ایک صاحب ہیں اکرم اشرف گوندل جو محکمہ ایکسائز کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ وہ اِس وقت نیب کی تحویل میں ہیں اس الزام پہ کہ انہوں نے قواعدوضوابط سے ہٹ کے لاہور میں ایک زیر تعمیر ہوٹل کو مخصوص پرمٹ جاری کیا۔ پرمٹ کس چیز کا تھا وہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ جیسا کہ مولانا فضل الرحمن کئی چیزوں کانام گھما پھرا کر 'نِکے کا ابا‘ کہہ دیتے ہیں ایسے ہی مخصوص اشیاء ہیں جن کا آج کل کے حالات میں ڈائریکٹ نام لینا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اسی لیے جہاں سیاسی لغت میں مختلف اداروں کا ڈھکے چھپے انداز سے ذکر کیاجاتا ہے مخصوص اشیاء کا نام کبھی اُم الخبائث یاکسی اور پردہ نشینی کا استعمال کرتے ہوئے لیاجاتا ہے۔
تمہید کچھ لمبی ہوگئی لیکن ضروری تھی۔ گوندل صاحب کا مؤقف ہے کہ مجھ پہ اوپر سے دباؤ تھاکہ پرمٹ جاری کیا جائے۔ لکھت پڑھت میں البتہ کچھ سامنے نہیں ہے۔ کسی نے ان کو تحریری حکمنامہ پرمٹ کے بارے میں نہیں دیا۔ گوندل صاحب کا یہ مؤقف ہے کہ اُنہیں جو کچھ کہا گیا‘ زبانی تھا۔ یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ جیسے ہمارے مرحوم دوست اردشیر کائوس جی اکثر کہا کرتے تھے‘ چورکوئی رسید چھوڑ کے نہیں جاتا۔ اسی طرح حکم چلانے والے نشانیاں نہیں چھوڑتے۔
مذکورہ ہوٹل ایک معروف کاروباری گروپ کا ہے اور اُن کا استدلال ہے کہ پرمٹ حاصل کرنے کیلئے انہیں بھاری رشوت دینا پڑی۔ اس ضمن میں ایک پولیس افسر کا بھی نام لیا جارہا ہے‘ جن کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کا تعلق بڑے اوپر تک ہیں؛ البتہ یہ بات سامنے نہیں آئی کہ رشوت کا کچھ حصہ یا ساری کی ساری رقم کا فائدہ گوندل صاحب کو ہوا۔ اُن سے پوچھا جارہا ہے کہ جب کچھ تحریری چیز تمہارے پاس نہیں تھی تو تمہیں کیا پڑی تھی کہ پرمٹ جاری کردیا۔ نیب انکوائری چل رہی ہے اور کوئی کہہ نہیں سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کسی نہ کسی حوالے سے صوبے کے منصب دار کا نام بھی اس قضیے میں آیا ہے اور ایک دوبار انہیں نیب دفتر لاہور حاضری بھی دینا پڑی ہے۔
قانونی موشگافیاں جو بھی ہوں ہماری ناقص سمجھ میں تو یہ بات آتی ہے کہ ایک سادہ سی بات کا ایسا بتنگڑ صرف پنجاب میں بن سکتا تھا۔ سندھ میں ایسا معاملہ ہوتا تو بات ہرگز یہاں تک نہ پہنچتی۔ بڑے ہوٹلوں کا کاروبار ایسے پرمٹوں کے بغیر چلتا نہیں۔ ہم نیک اور پاکدامن ہوں گے لیکن باہر سے جو لوگ ان ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں اُن کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں۔ یا تو ہم کہیں کہ باہر سے کوئی نہ آئے لیکن باہر کے پیسے اور تجارت ہماری ضرورت بھی ہیں، ان کے بغیر گزارہ نہیں۔ ایسی صورتحال میں جو باہر سے لوگ آئیں اُن کا خیال رکھنا پڑتا ہے‘ نہیں تو انہیں کیا پڑی ہے کہ پوری دنیا چھوڑ کے وہ خوار ہونے کیلئے سرزمین پاک پہ قدم رکھیں؟ سندھ میں کوئی زیر تعمیر بڑا ہوٹل پرمٹ کی درخواست دیتا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اُس کی انتظامیہ کو باآسانی ایسی اجازت مل جاتی۔ پنجاب کا کمال ہے کہ ہوتا تو یہاں سب کچھ ہے لیکن ظاہراً لگتا ہے کہ پاکدامنی کا ٹھیکہ صوبے نے لیا ہواہے۔ مال بنانے میں پنجاب کا افسر، سرمایہ دار اور سیاستدان کسی سے پیچھے نہیں‘ لیکن دکھاوے میں پنجاب سب سے آگے ہے۔
ویسے بھی اشیائے ممنوعہ کے حوالے سے سندھ کا ماحول پنجاب سے یکسر مختلف ہے۔ متعدد بار اس کا ذکر ہوچکا ہے کہ 1990ء میں جام صادق علی سندھ کے وزیراعلیٰ بنے تو اس حوالے سے جن پرمٹوں کا اجرا ہوسکتا تھا انہوں نے کردیا۔ نہ صرف کراچی بلکہ اندرون سندھ کے بیشتر شہروں میں ان مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا جو پنجاب میں معمول بن چکی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ایک ہی ملک کے دو صوبے ہیں لیکن متعدد چیزوں میں کلچر اور اپروچ بالکل مختلف ہیں۔
ایک بات تو یہ ہے کہ جام صادق علی جیسا وزیراعلیٰ پنجاب میں آ ہی نہیں سکتا۔ ڈھونڈے سے بھی آپ کو ایسا شخص نہیں ملے گا۔ ہم پنجابی احتیاط کے مارے لوگ ہیں اور احتیاط کے دائرے سے باہر نہیں جاتے سوائے مال بنانے کی ہیراپھیریوں کے حوالے سے۔ کم تولیں گے، دام زیادہ لیں گے، جہاں ملاوٹ ممکن ہو ضرور کریں گے لیکن ظاہری طور پر اپنی چادر جھاڑ کے رکھیں گے۔ ایک لمحے کے لئے فرض کیجیے کہ جام صادق علی جیسا کوئی آدمی مسندِ لاہور پہ بیٹھتا ہے اور وہ کچھ کرنے کا ارادہ رکھے جو جام صادق نے سندھ میں کیا۔ یقین ہونا چاہیے کہ فوراً ہی ایک قدیم اعلیٰ تعلیمی ادارے کے مخصوص عناصر‘ جو اپنے گھڑے ہوئے نیک مقاصد کیلئے ڈنڈے کا استعمال ضروری سمجھتے ہیں‘ ہنگامہ آرائی پہ اترآئیں گے اور اُن کے شور میں تمام وہ جو وقت بے وقت نظریے کا راگ الاپتے ہیں‘ شامل ہوجائیں گے۔ ایسا ہنگامہ لاہور میں کھڑا ہو کہ صوبائی انتظامیہ کے قابو سے باہر ہوجائے۔
یہ مخصوص مزاج ہے ہمارے پنجاب کا۔ اس دھرتی کے کھلے میدانوں اور دریاؤں کو دیکھا جائے تو خیال اُٹھتا ہے کہ یہاں تو کسی قسم کی تنگ نظری کی گنجائش نہیں ہوگی۔ وارث شاہ کی ہیر پڑھیں، بلھے شاہ کے کلام کو سنیں تو ایسا خیال زیادہ گہرا ہوجاتا ہے۔ بڑے غلام علی خاں پنجاب کے، کندن لعل سہگل یہاں کے، محمد رفیع اور نورجہاں کی آوازیں یہاں کی۔ لیکن تنگ نظری اور رجعت پسندی بھی اسی سرزمین کی نشانیاں ہیں۔ یہ عجیب تضاد ہے جس کا اثر پورے پاکستان پہ پڑتا ہے۔ پنجاب پاکستان کا صرف ایک حصہ نہیں‘ اپنے وسائل اور آبادی کے اعتبار سے اس ملک کا سب سے نمایاں حصہ ہے۔ بہت حد تک پاکستان کی سوچ پنجاب کی سوچ ہے۔ نظریہ پاکستان کے معنی کیا ہیں، کشمیر پہ پاکستان کا مؤقف کیا ہونا چاہیے، بھارت کیساتھ کیسے تعلقات استوار ہوں، ان بنیادی موضوعات پہ پاکستان کی وہ سوچ بنتی ہے جو پنجاب کی سوچ ہے‘ اور اگر دقیانوسی اور تنگ نظری کے اجزا پنجاب کی سوچ میں آئیں تو اُس کا اثر قومی طرزِ فکر پہ ضرور پڑتا ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ ہم اپنے خول سے نکلیں توپتا چلے کہ کن معاملات سے باقی دنیا نبرد آزماہے۔ کسی اور ملک میں یہ پتا چلے کہ ہوٹل کے ایک پرمٹ کا اتنا مسئلہ بنایا جارہا ہے تو ردِ عمل وہاں حیرانی کا ہوگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی توانائیاں ایسی باتوں میں صرف کرتے ہیں۔ مانا کہ رشوت دینا اور لینا برا فعل ہے اور ایسا فعل قانون کی زد میں آنا چاہیے لیکن ایسے معاملات میں رشوت کی نوبت کیوں آئے؟ ہماری پاکدامنی اپنی جگہ حالانکہ پاکدامنی کا ایسا ذکر ہو تو بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے لیکن اگر ہوٹل چلنے ہیں اور باہر کے لوگوں نے پاکستان آنا ہے تو یہاں کے رویے بدلنا ہوں گے۔ کتنی بار یہ کہنا پڑے گا کہ ہمارے ان رویوں کی وجہ سے یہ ایک نارمل ملک نہیں رہا۔ ہم نے معاشرے پہ نیکی کا ایک لبادہ اوڑھا رکھا ہے۔ اس لبادے کی وجہ سے معاشرہ نیک نہیں ہوا صرف عام لوگوں کی زندگیوں میں مزید مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
ہوائی جہاز پہ جائیں تو دلی لاہور سے 45 منٹ کے فاصلے پہ ہے۔ وہاں فائیو سٹار ہوٹل اتنے ہیں کہ گِنے نہیں جاتے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں معیار کے دو تین ہوٹل ہی ہیں۔ کراچی میں معیار کے پانچ چھ ہوٹل ہیں۔ کراچی میں تو یہ کیفیت نہیں لیکن لاہور کے ہوٹلوں کے ارد گرد دوپہر ہوتی ہے تو آس پاس کے تھانوں سے پولیس والے اپنی مرضی کے غیر رسمی ناکے لگا لیتے ہیں۔ کوئی بھٹکا ہوا راہی ان ہوٹلوں سے نکلے تو پولیس والے گھیر لیتے ہیں۔ یہ کوئی طریقہ ہے کام چلانے کا؟