یہاں سرکاری زبان والا عجیب مسئلہ ہے۔ انگریزی کو دفتری زبان بنا کہ ہم نے حاصل کیا کیا ہے؟ یا حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ تمام سرکاری محکموں میں خط و کتابت انگریزی میں ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ہر ایک کی انگریزی زبان میں اتنی روانی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی چونکہ دستور ہے تو انگریزی کے ساتھ کشتی کرنا پڑتی ہے۔ نتیجہ اکثر مضحکہ خیز نکلتا ہے لیکن سترسال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور ہم پھر بھی بحیثیت دفتری زبان انگریزی سے چمٹے ہوئے ہیں۔
عدالتی فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے تو سہی کہ کس بنا پہ؟ چونکہ مسئلہ عدالتوں سے ہے تو احتیاط سے کام لینا لازم بن جاتا ہے لیکن اتنا کہنے کی اجازت ہونی چاہئے کہ نچلی سطحوں پہ عدالتی فیصلے تحریرکراتے ہوئے اچھا خاصا زور لگانا پڑتا ہے۔ اردو میں فیصلے اگر لکھے جائیں تو آسانی جج صاحبان اور عوام دونوں کیلئے۔ تمام وکلاء صاحبان اتنے بڑے انگریزی دان نہیں۔ اکثر بس گزارہ ہی کرتے ہیں۔ بحث ہو رہی ہو اور انگریزی کا واجبی سہارا لیا جا رہا ہوتو مؤکلین کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ گھر واپس آکے وہ صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا وکیل بڑا بولا تھا۔ اور کہیں بھی کیا‘ کیونکہ جب انگریزی کے سطحی جملوں کا تبادلہ ہو رہا ہو تو بات مؤکلین کے سر سے اوپر ہی گزرتی ہے۔ میں تو یہاں تک کہوں گاکہ بڑی عدالتوں کے فیصلے بھی اردو میں ڈکٹیٹ اور لکھے جائیں تو آسانیاں سب کیلئے ہوں گی۔ کم از کم ہمیں اتنا سوال تو کرنا چاہئے کہ عدالتی فیصلوں کے انگریزی میں ہونے سے قوم کی کونسی بہتری پیدا ہوئی ہے؟
کچھ اندازہ تو لگائیے کہ پولیس کانسٹیبل کو شوکاز نوٹس ملتا ہے تو انگریزی میں۔ تھانیداروں کی تحریری بازپرس ہو تو کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے۔ ڈی پی او اور آر پی او صاحبان حکم صادر کرتے ہیں تو انگریزی میں۔ یہ کتنی مضحکہ خیز صورت حال ہے۔ شوکاز نوٹس کا جواب دینا ہوتو کانسٹیبلان اور تھانیدار صاحبان کو پیسے دے کے جواب لکھوانے پڑتے ہیں۔ یہ سارا انگریزی پہ انحصار سمجھ سے بالاتر ہے۔ زبان وہ ہونی چاہئے جو لوگ سمجھیں، جو عام آدمی سمجھے۔ انگریز دور کی اپنی مجبوریاں تھیں۔ وہ دور گزر چکا ہے۔ روزمرہ کے کاموں کیلئے دفتری زبان اردو ہونی چاہئے۔ ایک تو ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے قوم کی جان بچ جائے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کی سمجھ میں تو آئے کہ ان سے کہا کیا جا رہا ہے۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ موٹروے پہ بیشتر سائن انگریزی میں ہیں‘ Better late than never اور اس قسم کی دیگر ہدایات۔ پہلے اس امر کو تو یقینی بنا لینا چاہئے کہ بسوں، ٹرکوں اور ویگنوں کے ڈرائیور حضرات انگریزی میں لکھی ہوئی ہدایات سمجھتے ہوں گے۔
سی ایس ایس کے امتحانات انگریزی میں ہوتے ہیں۔ کس وجہ سے؟ جو انگریزی کے ان جھمیلوں میں پڑتے ہیں کیا وہ زیادہ فرض شناس ہو جاتے ہیں؟ محنت و لگن ان میں زیادہ پیدا ہو جاتی ہے؟ نوکر شاہی کے حال سے ہم واقف ہیں۔ انگریزی میں سرکاری مراسلے لکھنے سے کسی کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟
یا تو یہ دلیل دی جائے کہ انگریزی میں یہ ساری کارروائیاں کرنے سے ہم ترقی یافتہ ہو گئے ہیں اور ہم چین، جاپان، جنوبی کوریا اور ان جیسے ممالک سے ترقی کی دوڑ میں آگے نکل چکے ہیں کیونکہ ہم نیم خواندہ انگریزی کی دولت سے آراستہ ہیں‘ پھر تو کوئی بات بنے۔ ہمارا اعزاز ہے کہ ان سارے ممالک سے ہم پیچھے ہیں لیکن نیم خواندہ انگریزی سے چمٹے ہوئے ہیں۔ پہلی جماعت کا طالب علم چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے‘ لیکن اس پہ ہم نیم خواندہ انگریزی کی ٹوپی پہنا دیتے ہیں۔ پڑھانے والے اساتذہ کو مشکل اور بچوں کو ایسی کنفیوژن میں ڈال دیا جاتا ہے جن سے ان کا سارا ذہنی ارتقاء ہمیشہ کے لئے متاثر ہو جاتا ہے۔ پہلی سے پانچویں جماعت تک تو ہر مضمون اپنی زبان یعنی اردو میں پڑھایا جانا چاہئے۔ چھٹی جماعت سے انگریزی کو بطور ایک مضمون شروع کیا جانا چاہئے۔ جرمنی، فرانس، سویڈن، ہالینڈ... ان سب ممالک میں یہی ہوتا ہے۔ ہر مضمون اپنی زبان میں اور ایک سٹیج پہ انگریزی بطور ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ ہماری نہ اردو ٹھیک نہ انگریزی اور اوپر سے کبھی ایک ناصح آتا ہے کبھی دوسرا کہ عربی بھی پڑھانی چاہئے۔ ایسی صورتحال قومی کنفیوژن کی مظہر ہے لیکن فیصلہ سازوں کو اِس کی قطعاً کوئی پروا نہیں کیونکہ ہمارا نظام تعلیم طبقاتی ہے، اوپر سطح والوں کیلئے انگریزی تعلیم اور عوام الناس کیلئے ایک ایسی کھچڑی جس میں کچھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی، کچھ اردو اور حسب توفیق عربی۔ کوئی تو مائی کا لعل ہوجو اس کنفیوژن کو ختم کر سکے‘ لیکن اوپر کے طبقات کویہ نظام سوٹ کرتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں انگریزی کا اولین مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں آگے نکلنے کیلئے ایک سیڑھی مہیا ہو جائے۔ ہمارے معاشرے میں اگر آپ انگریزی فرفر بول سکیں تو یوں سمجھئے کہ آپ بخشے گئے۔
یہ بالکل درست ہے کہ انگریزی کی اب ایک بین الاقوامی حیثیت ہے‘ لیکن آپ چھٹی جماعت سے ہر طالب علم کو انگریزی بطور مضمون پڑھائیں تو انگریزی کی جانکاری کیلئے یہ کافی ہے۔ ہمارے کچھ سکولوں نے البتہ ایک عجیب تماشا لگایا ہوا ہے۔ کبھی ان سکولوں میں جائیں تو سہی، بچوں کو اِس قسم کی انگریزی تعلیم دی جاتی ہے جس سے صحیح طور پہ ان کی ذہنی نشوونما نہیں ہو پاتی۔ کبھی کبھار مجھے چکوال کے ان پرائیویٹ سکولوں میں بطور مہمان بلایا جاتا ہے اور وہاں بچوں کی حالت دیکھ کے اور انہیں جس قسم کی نیم خواندہ انگریزی تعلیم دی جا رہی ہوتی ہے‘ وہ دیکھ کے میں شرما جاتا ہوں کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کر کیا رہے ہیں۔ بیچارے ٹیچر اور میڈیمیں جن کی خود انگریزی اتنی اعلیٰ نہیں ہوتی وہ انگریزی کی نرسری شاعری بچوں کو رٹوا رہے ہوتے ہیں۔ نہ انگریزی صحیح نہ اردو، نہ یہاں کے رہے نہ وہاں کے۔ یہ تماشا ہم نے اپنی قوم کے ساتھ لگایا ہوا ہے اور تہتر‘ چوہتر سال میں ایک حاکم ایسا نہیں آیا جس میں اتنی ہمت اور سوچ ہوکہ اس شرمناک صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس موضوع پہ جس سے بات کریں چھٹ جواب ملتا ہے کہ تربیت کیلئے انگریزی ضروری ہے۔ انگریزی کی افادیت سے کون انکار کرتا ہے لیکن پورے معاشرے کو Baba Black Sheep والی تعلیم دینے سے کونسی اعلیٰ تربیت ہو جاتی ہے۔ یہ جو ہمارے انگریزی سکول ہیں خاص طور پہ جن کے بڑے نام ہیں انہوں نے کتنے آئن سٹائن یا سائنسدان پیدا کئے ہیں؟ یہ او لیول اور اے لیول کے امتحانات‘ یہ بھی ایک شرمناک داستان ہے۔ ہندوستان میں انگریزی کا معیار ہم سے اونچا ہے لیکن ہندوستان میں او اور اے لیول کے امتحانات 1964ء میں ختم کئے گئے تھے‘ ہم نے اِن کو گلے سے لگایا ہوا ہے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ یہ امتحانات کر کے ہمارے اوپر والے طبقات کے بچوں کو امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں جانے کی آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ یا تو وہاں جا کے سائنسدان بن رہے ہوں پھر بھی کوئی بات ہے لیکن اکثر ہمارے طالب علم دوسرے درجے کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں‘ اس خواب کے ساتھ کہ اس کے بعد وہیں کہیں مقیم ہو جائیں گے۔ جس کسی سے بات کرو بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میرا بیٹا یا بیٹی باہر فلاں یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا امریکہ اور کینیڈا میں سیٹل ہو چکے ہیں۔ افسران اور بڑے لوگوں کی ساری کمائی پاکستان میں، صحیح طریقوں سے یا ہیرا پھیری سے پیسے سارے یہاں بنائے ہوئے، لیکن تڑپ باہر مقیم ہونے کی۔ نیم خواندہ انگریزی سے جان چھڑوانے کا وقت آ چکا ہے۔ اور کچھ نہیں تو دفتری زبان تو پلیز اردو کو کیجئے۔