بات سمجھنے کی ہے ‘یہ ملک فنکاروں کیلئے بنا ہے۔جتنا بڑا کوئی فنکار اتنی ہی اُس کی قسمت اچھی۔ سنجیدہ لوگ ویسے بھی کم ہیں اورجو اپنے آپ کو زیادہ ہی سنجیدہ لیتے ہیں وہ اپنے لئے عذاب اور دوسروں کیلئے بوجھ بنے رہتے ہیں۔ طارق بنوری صاحب اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے بیٹھے۔ فرض شناسی دکھانے کا اُن کو کچھ زیاد ہ ہی شوق تھا۔ کچھ ہم جیسوں سے پوچھ لیا ہوتا اور ہم نصیحت کرتے کہ حضور اپنے آپ کو اتنا سنجیدہ نہ لیں۔ کیا حاصل اس سے کہ ہر وقت دیانتداری کا ٹوکرا اپنے سرپہ اٹھائے پھریں؟
ایسے لوگ اپنے ہی دشمن ثابت ہوتے ہیں اور یہی کچھ طارق بنوری کے ساتھ ہوا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین بنائے گئے تھے تو کچھ اپنی صحت کا خیال رکھتے کچھ اوروں کا بھلا دیکھتے۔ یہاں تو ہر ایک کا دل کرتا ہے کہ یا تو وظیفے پہ لگا دیئے جائیں یا ہاتھ مارنے کاکھلا موقع ملتا رہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک ایسی بطخ ہے جو سونے کے انڈے دیتی ہے۔ ڈاکٹر بنوری کچھ اپنا خیال رکھتے کچھ یار دوستوں کا اور اگر ایسے کرتے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں قطعا ًکوئی نقصان نہ پہنچتا۔ اب یہ بھی کوئی بات ہے کہ وہ ڈاکٹر عطا الرحمن‘ جو کہ بڑے پہنچے ہوئے شخص ہیں‘ کے پیچھے پڑجائیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کے کئی ادارے ہیں جن کو عرصہ دراز سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے بھاری امداد مل رہی ہے۔ طارق بنوری نے اس کارروائی کی جانچ پڑتال کرنے کی کوشش کی کہ کچھ فائدہ بھی اس کام سے ہو رہا ہے یا یہ سارا کچھ فرضی جمع خرچ ہے۔ عقل کا پہلا اصول ہے کہ آپ دیکھیں کہ کس پہ ہاتھ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس ملک میں ایک لمبی فہرست ایسے اشخاص اور اداروں کی ہے جن پہ آپ ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ہاتھ ڈالنا تو دور کی بات ہے میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ایسے خوش بختوں کی لسٹ میں ڈاکٹر عطا الرحمن کا نام نمایاں ہے۔ وہ جو کہیں اُسے درست ماننا چاہئے۔ اگروہ کہیں کہ عالمی پائے کی یونیورسٹیاں بنائیں گے تو بغیر چوں چرا کے بات مان لینی چاہئے۔ اگر وہ کہیں اتنے ہزار کیمبرج اور آکسفورڈ لیول کے پی ایچ ڈی تیار کریں گے تو اُسے بھی صداقت مان لینا چاہئے۔یہ تو کوئی بات بنتی نہیں کہ ایسے معاملات میں آپ دیانتداری کا ٹھیکہ اٹھانے بیٹھ جائیں۔ اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ اپنا کام چلاؤ اور دوسروں کا بھی چلنے دو۔ ڈاکٹر طارق بنوری نے یہ اصول توڑا اور اُس کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ایک ہمارے اور سنجیدہ دوست ہیں ڈاکٹر پرویز ہودبھائی۔تعلیم کے معیار کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ برا نہ منائیں تو ایک بات کہوں کہ اُن کی حسِ مزاح نہایت کمزور ہے۔ جو انسان اپنے آپ کو اتنا سنجیدہ لے نہ خود ہنستا ہے نہ اوروں کو ہنسنے دیتا ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کی ایسی ہی کیفیت ہے۔ انہیں کس نے یہ سبق سکھایا ہے کہ تعلیم نام کی چیز کے بارے میں پاکستان میں کسی کو کوئی فکر ہے ؟ پتا نہیں وہ کب سے مضامین لکھ رہے ہیں کہ تعلیم کا معیار گر گیا ہے۔ نصاب کی کتابیں ٹھیک نہیں ہیں۔ ریشنل (rational) سوچ یہاں فروغ نہیں پاتی۔ جو ڈاکٹریٹ یا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ہماری یونیورسٹیاں جاری کرتی ہیں وہ ردی کے ٹوکرے میں پھینکنے کے قابل بھی نہیں۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ ایسی باتوں کا یہاں فائدہ کیا ہے؟وہ پرلے درجے کا احمق ہے جو یہ سمجھے کہ پاکستانی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کریٹیکل (critical) سوچ پیدا کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں صرف ایک کام آتی ہیں کہ وہ سرکاری نوکریوں کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔ یہاں آرزو یہی رہ گئی ہے کہ آپ کے ہاتھ میں ڈگری ہو اور آپ کو ایک وظیفے والی نوکری مل جائے جس میں بہرحال کوئی کام نہ کرنا پڑے۔ کریٹیکل سوچ یا ریسرچ جیسی چیزوں کا یہاں کس کو غم ؟ ا س تناظر میںتو کوئی تُک ہی نہیں بنتی کہ آپ ڈاکٹر عطا الرحمن جیسے اعلیٰ شخص کی جانچ پڑتال شروع کردیں جیسا کہ طارق بنوری کرنا چاہتے تھے۔ میں اگر ہائر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین لگ جاؤں تو پہلے تو اپنا اُلو سیدھا کروں اور پھر یار دوستوں کیلئے کچھ کروں۔ کچھ کی نوکریاں لگ جائیں ‘وظیفے مقرر ہو جائیں ‘ یاردوستوں کا بھلا ہو اور ہماری عاقبت بھی سنور جائے۔ پاکستان میں نوکری کا یہی مطلب ہے اور جو یہ بنیادی بات نہ سمجھ سکے وہ کسی اور کام کے لائق نہیں۔
وہ بھی پرلے درجے کے اناڑی ہیں جو وزیراعظم صاحب کو زیادہ سنجیدہ لیتے ہیں۔کہنے کی باتیں اور ہوتی ہیں اور کرنے کی اور۔ کہنے کی حد تک بالکل ٹھیک ہے کہ کرپشن ختم ہوگی اور کام میرٹ پہ ہوگا۔ یہ کہنے کی باتیں ہیں کرنے کی نہیں۔ اسی لئے کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ طارق بنوری کے خلاف ایکشن اوپر سے ہوا ہے یعنی فیصلہ پرائم منسٹر کا ہے۔ طارق بنوری کو ہٹانے کا طریقہ بھی ملاحظہ ہو۔اس مقصد کیلئے ایک باقاعدہ صدارتی آرڈیننس جاری ہوا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر عطا الرحمن کوئی عام آدمی نہیں۔ طارق بنوری کے خلاف انہوں نے احتجاج کیا تو فوری ایکشن ہوا۔ یہ ایکشن اس لئے بھی ضروری تھا کہ بنوری کو سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ معاملے کی نزاکت کو نہ سمجھ سکے۔
یہ سب کچھ ہو گیا تو رونے کی کوئی بات نہیں بنتی۔ نوکری پاکستان میں کر رہے ہیں توآپ پہ لازم بنتا ہے کہ یہاں کی نزاکتیں سمجھیں۔ اپنے آپ کو ڈاکٹر عطا الرحمن سے زیادہ بڑاچیمپئن سمجھ رہے ہیں پھر تو بات اورہے۔ لیکن کہاں ڈاکٹر عطا الرحمن اور کہاں آپ۔ ڈاکٹر عطا الرحمن جنرل مشرف کے مشیر خاص تھے اور تب سے کسی نہ کسی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ ڈاکٹر طارق بنوری کو چار سال کیلئے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن متعین کیا گیا۔ چپکے سے نوکری کرتے ‘ تنخواہ اور دیگر مراعات سمیٹتے اور چلتے چلتے ڈاکٹر عطا الرحمن کی عظمت کو بھی تسلیم کرتے۔ سب کچھ ٹھیک رہتا اور کوئی حادثہ رونما نہ ہوتا۔ یہ جو آ بیل مجھے مار والی کیفیت ہے یہ پاکستان میں فٹ نہیں ٹھہرتی۔ اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی چھتے میں ہاتھ نہ ڈالیں۔ایسے میں یاد آتا ہے کہ ہم سے بھی کوئی ڈھنگ کا کام نہ ہوا۔ ایک تو بہت پچھتاوا ہے کہ کام ہی غلط چنا۔ صحافت اگر کی تواُسے دیگر وارداتوں کا ذریعہ بنانا چاہئے تھا۔ صحافت کو استرے کے طور پہ استعمال کیا جائے توآپ خاصے لمبے ہاتھ مارسکتے ہیں۔ کاش یہ بات پہلے سمجھ آتی۔ اب تو وقت ہی بہت گزرچکا ہے۔
دوسرا پچھتاوا یہ رہے گا کہ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کیوں نہیں کیا۔ کہیں دفتر کھولتے ‘سٹاف اچھا رکھتے‘ خوش شکل ‘ خوش لباس اور خوش گفتار۔ ہم پتا نہیں کن راہوں میں بھٹکتے رہے اور اپنے پہ کون کون سے تصورات ہمیشہ سوار رکھے۔ اپنے معاشرے کی اصلیت اس عمر میں سمجھ آئی ہے۔ اب ہم سے کوئی مقالہ لکھوائے تو ہمیں بھی ایک عدد پی ایچ ڈی مل جائے۔ لیکن اب دیر ہوچکی اور پچھتاوے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔