"AYA" (space) message & send to 7575

کمزور معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے

حکومتیں بات بات پہ ڈرنے لگیں تو انہیں بخشا نہیں جاتا۔ بے جا ڈیمانڈیں ماننا پڑتی ہیں، اصولوں پہ کمپرومائز کرنا پڑتا ہے اور نتیجتاً ریاست نام کی چیز کہیں کی نہیں رہتی۔ حکومتوں کا یہ حال ہو تو انسانوں سے کیا گلہ۔ فیصل آباد کے حالیہ واقعہ میں انسانوں کی کمزوری نظر آتی ہے لیکن جب حکومت ہر بات پہ پھسل رہی ہو تو انسانوں کی کمزوری اتنی عجیب نہیں لگتی۔
فیصل آباد میں ہوا کیا ہے؟ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (DHQ) میں دو نرسوں کے خلاف گستاخانہ رویے کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ تفصیلات کچھ یوں ہیں۔ ڈی ایچ کیو میں ایک فاطمہ وارڈ ہے جس میں ایک مریضہ داخل تھی جس کا ذہنی توازن تھوڑا بگڑا ہوا تھا۔ یہ مریضہ سر کے درد کی شکایت کر رہی تھی اور وہاں موجود ایک نرس مریم لال‘ جو اتفاق سے کرسچیئن ہے‘ سے اُس نے کہا کہ سامنے دیوار پہ جو سٹکر لگا ہوا ہے اور جس پہ درود شریف درج ہے مجھے اتار دو۔ میں درود کو اپنے ماتھے اور سر پہ رکھنا چاہتی ہوں کہ شاید اِس سے میرے سر کے درد میں آرام آ جائے۔ خدا گواہ ہے یہ واقعہ یہاں سے شروع ہوا۔ مریضہ کا اصرار تھا کہ وہ سٹکر اسے دیا جائے۔ نرس مریم لال نے مریضہ کی حالت دیکھی تو وہاں موجود ایک جونیئر نرس، نیوش عروج جو کہ تھرڈ ایئر کی طالبہ بتائی جاتی ہے، سے کہا کہ مریضہ ضد کر رہی ہے تم سٹکر اتارو۔ نیوش نے پنسل لی اور سٹکر اتارنے لگی۔ جیسے چسپاں کاغذ کے ساتھ اکثر ہوتا ہے کچھ حصہ اتر گیا اور کچھ دیوار پہ چپکا رہا۔ اتنے میں نرس رخسانہ وارڈ میں آئی اور آتے ہی اُس نے مریم لال سے کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ رخسانہ کا مدعا تھا کہ سٹکر کیوں اتارا ہے۔ تھوڑی بہت توتکار ہوئی لیکن معاملہ وہاں ختم ہو گیا۔ یہ سب کچھ 8 اپریل کوئی ڈیڑھ دو بجے ہوا۔
اگلے روز صبح یعنی 9 اپریل کو اچانک سب کچھ بدل گیا۔ ہسپتال کے کچھ عملے نے احتجاج شروع کر دیا۔ نعرے بازی ہونے لگی اور یہ مطالبہ ہونے لگا کہ اُن دو کرسچیئن نرسوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ ماحول کشیدہ ہو گیا۔ پولیس کو اطلاع ہوئی‘ وہ وہاں پہنچ گئی۔ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ایک کمیٹی بنائی واقعہ کی انکوائری کرنے کے لئے۔ کمیٹی نے فوراً رپورٹ دی کہ مذکورہ سٹکر ''گستاخانہ نیت‘‘ سے ہٹایا گیا تھا۔ ڈپٹی ایم ایس ایڈمن ڈاکٹر مرزا محمد علی نے تھانہ سول لائن میں درخواست دی کہ سارا واقعہ ''گستاخانہ نیت‘‘ سے ہوا ہے، لہٰذا دونوں نرسوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
بڑی مشکل سے پولیس نے نرسوں کو ہسپتال سے نکالا اور تھانے پہنچایا۔ تب تک خبر شہر میں پھیل چکی تھی۔ کچھ لوگ تھانے میں آ گئے‘ مطالبہ کرنے لگے کہ گستاخی کی سزا موت ہے اور نرسیں اس سزا کی حق دار ہیں۔ 295B تعزیرات پاکستان کے تحت نرسوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے انہیں پیش کیا گیا اور وہاں سے بھاری نفری کی حفاظت میں جوڈیشل ریمانڈ پہ فیصل آباد جیل منتقل کر دیا گیا۔ جب درج شدہ ایف آئی آر مشتعل افراد کو دکھائی گئی تب اُن کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا قانون کہتا ہے کہ گستاخی کا ارتکاب ہو تو فلاں فلاں مقدمہ بنتا ہے جس کی فلاں فلاں سزا ہے۔ قانون کیا ہے‘ اس پہ بحث مقصود نہیں۔ تشویش کی بات البتہ اتنی ہے کہ ایسے واقعات اکثر بالکل اور نوعیت کے ہوتے ہیں‘ لیکن گستاخی کا الزام اتنی حساس نوعیت کا سمجھا جاتا ہے کہ جذبات غالب آ جاتے ہیں اور ٹھہراؤ میں بات کرنا صرف مشکل نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ پولیس کے ہاتھ پاؤں بھی بندھ جاتے ہیں۔ اپنے اوپر سے پریشر ہٹانے کے لئے مقدمہ فوری طور پہ درج کر لیا جاتا ہے۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا ماحول ہی نہیں رہتا۔ ماحول بالکل جذباتی ہو اُس وقت کس کی ہمت کہ پوچھے کہ جناب والا بتائیے تو سہی کہ گستاخی کس لحاظ سے ہوئی ہے الزام لگانے والا کون ہے اور کیا اِس بات کا اطمینان کر لیا گیا ہے کہ الزام علیہ کی نیت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو تو افراد یا تو جذبات میں بہہ جاتے ہیں یا ڈر کی وجہ سے کچھ کہنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
آپ گستاخی کے تمام مقدمات کی فہرست نکال لیجئے۔ سارے نہیں تو زیادہ تر اِن مقدمات میں ایسے لوگ پھنستے ہیں جن کو معاشرے کے غریب ترین اور مجبور ترین افراد میں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کس کس کا نام لیں۔ کچھ سال پہلے اسلام آباد کے نواح میں ایک غریب آبادی میں رمشا مسیح نامی لڑکی پہ گستاخی کا الزام لگا۔ اُن دنوں میں اسلام آباد میں موجود تھا اور معاملے کو دیکھنے میں خود اُس آبادی میں گیا۔ جیسے پسے ہوئے طبقات کے گھر ہوتے ہیں رمشا مسیح کا گھر ایسا ہی تھا۔ مین بازار میں الزام لگانے والی کی دکان تھی۔ جب وہاں گیا‘ ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ زیادہ پڑھا لکھا نہیں لگتا تھا۔ وہ رمشا مسیح کے گھر کے پاس رہتا تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ لڑکی نے کس نوعیت کی گستاخی کی تھی؟ اُس نے کہا کہ کچھ مقدس اوراق شاپر میں تھے اور شاپر کو آگ لگی ہوئی تھی۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ ساتھ والی مسجد کے مولوی صاحب کے پاس وہ گیا اور انہوں نے کہا کہ اس پہ تو پرچہ بنتا ہے۔ واقعہ کی بنیاد بس یہی تھی لیکن آناً فاناً مسجد میں اعلان ہوا، لوگ جمع ہو گئے، نعرے بازی ہونے لگی، ایک دو افراد مجمعے کی لیڈری کے فرائص انجام دینے لگے۔ شروعات اگر ایسی تھیں تو نتیجے میں پاکستان کی ساری دنیا میں بدنامی ہوئی۔ کینیڈا نے رمشا مسیح کو پناہ دی اور تب اُس کی جان چھوٹی۔
ملک کی بدنامی ایک طرف لیکن جو لاچار اور غریب لوگ ایسے مقدموں میں آتے ہیں اُن کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ بکھرے ہوئے جذبات کی وجہ سے پولیس حق اور صداقت پہ مبنی تفتیش کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ وکلا ایسے مقدمات میں ملزم کی طرف سے پیروی کرنے سے گھبراتے ہیں اور ایک طبقہ ضرور ایسا ہوتا ہے جو جذبات کو ہوا دینے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ پھر کئی سال بعد جب ملک کی بھرپور بدنامی ہو چکی ہوتی ہے تو سپریم کورٹ سے ریلیف مل جاتا ہے۔ اِس دوران جس پہ الزام لگتا ہے اُس کی تو ایسی تیسی ہو گئی ہوتی ہے۔ فیصل آباد کی نرسوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ وقوعہ کچھ اور لیکن رنگ اس پہ کیسا ڈال دیا گیا ہے۔ سوال جو بھی اٹھیں نرسیں تو رگڑی گئیں۔ نہ پولیس انہیں بے گناہ قرار دے گی نہ ریلیف کہیں اور سے ملے گا۔ سزا کی صورت میں بین الاقوامی شور مچا تو کسی باہر کے ملک سے پناہ کی پیش کش آئے گی اور تب شاید جا کے ان کی جان چھوٹے۔
اے پروردگار تیرے نام کو استعمال کر کے جو زیادتیاں ہم انسان دوسرے انسانوں پہ کرتے ہیں اُس کے لئے ہمیں معاف فرما۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں