انسا ن کو وہی کرناچاہیے جس میں اس کی اصل مہارت ہو ۔ترکھان ٹھیکیدار تب بنے جب ٹھیکیدار ی کی مکمل سمجھ ہو‘ نہیں تو نہ ترکھان رہے نہ ڈھنگ کا ٹھیکیدار۔ فوج میں بھی نوکری کی کچھ وقت فارن سروس میں بھی گزارا‘لیکن دونوں محکموں میں جی نہ لگا۔ طبیعت بنیادی طورپہ کاہلوں والی تھی اوراس لحاظ سے جو کام راس آیا وہ صحافت کا تھا۔ باقی کسی کام کیلئے فٹ ہی نہیں تھے ۔ کسی قسم کے کاروبار کیلئے بالکل بھی نہیں۔
صحافت میں تو جُتے رہے لیکن ایک پرابلم تھاکہ سیاست کی بھی لَت لگی ہوئی تھی ۔ کچھ اپنا شوق تھا کچھ خاندانی مجبوری کہہ لیجیے ۔ عرصے سے گھرانا ہمارا سیاست میں لگا رہا ‘ اس لحاظ سے خیا ل دل میں رہتا کہ سیاست کی گھاٹ کا پانی بھی پینا چاہیے۔ صحافت اسلام آباد میں کرتے لیکن کوئی الیکشن آتا تو گاؤں کا راستہ لیتے اور کچھ نہ کچھ حصہ اپنا وہاں ڈالتے ۔ حتیٰ کہ بلدیاتی انتخابات بھی ہوتے تو اس کا چسکا بھی کسی حد تک لیتے ۔
صحیح مزہ صحافت کا تب آیا جب کالم نویسی کی طرف گئے ۔اب تو ہم اردو دان ہوگئے ہیں لیکن پہلے انگریزی میں لکھا کرتے تھے ۔ ہفتے میں ایک آدھ کالم لکھا ‘ دو تین اداریے مار دیے اورپھر اسلام آباد کی عیاشیوں کی طرف رخ ہوتا۔ شہر تب چھوٹاتھا اورخوبصورت بھی۔ پانچ منٹ کی مسافت سے ہر جگہ پہنچ جاتے ۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ گھر سے گاڑی میں بیٹھے اور پندرہ منٹ میں ائیر پورٹ پہنچ گئے ۔ یہ تب کا اسلام آباد تھا ‘اب تو بے ہنگم شہر بن کے رہ گیاہے ۔ شام کو اکثر پارٹیوں میں جاتے ‘ سفارتی تقاریب میں بھی باقاعدگی سے شمولیت ہوتی ۔ کبھی کبھار چکوال آنا ہوتا نہیں تو زیادہ تر اسلام آباد کے ہی ہو کے رہ گئے تھے ۔
ہمارے دوست اورمہربان ارد شیر کاؤس جی جب کراچی سے اسلام آباد آتے تو تمام وقت اُن کے ساتھ گزرنا ۔ اسلام آباد آئے ہوئے تھے کہ ایک دن کہنے لگے الٰہی بخش سومر وکے ہاں دوپہر کاکھانا ہے تم بھی چلو۔ وہاں میاں نوازشریف اورچوہدری شجاعت حسین بھی آئے ہوئے تھے۔ سومرو صاحب سے اپنی بھی اچھی ملاقات تھی لیکن اُس روز کاؤس جی صاحب کی وجہ سے اُن کے ہاں گئے ۔ میاں صاحب سے ملاقات ہوئی تو کہا: ایک بات کہنی ہے ۔انہوں نے پوچھا کہ علیحدگی میں‘ تو میں نے کہا: بس دو منٹ کیلئے ۔کونے میں صوفے پہ جابیٹھے تو میں نے کہا کہ آپ کی ایک ہاری ہوئی صوبائی سیٹ چکوال میں ہے ۔ الیکشن کبھی ہوئے اوراپنا ارادہ کھڑا ہونے کا بنا تو نظرِ عنایت کر دیجیے گا۔ میاں صاحب ہنس کے کہنے لگے کہ اگر ہاری ہوئی سیٹ ہے تو تم نے ہماری مشکل آسان کردی۔
1997ء کے الیکشن آئے تو اپنی صوبائی سیٹ کیلئے نون لیگ کے ٹکٹ کی درخواست دے ڈالی ۔ نامور کالم نویس عرفان حسین میرے گھر اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ شام کو ہم بیٹھے تھے ‘آدابِ شام کی رسومات ادا کررہے تھے کہ عرفان صاحب کے سامنے میں نے ایک فون چوہدری نثار علی خان کو کردیا اوردوسرا فون میاں شہبازشریف کو ۔دونوں اصحاب سے کہا کہ ٹکٹ کی درخواست تو دے دی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جنرل مجید ملک (مرحوم ومغفور) میری شکل پسند نہیں کرتے۔ وہ تو بات ہوگئی لیکن عرفان حسین حیرانی سے میری طرف دیکھنے لگے اورکہا کہ ایک صوبائی سیٹ کیلئے اتنی سفارشیں کروا رہے ہو۔ مجھے بھی شرم آگئی اوروہیں سے میں نے جناب سرتاج عزیز‘ جو کہ تب نون لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے‘ کو فون کیا کہ میری ٹکٹ کی درخواست کو واپس سمجھا جائے اورمیں امیدوارنہیں ۔
بات آئی گئی ہوگئی لیکن ٹکٹوں کے آخری دن مجھے میرے دوست مشاہد حسین کی بیگم دُشقہ سید کا فون آیا کہ لاہور سے پیغام آیا ہے کہ ایم این اے کا ٹکٹ چاہیے تو تمہیں مل سکتاہے ۔ میں نے کہا: تلہ گنگ کے راستے نہیں جانتا‘ وہاں سے قومی اسمبلی کا الیکشن کیا لڑوں گا۔بات پھر صوبائی اسمبلی پہ آئی تو میں نے کہا: ذرا سوچنے کا موقع دیجیے۔اپنی بیگم صاحبہ تھیں ‘ انہوں نے کہا کہ جو چیز گھر چل کے آئے اُسے ٹھکرایا نہیں کرتے ۔ اس جملے پہ ہم صوبائی اسمبلی کے امیدواربن گئے ۔ اگلا دن درخواستوں کا آخری دن تھا ۔ ڈرائیور بھی تب نہیں تھا ۔ اسلام آباد سے خود گاڑی چلا کے چکوال آئے ‘ وہاں سے تلہ گنگ جہاں کاغذات جمع کرائے اور شام کو ہی پچھتاوا لگ گیا کہ کیا بے وقوفی کرڈالی ہے ۔ قصہّ مختصر یہ کہ الیکشن تو جیت گئے لیکن زندگی کا مزہ خراب ہوگیا۔ کہاں کالم نویسی اوراسلام آباد کی رعنائیاں اورکہاں بڑے ریوڑ کاایک فالتو ایم پی اے ۔ 247کے ہاؤس میں نون لیگ ممبران کی تعداد 202تھی ۔ یعنی واقعی ایک بڑا ریوڑ تھا ۔ اس ریوڑ کا حصہ بننے میں کیا لطف ہوسکتاتھا؟
سیاست میں دلچسپی تھی ‘ اب بھی ہے ‘ لیکن یہ ایم پی اے والا کام راس نہ آیا۔ استعفیٰ دے مارا اورپنجاب اسمبلی سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ والد صاحب 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے ممبر تھے ‘لہٰذادل میں یہ خواہش بھی تھی کہ اُس اسمبلی کو اندر سے دیکھنا چاہیے۔ لیکن جب دیکھ لیا تو دل بھر گیا۔ کچھ سال بعد قومی اسمبلی میں آگئے لیکن یہ دو کشتیوں والی سواری پسندنہ آئی ۔ بطور ایم این اے کالم نویسی نہ چھوڑی اوراسی وجہ سے اکثر اپنے کالموں میں اپنی ہی پارٹی کو آڑے ہاتھ لے لیتے۔ جس کی وجہ سے ظاہرہے پارٹی قیادت کے دلوں میں اتنی مقبولیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی ۔
سیاست میں ہر چیز بعد میں آتی ہے ۔ پہلی شرط قیادت کے ساتھ وفاداری ہے ۔ یہ اصول کم ازکم پاکستانی سیاست میں اہمیت رکھتاہے۔ لیکن ہر ہفتے آپ اپنی پارٹی کے ہی خلاف کالموں میں کچھ لکھیں تو اُسے اچھا تو نہیں سمجھا جائے گا۔ بہرحال وہ وقت بھی گیا اوراب خیال دل میں پختہ ہوچکاہے کہ تمام مزے لے لیے لیکن دوکشتیوں کی سواری سے اجتناب ہی بہترہے ۔ ایسے کئی لوگ ہیں جن میں یہ ہنر موجود ہے کہ اول لائن کے صحافی ہوں اورپھر اول لائن کے سیاستدان یا سفارتکار بن جائیں۔ لیکن اپنے میں یہ ہنر بالکل ہی نہیں۔ جو اول لائن سیاستدان بننے کیلئے زبان ولہجہ ضروری ہے وہ فن اپنے پاس نہیں۔ یہ بات فخریہ نہیں کہہ رہا بس بیان کررہاہوں۔ آدمی کرے وہ جس کی اُسے مکمل مہارت ہو۔ کچھ عشق کیا کچھ کام کیا والی بات میں نہیں پڑنا چاہیے۔
گوروڈال (Gore Vidal)بہت نامور امریکی لکھاری رہا ہے۔ اُس کا دادا امریکی سینیٹر تھا ‘ اس لئے گوروڈال کو بھی سیاست کی کچھ نہ کچھ لت لگی ہوئی تھی ۔ ایک دوبار کانگریس کیلئے الیکشن لڑا لیکن ہر بار ہارا۔ وجہ ٔشہرت اُس کی اُس کا لکھنا تھا۔گلینڈا جیکسن (Glenda Jackson)بہت نامور برطانوی ایکٹریس ہیں۔ عمر اب80سے زیادہ ہوچکی ہے لیکن ایک دو سال پہلے ہی انہوں نے شیکسپیئر کا کردار کنگ لیئر (King Lear)پرفارم کیا(جی ہاں ‘ بطور خاتون انہوں نے یہ مردانہ کردار ادا کیا) اوراُن کی پرفارمنس کو بہت سراہا گیا۔جب ٹونی بلیئر برطانوی وزیراعظم تھے اُس زمانے میں گلینڈا جیکسن کو کچھ سوجھی اوروہ برطانوی پارلیمنٹ میں لیبر پارٹی کے ٹکٹ پہ منتخب ہوئیں۔ لیکن سیاست میں وہ نام نہ کماسکیں جو بطور ایکٹر اُ ن کا تھا۔ ہندوستان میں ایم جے اکبر نے بطور صحافی بہت شہرت پائی لیکن سیاست میں آئے اوروہ بھی بی جے پی کے ممبر کے طور پہ اور اُن کی شہرت بس درمیانی قسم کی رہی ۔ یعنی جس کام کا آدمی ہو وہی اُسے ساجے۔