ہمارے ہاں یہ کیا رَٹ لگی رہتی ہے کہ فلاں کام نہیں کرنے دیتے، مافیاز راستے میں کھڑے ہیں اور وہ کچھ نہیں کرنے دیتے۔ پاکستان میں حکمرانی آئین نہیں بلکہ طاقت کے زور پہ چلتی ہے۔ ہمت ہو اور مسائل کا کچھ ادراک تو حکمرانی کے زور پہ بہت کچھ کیا جاسکتا ہے‘ لیکن ذہن میں کچھ آئیڈیاز نہ ہوں اوراپنے سائے سے بھی آپ ڈرتے رہیں تو پھر وہی ہوتاہے جو پاکستان میں ہورہا ہے۔ ہر طرف افراتفری مچی ہوئی ہے، کہیں حکومتِ پاکستان پہ جرمانے ہورہے ہیں، کہیں پی آئی اے کا جہاز قانونی گرفت میں آرہا ہے اورکہیں دارالحکومت کے واحد بڑے ہسپتال کے ڈاکٹر اور عملے کے دیگر لوگ ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں، ہسپتال ویران ہے لیکن کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ایسی صورتحال کو انارکی کا نام نہیں دیا جا سکتالیکن بے عملی اور نکمّے پن کا یہ ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔
ایوب خان نے بیک جنبشِ قلم سیاسی لیڈروں کی ایک پوری کھیپ کو سیاست سے نکال باہر کیا تھا۔ ایبڈو کے قانون کے تحت دس سال کیلئے وہ سیاستدان نااہل ٹھہرے۔ فیصلہ غلط ہوگا، اُس پہ لاکھ تنقید کی جاسکتی ہے، لیکن ایوب خان نے جوچاہا وہ کردکھایا۔ بڑے سیاسی لیڈر فارغ ہوئے اور ایک نئی لائن سیاستدانوں کی سامنے آگئی۔ میں اس فیصلے کی تعریف نہیں کررہا صرف یہ بتانا مطلوب ہے کہ ہمارا جس قسم کا نظام ہے اُس میں حکمران بہت کچھ کرسکتے ہیں، اچھا اور بُرا دونوں۔ ایبڈو کا قانون اگر ایک بُرا اقدام تھا تو ایوب خان نے ایک اچھا کام بھی کیا۔ ہماری پوری تاریخ میں اگر عورتوں کے حق میں کوئی قانون بنا تو وہ فیملی لاز آرڈیننس 1963ء ہے۔ اِس قانون کے تحت طلاق کا ایک طریقہ متعین کیاگیا۔ طلاق دینے کے بعد تین مہینے انتظار کرنا پڑتا ہے جس میں سیکرٹری یونین کونسل کی طرف سے ثالثی کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ تین مہینے پورے ہونے کے بعد ہی طلاق مؤثر ہوتی ہے۔ شروع دن سے بیشتر مولوی صاحبان اِس قانون کے خلاف رہے ہیں۔ اُن کی نظر میں یہ اسلام کے منافی قانون ہے لیکن کسی حکمران کی ہمت نہیں ہوئی اِس قانون کو رَد کرنے کی۔ اگر چاہتے تو ایوب خان اور بھی بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن اُن کی سوچ محدود تھی۔ انہوں نے جو کچھ کیا سوچ کے اِس محدود دائرے میں کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو تو تھے ہی طوفانی قسم کے آدمی۔ اقتدار میں آتے ہی انہوں نے پے دَرپے اصلاحات نافذ کیں جس سے معاشرہ ہل کے رہ گیا۔ بڑی صنعتوں کی نیشنلائزیشن پہ جائز تنقید کی جاسکتی ہے لیکن اُن کی نظر میں جو درست اقدام تھا انہوں نے اُسے کیا۔ آتے ہی 313 بڑے افسروں کو نوکری سے نکال دیا۔ لسٹ بنی، اُس پہ دستخط ہوئے اور فوری عملدرآمد ہوگیا۔ ایوب خان کے وزیر خارجہ وہ خود رہے تھے لیکن اقتدار میں آتے ہی فارن سروس کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ ایک منصوبہ تیار ہوا جس کا نام تھا 'لیٹرل انٹری سکیم‘۔ اِس کے تحت جو بی اے پاس ہے، چاہے وہ سویلین ہے یا حاضر سروس فوجی افسر، وہ فارن سروس کی ملازمت کیلئے درخواست دے سکتاہے۔ ایک جزوی سے امتحان کے بعد سلیکشن ہو گئی اور یہ لوگ فارن سروس میں آ گئے (اِن خوش نصیبوں میں میں بھی ایک تھا)۔ جس کسی کی اچھی سفارش تھی وہ اس سلیکشن کیلئے اہل ٹھہرا۔ مقصد بھٹو صاحب کا یہ تھا کہ فارن سروس کے بابوؤں کو کچھ جھنجھوڑا جائے۔ اس میں وہ کامیاب ہوئے۔
جنرل یحییٰ خان نے آتے ہی تقریباً 1300 افسروں کی چھٹی کردی۔ اِن میں بہت سے بڑے پھَنے خان کے قسم کے افسر بھی تھے لیکن مارشل لاء کی طاقت کے سامنے اُن کے منہ سے ذرا سی آواز بھی نہ نکلی۔ اُس وقت ایک بڑا سیاسی مسئلہ ون یونٹ کاتھا۔ 1956ء کے آئین کے تحت مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کوایک صوبے میں ضم کردیا گیا اوراُس کا نام مغربی پاکستان رکھا گیا‘ یعنی چاروں صوبوں کا ون یونٹ بن گیا۔ اُس زمانے کی حزب مخالف جماعتوں کا پُرزور مطالبہ تھاکہ ون یونٹ توڑا جائے۔ یحییٰ خان کے ایک فرمان سے ون یونٹ کو توڑ دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پہ عام انتخابات کبھی نہ ہوئے تھے۔ یحییٰ خان نے اعلان کیا کہ آئندہ الیکشن جب بھی ہوں گے بالغ رائے دہی کی بنیاد پہ ہوں گے۔ اِن فیصلوں کیلئے کوئی قانون ساز اسمبلی نہ بیٹھی، یحییٰ خان اور اُن کے ساتھی جرنیلوں نے یہ فیصلے کیے؛ البتہ انہی لوگوں کا بڑا سیاسی بلنڈر تھاکہ جب عام انتخابات کا اعلان کیا تو الیکشن مہم کیلئے نو ماہ کا وقفہ دیا جو بعد میں نوماہ سے ایک سال ہوگیا۔ اس طوالت کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ زیر زمین لاوہ بہت پک چکاتھا اورایک سال پہ محیط الیکشن مہم کا مطلب یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو پورا پورا موقع ملا کہ وہ اپنا اپنا باغیانہ پیغام ہر کونے پھیلا سکیں۔ نتیجہ بھیانک نکلا۔ کنٹرولڈ جمہوریت کی اصطلاح جنرل ضیاء الحق کے دور میں عام ہوئی لیکن یحییٰ خان تب کی جمہوریت کو کچھ کنٹرول میں رکھتے تو اِس میں اُن کا بھی بھلا تھا اورقوم کا بھی ۔ 1970ء کے انتخابات کے نتائج ایسے نکلے کہ اُن پہ پھر کوئی قابو نہ پاسکا اوروطن دولخت ہوگیا۔ اندراگاندھی نے بھی اپنی چھری چلائی لیکن وہ بعد کی بات ہے۔ بحران کی تشکیل ہمارے ہاتھوں سے ہوئی۔ ہندوستانی قیادت نے موقع کا فائدہ اٹھایا۔
بات بہرحال ہورہی ہے کچھ کرنے کی صلاحیت کی۔ 2014ء کے وسط تک ہمارے حالات بہت خرا ب ہو چکے تھے۔ قبائلی علاقوں کا بیشتر حصہ ملکی کنٹرول سے باہر جاچکا تھا۔ عملاً وہاں رٹ یا راج تحریک طالبان پاکستان کاتھا۔ انہی کاحکم چلتا تھا۔ کراچی میں راج ایم کیو ایم کاتھا۔ وہ جو چاہیں کرسکتے تھے۔ ڈرل مشینوں کا وہ استعمال ہوا کہ شاید ڈرل مشینوں کے موجدوں کے تصور میں کبھی نہ ہو گا۔ بوریوں کا وہ استعمال ہوا جو کم ازکم غلہ منڈیوں میں نہیں ہوتا۔ مجبوری کی حالت میں ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کرنا پڑا اور پھر کراچی میں بھی ایک بھرپور انداز سے آپریشن شروع کیاگیا۔ یہ دونوں اقدام مشکل لگتے تھے لیکن شروع کیے گئے اور اِس میں پاکستانی ریاست کو کامیابی بھی حاصل ہوئی۔
کہنے کا مطلب فقط یہ کہ بہت حوالوں سے یہ نالائق ریاست ہوگی لیکن کمزور ریاست ہرگز نہیں۔ کچھ کرنا چاہے تو کرسکتی ہے بشرطیکہ سوچ اوردماغ یکسوہوں۔ معمرقذافی ایٹم بم نہ بناسکے۔ ایران کے وسائل ہم سے زیادہ ہیں۔ عرصے سے اُن کا ایٹمی پروگرام چل رہاہے لیکن ایٹم بم نہیں بنا سکے۔ ہم نسبتاً بے وسیلہ لوگ، وسائل کی کمی، دیگر بہت سی کمزوریاں لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی میں یہ فیصلہ ہواکہ ایٹم بم ہمیں بنانا ہے تو ہزاروں مشکلات کے باوجود ہم نے ایٹم بم بنالیا۔ یہ اور بات ہے کہ جہاں ایٹم بم بنالیا‘ وہاں بہت سے سادہ کام ہماری دسترس سے باہر لگتے ہیں۔ شہروں کی صفائی ہم خود کر نہیں سکتے۔ کسی شہر کی صفائی کا ٹھیکہ ترکی کمپنیوں کو دیاہوا ہے۔ کراچی کی صفائی کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کے پاس ہے‘ لیکن بات وہی ہے کہ کچھ کرناچاہیں تو کرسکتے ہیں۔ ہاؤسنگ سکیموں کیلئے زمینیں خالی کرانا پڑیں تو پھر کوئی مشکل راستے میں آتی ہے؟
عمران خان چاہیں تو طاقتور حکمران بن سکتے تھے۔ ادارے اُن کے ساتھ، اپوزیشن جماعتیں ستائی ہوئی اور کرپشن کی داستانوں سے داغدار۔ لیکن جہاں سوچ اور ہمت کی کمی ہو وہاں چھوٹی چیزیں بھی مشکل ہوجاتی ہیں۔ یہاں مسئلہ اپوزیشن کے احتجاج یا ریلیوں کا نہیں حکومت کے ذہنی انتشار اورکمزور ارادے کا ہے۔ اِس کا علاج شاید حکیم لقمان کے پاس بھی نہ ہو۔