اپنے آپ کو دلیر ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ من اتنا پاپی بھی نہیں جتنا کہ ہم کبھی آرزو رکھتے تھے۔ پاپی من تو تب ہوتا کہ ورثہ میں جو تھوڑی بہت جائیداد ملی تھی اس کا کچھ یا بیشتر حصہ بیچ دیا ہوتا اور لاہور میں مستقل قیام کا بندوبست کر لیتے۔ شامیں اُس علاقے میں گزرتیں جو کہ سردار ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب ہے‘ اور چکوال تبھی لوٹتے جب بیچی ہوئی جائیداد سے حاصل شدہ جمع پونجی خرچ ہو گئی ہوتی۔ جوانی میں ایسی کارروائیوں کیلئے کچھ ہمت درکار ہوتی ہے۔ ہم میں وہ ہمت کبھی نہ تھی۔ وارداتیں کون نہیں کرتا۔ چھوٹی موٹی وارداتوں سے پاک زندگی کوئی زندگی تو نہ ہوئی لہٰذا اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں تو ہم مارتے رہے ہیں لیکن وہ وارداتیں جن کا ذکر داستانوں میں ہوتا ہے‘ اُن کی ہمت ہمیں کبھی نہ ہوئی‘ لہٰذا جو کبھی کبھار کہہ دیتے ہیں کہ من پاپی ہے وہ غالباً دل بہلانے کا ایک طریقہ ہے۔ ہاں، آوارہ من ضرور رہا ہے لیکن پاپی من کا ایک اپنا مقام ہوتا ہے جو ہم سے کبھی حاصل نہ ہوا۔
اس آوارگی کے پیش نظر ہی ایک بڑے بخار سے نجات مل چکی ہے۔ اُس بخار کا تعلق قوم کے بارے میں غم سے تھا۔ اب ایسے تمام فضول خیالات اور تصورات دل سے نکال باہر کردیئے ہیں۔ جس کسی کو بچپن سے لے کر جوانی تک کتابوں کی بیماری لگی ہو اُس پہ ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ وہ قوم کا غم اپنے دل و دماغ پہ سوار کر لیتا ہے۔ بہت عرصے تک ہم بھی اِس بیماری میں مبتلا رہے کہ قوم کو یوں ہونا چاہئے اور فلاں فلاں انقلابی اقدام قوم کی بقا اور اُس کے روشن مستقبل کیلئے ضروری ہیں۔ بیماری کی شدت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1977ء کے پرہنگم دور میں ماسکو میں فارن سروس سے استعفا دے ڈالا تو ہم انقلاب کی تلاش میں پاکستان واپس لوٹے۔ کون سا گیا گزرا اور بوگس مارکسسٹ راہنما نہیں تھا جس کا درشن کرنے کی کوشش ہم نے نہ کی۔ اِس جستجو کی یاد اب دل میں تھوڑی سی شرمندگی کا سامان پیدا کرتی ہے البتہ یہ بھی شاید اقرار کرنا ضروری ہو کہ چونکہ زمانہ جوانی کا تھا اس کے بعد انقلاب کے ساتھ ساتھ دل میں عشق کی تمنا بھی اٹھتی رہی۔ انقلاب ڈھونڈے سے کہیں نہ ملا اور سچ تو یہ ہے کہ عشق کی راہوں پہ بھی ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔ فیض صاحب نے کیا کہا تھا، ''کچھ عشق کیا کچھ کام کیا... پھر آخر تنگ آ کر ہم نے دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا‘‘۔ ادھورا اُنہوں نے چھوڑا ہو گا لیکن کچھ کیا تو ضرور۔ ہم سے کچھ بھی نہ ہوا۔
بہرحال یہ بیتے وقتوں کی باتیں ہیں۔ انقلاب کی آرزو سے تو ہم پتا نہیں کب کے آزاد ہو گئے۔ آزاد اس مکمل طریقے سے ہوئے کہ 1997ء میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لئے نون لیگ کے ٹکٹ کے درخواست گزار ہو گئے۔ کبھی کبھی دل میں پرانے شعلے بھڑکتے ضرور تھے لیکن زیادہ دیر کیلئے نہیں۔ پھر آہستہ آہستہ سب کچھ بجھتا گیا اور اب مکمل آسودگی کی منزل پہ پہنچ چکے ہیں۔ اب تو کوئی شخص ملنے کو آئے اور نام نہاد ملکی مسائل کا ذکر چھیڑنے کی کوشش کرے تو جی چاہتا ہے کہ ہاتھ جوتے کی طرف جائے۔ ہٹلر کے ساتھی ہرمن گورنگ (Hermann Goering) کا کہنا تھا کہ میں کلچر کا لفظ سنتا ہوں تو میرا ہاتھ میرے پستول کی طرف جاتا ہے۔ ملکی مسائل کا ذکر چھڑتے ہی اب ہمارا ردِ عمل بھی کچھ ایسا بنتا جا رہا ہے۔ اب یقینِ کامل ہو چکا ہے کہ بحیثیت قوم ہم نے ایسا ہی رہنا ہے۔ تو پھر دل میں اتنے ارمان پالنے کی ضرورت کیا ہے؟ اپنا کماؤ اور اپنا کھاؤ۔ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ کسی کی محتاجی نہ ہو، نہ ہی کسی انسان کی اور نہ اپنی خواہشات کی۔ خواہشات بھی ایسی ہوں جن کو آپ بآسانی پورا کر سکیں۔ زیادہ تو نہیں لیکن کچھ دعوتیں باہر کی آتی ہیں کہ ٹکٹ بھیج دیں گے خرچہ ہمارے ذمہ ہو گا وزٹ پہ آ جائیں۔ جی نہیں چاہتا۔ اس لئے کہ اس نتیجے پہ پہنچ چکے ہیں کہ جو اطمینان چھجو کے چوبارے تلے ہے وہ کہیں اور نصیب نہ ہو سکے گا۔ اب تو بنکاک اور دبئی جانے پہ بھی دل راضی نہیں ہوتا۔ جس آرام سے لاہور کی سرائے کے کمرے میں بیٹھے ضروری اشیا دستیاب ہو جاتی ہیں‘ اس سے زیادہ انسان کیا خواہش رکھے۔ باہر کے مقامات کیوں نہ بہت دلکش ہوں لیکن بطور ٹورسٹ کچھ نہ کچھ خواری تو اٹھانا پڑتی ہے۔ اِس عمر میں اب خواری برداشت نہیں ہوتی۔ اب تو بین الاقوامی سفر اِس بیماری کے پیش نظر اتنا آسان نہیں رہا لیکن آسان ہوتا بھی تو اپنا انتخاب چھجو کا چوبارا ہی ہوتا۔
ایک بربادی ہم نے اپنی کر ڈالی ہے۔ پاکیزگی کے نعرے کے تحت ہم نے اپنے شہر تباہ کر دیئے ہیں۔ کراچی کیسا شہر ہوا کرتا تھا۔ جب فوج میں لیفٹین بھرتی ہوئے تو پہلی پوسٹنگ کراچی میں تھی۔ کیسے کیسے ہوٹل تب آباد تھے۔ شام ڈھلتے ہی اُن میں رونق کا سماں پیدا ہو جاتا۔ لیفٹین کی تنخواہ اُس زمانے میں 550 روپے تھی۔ اتنی رقم میں ہم کراچی کی رونقیں کہاں سمیٹ سکتے تھے۔ پیلس ہوٹل میں جانے کی ہمت ہی نہ ہوتی۔ میٹروپول میں جانے کی استطاعت بھی نہ تھی۔ ایک تفریح گاہ ایکسلسیئر (Excelsior) کے نام سے ہوتی تھی۔ ایک دو بار وہاں ہمت کرکے گئے لیکن جیب میں پیسے جلد ہی ختم ہو جاتے تھے۔ اب اُن پُر رونق جگہوں کے نشان تک مٹ چکے ہیں۔ کراچی کا سینٹر جہاں یہ سب جگہیں تھیں اب آسیب زدہ لگتا ہے جیسا کہ کوئی تاتاریوںکی فوج گزری ہو اور اُس نے سب کچھ تہ و بالا کر دیا ہو۔ لاہور کا حال اِس لحاظ سے کچھ بہتر ہے کہ وہاں سبزہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ درخت ہیں کچھ پھولوں کے نظارے‘ لیکن اِس شہر کی رنگینیاں جو ہوا کرتی تھیں‘ وہ ختم ہو چکی ہیں۔ اب سب کچھ اندرونِ خانہ چلا گیا ہے۔ منافقت کے دروازے ہیں اور جو بدمزہ رونقیں اب بھی زندہ ہیں وہ ان مقفل دروازوں کے پیچھے ہی پائی جاتی ہیں۔
کون ہم لوگوں کو بتائے کہ عباسیوں کا بغداد تب کی دنیا کا نیویارک تھا؟ علم اور حکمت کا گہوارہ تو تھا ہی لیکن اُس کی رنگینیاں بھی ایسی تھیں کہ دبئی اور بنکاک کی روشنیاں اُن کے سامنے ماند پڑ جائیں۔ تہذیب صرف مصنوعی اور سطحی پاکیزگی کا نام نہیں۔ اونچے سے اونچے فن سے لے کر گھٹیا قسم کی رونقوں تک کے ملاپ سے ہی ایک جیتی جاگتی تہذیب جنم لیتی ہے۔ علم و دانش ایک جاندار تہذیب کا اتنا ہی حصہ ہوتے ہیں جتنا کہ طبلے کی تھاپ یا گھنگھروئوں کی جھنکار۔ امریکہ کے سائنس دان آسمانوں کے راز ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں اور ساتھ ہی جب گرامی ایوارڈوں (Grammy Awards) کی تقریب منعقد ہوتی ہے تو امریکی ڈانسر اور گائیکہ بے اونسے (Beyonce) ایسا رقص کا مظاہرہ کرتی ہے کہ دنیا ہل کے رہ جاتی ہے۔ سائنس دان اپنا کام کرتے ہیں، بے اونسے (Beyonce) اپنے جلوے دکھاتی ہے۔ وہاں بھی زہد و تقویٰ کے پرچم اٹھانے والوں کی کوئی کمی نہیں لیکن وہ اپنی تقریریں ادا کرتے ہیں اور دوسرے اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔
امریکہ کا تو محاورتاً نام لیا، جو قومیں بھی زندگی کی دوڑ میں آگے ہیں اُن سب میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ جرم بھی ہوتے ہیں، کرپشن کی داستانیں بھی رقم ہوتی ہیں لیکن اور کام بھی چل رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو ایک بند گلی میں ڈال دیا ہے اور یہ احساس بھی نہیں کہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا ہے۔