ہونے لگے ہیں۔ ایسے میں تو یوں لگتاہے جیسے زرداری اور شریف ڈرائی کلین ہوکے آ گئے ہیں۔ احتساب اب احتساب بیورو اورحکومت کا موضوع بن کے رہ گیا ہے‘ عوام کا موضوع نہیں رہا۔ اور اگر اگلے الیکشن میں کسی نے احتساب کا ذکر کیا تو لوگوں کے ہاتھ اپنے جوتوں کی طرف جائیں گے۔ سیاسی بحث کے موضوع تو اب اور اُٹھیں گے۔ تلملاہٹ یہی ہے کہ نوازشریف نے ایسی دُکھتی رگ پہ انگلی رکھی ہے کہ اگلے الیکشن تک یہی موضوع زیر بحث رہے گا۔
سادہ لوح لوگ تو سمجھ رہے تھے کہ عمران خان اوراُن کے معاونین کا ایک ساتھ ہونا ملک کے لئے نیک شگون ثابت ہوگا۔ اس سے ملکی سیاست میں استحکام آئے گا۔ دو سال تو استحکام رہا لیکن اب ایک نئی صورتحال سامنے آرہی ہے۔ سیاسی جماعتوں یا یوں کہیے اُن کی قیادتوں کا جو امتحان ہونا تھا وہ بھی ہوچکا۔ نون لیگ اور پی پی پی کی لیڈرشپ سے اورکیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ مشکلیں اتنی ہوں تو آسان پڑ جاتی ہیں۔ پیشیاں اور مقدمات شروع میں سخت لگتے ہیں‘ پھر اُن کی عادت بن جاتی ہے۔ یہ کیفیت نون لیگ اور پی پی پی کی قیادت کی ہو چکی ہے۔ اب اُنہیں مزید کیا ڈرایا جا سکتا ہے؟
اس کیفیت کے باوجود استحکام آسکتا تھا اگر حکومت میں کوئی دَم خَم ہوتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ عمران خان میں وہ نہیں جس کی امید اُن کے حامی لگائے بیٹھے تھے۔ یہ تو ایک بہت اوسط قسم کی قیادت ہم دیکھ رہے ہیں۔ کر کچھ نہیں سکے اورکہنے کو بھی کچھ نہیں۔ وہی گھسے پٹے جملے کرپشن اوراحتساب کے بارے میں۔ ایک ہی تقریر انسان کتنی بار سُن سکتا ہے؟ عمران خان کے حامیوں نے تو ایک ایسا تصور بنا رکھاتھا کہ یہ تو پتا نہیں کیسے لیڈر ثابت ہوںگے‘ لیکن جس قسم کی حکمرانی کررہے ہیں سایوں تلے ہی کررہے ہیں۔ اپنی سوچ کچھ زیادہ نہیں۔
البتہ ایک چیز نئی ہوئی ہے۔ گزرے ادوار میں وزیر اعظموں کو متوازی حکومت اچھی نہیں لگتی تھی۔ عمران خان کا معاملہ دوسرا محسوس ہوتا ہے۔ اُن کی آسانی اور مدد کیلئے جو پھٹے لگائے ہیں وہ ہٹا لیے جائیں تو حالات مزید خراب ہو جائیں۔ لہٰذا یہ پہلی بار ہے ایک حکومت متوازی حکومت کی کیفیت سے نہایت خوش ہے۔ لیکن ایسے میں ایک پرابلم ہے۔ عمران خان کی تو مدد ہو رہی ہے لیکن وہ کسی کی ڈھال نہیں بن سکتے۔ تنقید کے نشتر برسیں گے تو عمران خان پہ نہیں بلکہ معاونین پہ۔ نواز شریف کی تقریر میں بھی یہ امر واضح تھا۔ عمران خان کا ذکر انہوں نے کیا تو سرسری طور پہ جیسے عمران خان کسی ذکر کے قابل ہی نہیں۔ سارا زور اُن کا ریاست کے بیچ میں ریاست یا ریاست کے اوپر ریاست کی طرف تھا۔
ایسی صورتحال کیا صاحبِ اختیار لوگوں کو اچھی لگے گی؟ وہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ چُنا کس شیر کو اور وہ بھی کس کام کا نکلا۔