تاریخ پاکستان گواہ ہے کہ جب بھی اپنے کام سے کام نہ رکھا اور سیاست میں ہاتھ ڈالنے کے شوق سے گریز نہ ہو سکا تو گند ہی گُھلا۔ سمجھا جا رہا تھا کہ نواز شریف کی برطرفی کے بعد سیاست کا ایک باب ختم ہو جائے گا لیکن اب جوہم دیکھ رہے ہیں باب ختم کیا ہونا تھا ایک نئی سیاست کا آغاز ہوچکا ہے۔
بات تب بنتی جب نوازشریف نے چپ کا روزہ رکھا ہوتا‘ لیکن اُن کی نازک صحت انہیں لندن کیا لے گئی کہ اب وہ اگلوں کے ایسے لَتے لے رہے ہیں کہ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں۔ نواز شریف ملک میں ہوتے تو اُن کی باتوں کا جواب دینا آسان ہوتا۔ ایک بار پھر کوٹ لکھپت جیل میں ڈال دئیے جاتے اوراُن کی بے بسی کا ماتم شرو ع ہوجاتا‘ لیکن اصلی بات ہی یہ ہے کہ نواز شریف یہاں کی قدغنوں کی گرفت سے آزاد ہوچکے ہیں اور جنہوں نے باہر بھیجا اب اپنا سر پکڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہم سے کیا بھول ہوگئی۔
نوازشریف تو جو کہہ رہے ہیں‘ سو کہہ رہے ہیں اُن لوگوں کی عقل کا معائنہ ہونا چاہیے جنہوں نے انہیں جانے دیا۔ ساتھ ہی داد دینی پڑتی ہے اُن دماغوں کو جنہوں نے بیماری کا ایسا ڈرامہ رچایا کہ اُس کی تاب نہ عمران خان لا سکے نہ اُن کے وہ معاونین جو پیچھے بیٹھ کے انہیں سیاست کا درس دینے کی کوشش کررہے ہیں‘ یہ جانے بغیر کہ اگراُن کا اپنا درسِ سیاست نامکمل اور ناقص ہے تو انہوں نے جنابِ عمران خان کو کیا سکھانا تھا۔
کوئٹہ کی تقریر سُنی جائے تو صاف پتا چلتاہے کہ میاں صاحب تمام پریشانیوں کے دریا عبور کرکے اب مزہ لینے لگے ہیں۔ جس انداز سے تقریرکررہے تھے اُس سے یہی تاثر ملتا ہے۔ ایک تو اُن کی یہ تقریریں، گوجرانوالہ سے لے کر کوئٹہ تک، بڑی عمدہ لکھی ہوئی ہیں۔ جو بھی لکھنے والا ہے داد کا مستحق بنتا ہے۔ پھر میاں صاحب کی ادائیگی بھی کمال کی ہو گئی ہے۔ عمران خان سے موازنہ کیا جائے تو اُن سے بہت آگے کے مقرر ہیں‘ اور جو موضوع ہے اُن کا اِن تقریروں میں اُس نے قومی زندگی میں ایک نئی بحث کا آغاز کردیاہے۔ جو چیزیں اب وہ ببانگ دہل کہہ رہے ہیں وہ لوگ ڈرائنگ روموں میں کہا کرتے تھے کیونکہ وہ لندن میں بیٹھے ہیں اور اُن تک کوئی ہاتھ پہنچ نہیں سکتا، اور یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ارادہ بھی کرلیا ہے کہ انہیں کسی چیز کی پروا نہیں؛ چنانچہ حساس ترین موضوعات پہ جو پردہ پڑا رہتا تھا اُسے یکسر چاک کردیا ہے۔
مخمصہ ہی یہ ہے کہ جن سے وہ مخاطب ہیں اور جن کانام لے لے کے ہلکے پھلکے میٹھے انداز سے تبرّے کَس رہے ہیں آگے سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہمارے ہاں تو ایسے مسائل کاحل اورطریقوں سے ہوتا ہے۔ حساس موضوعات پہ کوئی منہ کھولے تو یا اندر کردئیے جاتے ہیں یا آپ کے ساتھ کچھ اور قسم کی مشفقانہ فہمائش ہو جاتی ہے اور جلد ہی آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے‘ لیکن یہ سب کچھ تب ممکن ہوتاہے جب آپ دسترسِ تھانیداری میں ہوں۔ یہاں تو بات ہی اُلٹ ہوگئی ہے۔ میاں صاحب نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت کچھ کیا ہوگا۔ آخر کوئی انسان یونہی تین بار وزیراعظم اس مشکل ملک کا نہیں بن جاتا‘ لیکن جو ہوشیاری اس بیماری کے حوالے سے دکھائی گئی اور جو تاثر پیدا کیا گیا شاید میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی میں اِس سے بہترڈرامہ بازی نہ کی گئی ہو۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ریاستی تھانیداری سے بے نیاز لندن کی ہوا کے مزے لے رہے ہیں۔ اور جب تقریر کا موقع ملتا ہے ایسے نشتر چلاتے ہیں کہ حیرانی اور پریشانی کی صفیں بچھ جاتی ہیں۔
میاں صاحب کی باتوں کا جواب پی ٹی آئی کے ایسے کریکٹر دے رہے ہیں‘ جنہیں لاہور کے سٹیج ڈراموں میں شاید کسی چھوٹے کردار کے قابل بھی نہ سمجھا جائے۔ میاں صاحب کی توپیں کہاں لگ رہی ہیں اور کیا کیا بارود استعمال ہو رہاہے اورجواباً وہ لوگ لگے ہوئے ہیں جن کے بارے میں انتہائی معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ خود کامیڈین لگتے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے جو سختی کی پالیسی اپنائی وہ ناکام ہوچکی ہے۔ نون لیگی قیادت پہ جو مقدمات بن سکتے تھے وہ بنائے گئے۔ اتنی لمبی فہرست نہیں‘ لیکن پھر بھی قیادت کا ایک گروہ ہے جو جیلوں کے اندر باہر جاچکاہے؛ تاہم نہ جماعت ٹوٹی ہے نہ ہی میاں صاحب تائب ہوئے ہیں۔ اور اب تو انہوں نے تمام تر احتیاط کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اُن کے ساتھ جوہونا تھا ہو چکا۔ ریاستی تھانیداری کے دائرے میں رہتے تو اور بات تھی لیکن کمال کی حکمت عملی دکھاتے ہوئے اُس دائرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ مزید اُن کے ساتھ کیا کیا جاسکتا ہے۔ اب تو صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ مریم نواز کو دوبارہ پابندِ سلاسل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ایسے کسی اقدام پہ واویلا ایسا مچے گاکہ حکومت کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ کیپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری نے جو سماں پیدا کیا وہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ پوری زندگی میں کیپٹن (ر) صفدر نے وہ شہرت نہ پائی ہوگی جو اس حادثے کے بعد اُن کے نصیب میں آئی۔ یہ بھی عمران خان حکومت اور اِ ن کے معاونین کاکارنامہ ہے کہ انہوں نے اس واقعے پہ باقاعدہ تماشا کھڑا کردیا۔ مریم نواز کو وہ کیسے پکڑ میں لائیں گے؟
کہنے کا مطلب یہ کہ جو ریاستی بندوبست پچھلے الیکشنوں کے بعد معرضِ وجود میں آیا وہ ناکام ہونے کا تاثر دے رہا ہے۔ کام کچھ چل نہیں رہا، چیزیں ہو نہیں رہیں۔ معاشی صورتحال اور مہنگائی نے جو تباہی پھیلا رکھی ہے وہ ہمارے سامنے ہے‘ لیکن معیشت سے ہٹ کے سیاسی محاذ بھی موجودہ لوگوں سے ہینڈل نہیں ہو پا رہا۔ پرانے سیاستدانوں نے ختم کیا ہونا تھا انہوں نے مزید جان پکڑلی ہے۔ ایک سال پہلے کون یہ کہہ سکتا تھاکہ مولانا فضل الرحمن سیاسی اُفق پہ اس طور سے نمودار ہونگے۔ نون لیگ اور پی پی پی نے بیچارگی کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اب دونوں جماعتیں نئے انداز میں سامنے آرہی ہیں اور اُن کی نئی پود بھی سامنے آچکی ہے۔ بلاول زرداری ایک میچور سیاست دان لگنے لگا ہے اور مریم نواز نے اپنا سکہ جما لیا ہے کہ والد کے بعد نون لیگ کی وہی لیڈر ہوں گی۔ یہ سب عمران خان اور اُن کے معاونین کی مہربانیوں کی وجہ سے ہے۔ اُن کی سیاسی اور معاشی حکمت عملی اتنی غیر مستحکم اور ناپائیدار نہ ہوتی تو اس تھوڑے سے عرصے میں ایسی تبدیلیاں کہاں سے آنا تھیں۔
لیکن سب سے بڑی بات تو معاونینِ بندوبست کے حوالے سے ہے۔ وہ جو سمجھے بیٹھے تھے کہ ہر چیز اُن کے ہاتھ میں ہے اُن کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ لوگ بات کرتے تھے تو دَبے انداز سے۔ نوازشریف تو پچھلا سارا حساب چکا رہے ہیں‘ اور جیسے اوپر عرض کیا احتیاط کے دامن سے اُنہوں نے ہاتھ اُٹھا لیا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ ہماری ریاست میں جو سب سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں وہ ساتھ ہی ساتھ سب سے حساس ہوتے ہیں۔ ذرا سی تنقید برداشت نہیں کر سکتے۔ نوازشریف جو کررہے ہیں وہ تنقید تھوڑی ہے، وہ تو کہیں اُس سے زیادہ خطرناک ہے۔ بڑے عہدوں پہ جب کوئی موضوع سخن بن جائے تو یوں سمجھیے آدھا رعب و دبدبہ چلا جاتا ہے۔
یہی کچھ یہاں شروع ہو چکا ہے اور یہ جلد ختم ہونے والا نہیں۔ جب تک حالات بدلیں گے نہیں میاں صاحب نے واپس نہیں آنا۔ مطلب یہ کہ اپنے آسودہ مسکن میں بیٹھ کے پریشانیاں بکھیرتے رہیں گے۔