"AYA" (space) message & send to 7575

ہم خواہ مخواہ پریشان ہو رہے تھے

ہماری قومی زندگی میں یہ معمول کے واقعات ہیں۔ انہیں دیکھ کے زیادہ گھبرانا نہیں چاہئے۔ ہم جیسے بیوقوف تھوڑی سی بات پہ پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ جو معاملات چلاتے ہیں وہ ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ دیکھ لیجئے یہ کچھ دنوں کا احتجاج بھی خوش اسلوبی سے اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ ایک اور معاہدہ ہو گیا ہے اور ایک اور دفعہ معاملات طے ہو گئے ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ کچھ جانیں گئیں، بہت سے زخمی ہوئے‘ املاک کو بھی نقصان پہنچا لیکن یہ معمول کی کارروائیاں ہیں۔ ایسے ہنگاموں میں جو مرتے ہیں، جن کو ہم فوراً سے پہلے شہید کا لقب دے دیتے ہیں، اُن کے نام تک کسی کو یاد نہیں رہتے۔ ہاں کوئی بڑا نام مارا جائے جوکہ اکثر نہیں ہوتا تو پھر اُس کی برسی ورسی منا لی جاتی ہے نہیں تو ہنگاموں کی نذر جو عام لوگ ہوتے ہیں وہ بھولی بسری داستانوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جہاں تک پولیس والوں کا تعلق ہے عموماً وہ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایک آدھ بار اُن کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو ایسی کون سی بڑی بات ہے۔ کسی وجہ سے حوصلے پست ہو جائیں تو بحال بھی ہو جاتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ایک اور بلا ٹل گئی اور جہاں تک رِٹ آف دی سٹیٹ جیسی باتوں کا تعلق ہے تو پاکستان کے تناظر میں یہ کتابی باتیں ہیں۔ ریاست کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اُس کی سمت اور اس کے رویے درست ہیں۔ خرابی ہے تو ہم جیسوں کی سمجھوں میں۔ ہم چیزوں کو بغیر وجہ کے زیادہ سنگینی سے لے لیتے ہیں حالانکہ ایسی اپروچ کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
حالیہ واقعات میں ہم جیسوں کے لئے کافی سبق ہیں۔ اب تو ذہنوں میں یہ بات بیٹھ رہی ہے کہ جو نعرہ لگے اُسی کا ہمنوا ہو جانا چاہئے۔ زیادہ دماغوں پہ زور دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہماری دھرتی پہ نعرے لگتے رہیں گے۔ سمجھداری کا تقاضا ہے کہ ہر شوروغل کا حصہ بن جانا چاہئے۔ اسی میں عافیت ہے۔ ایک بات ہم ٹھیک کہتے تھے کہ مسائلِ مملکت کو زیادہ دل سے لگانا نہیں چاہئے۔ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے۔ جس راستے پہ چل رہے ہیں وہی درست راستہ ہے۔ جن کے پاس اتنی استطاعت ہے بس اپنی شاموں کی فکر کریں۔ شامیں ٹھیک طریقے سے گزر جائیں، کچھ رنگ و بو ہو، کہیں سے طبلے کی آواز آئے، اور بس کام ایسے ہی چلتا رہے۔ ریاست کو کیا ہونا چاہئے، اُسے کیا کرنا چاہئے، سب بیکار کی باتیں ہیں۔ بس اپنا اُلو سیدھا رکھو، کہیں لمبا ہاتھ مار سکتے ہو تو اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھو۔ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دو اور اپنی آسودگی کا خیال ہر دوسری شے سے افضل سمجھو۔ آئندہ کے لئے توبہ، کوئی نعرہ بھی بلند کیا جائے ہم بھی مکے ہوا میں لہرائیں گے۔ ایک بات تو طے ہے‘ رہبرِ منبر و محراب جو کچھ کہیں گے ہم تردید کی جرأت نہ کریں گے۔
معاہدے سے ایک دن پہلے وزیر اعظم صاحب نے قوم سے خطاب فرمایا اور اُن کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ تحریک لبیک اور ہمارے مقاصد ایک ہیں، صرف طریقہ کار پہ اختلاف ہے۔ جب مقاصد ایک ہیں تو جھگڑا پھر کاہے کا؟ پہلے ہی معاملات طے ہو جاتے، اتنی توڑ پھوڑ اور شور شرابے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جب یہ کالم لکھا جا رہا تھا مجھے کسی دوست نے ایک ویڈیو بھیجی جس میں ایرانی دارالحکومت تہران میں ایک احتجاج کا منظر دکھایا جا رہا ہے۔ نہایت نظم و ضبط سے حاضرینِ احتجاج قطاروں میں بیٹھے ہیں اور ایک پُر سوز مذہبی قسم کا نغمہ سنا جا سکتا ہے۔ دوست کا کہنا تھا کہ دیکھئے وہاں احتجاج کس انداز میں ہوتا ہے اور ہمارے ہاں ہم کیا کرتے ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایران کی تہذیب و تمدن اور ہمارا ارتقا مختلف عوامل کے زیر اثر رہا ہے۔ ہمارے انداز اور ہیں اور ہمارے صاحبانِ اقتدار کے انداز بھی مختلف ہیں‘ لہٰذا ایران سے موازنہ بنتا نہیں۔ ایران نے اپنا ایک راستہ چنا ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک ایسے اتفاق پہ پہنچ نہیں سکے کہ ہمارا قومی راستہ کون سا ہونا چاہئے۔ بہرحال یہ ثقیل بحث ہے، ایسی باتوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ریاست جانے اور اُس کے مسائل۔ اب تو جی نہیں چاہتا کہ ہم یہ بھی کہیں کہ مسائل ہیں کیا۔ جو ہے ٹھیک ہے۔ اگلی شورش اُٹھی تو ہم اُس میں شامل ہو جائیں گے‘ لیکن اِس احتیاط کے ساتھ کہ شام ڈھلنے تک ہی مکے لہرائیں گے۔ اُس کے بعد شام اپنی ہو گی۔ ہر چیز کا وقت ہوتا ہے۔ نعرے بھی ایک وقت تک ہی جچتے ہیں۔
اِس عمر میں اب کچھ سمجھ آ رہی ہے کہ معمولاتِ پاکستان ہیں کیا۔ احتیاط کی چادر ہمیشہ اوڑھی رہنی چاہئے۔ زبان سے کوئی غیر محتاط لفظ نہ نکلے۔ کوئی بے تکی بات سنیں بھی تو آگے سے سبحان اللہ کہہ دیں۔ انکار کسی بات کا نہ کریں۔ تردید کرنا بھی چھوڑ دیں۔ البتہ احتیاط کے پردے کے پیچھے جو کرنا ہے وہ بھرپور طریقے سے کریں۔ ایک بات تو اپنی مملکت کی ماننا پڑے گی۔ ہرکام یہاں چلتا ہے، بس احتیاط لازم ہے۔ جو کرنا ہے کرئیے فقط زبان سے کوئی غلط لفظ نہ نکلے۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہر چیز موجود ہے، ہر شے دستیاب ہے۔ حصول میں تھوڑی دِقت ہو سکتی ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ بیچ میں آ سکتا ہے لیکن اتنا تو مانئے کہ جو چیز من چاہے تھوڑے تردد کے ساتھ موجود تو ہے۔ یہ غنیمت کیا کم ہے؟
ہم سمجھتے تھے کہ اِس عمر میں ہم نے اور کیا سیکھنا ہے لیکن جیسے اوپر عرض کیا‘ حالیہ ہنگاموں نے ہمیں بہت کچھ سکھا دیا۔ آئندہ کسی بات کو دل سے لگنے نہیں دیں گے۔ گستاخی کے الزام ہیں یا کسی اور نوعیت کے، ہمیں اب اِن سے کوئی سروکار نہیں ہو گا۔ جو ایسے الزامات کی زد میں آتے ہیں اُن کی بد بختی۔ سب پہ احتیاط لازم ہونی چاہئے۔ معاشرے کی ہیئت بدلے گی نہیں۔ معاملات ایسے ہی چلیں گے، اصلاح ویسے ہی ایک فضول لفظ ہے اور یہاں تو اس کی گنجائش بالکل نہیں۔ پھر کاہے کو غم پالتے رہیں؟ جذبات کا ایک وقت ہوتا ہے۔ دل میں ارمان بہت ہوں گے لیکن سیاسی قسم کے ارمان ہم کب کے پیچھے چھوڑ چکے۔ اِس ضمن میں اگر کوئی باقی رہ گیا تھا اُس کی کسر بھی حالیہ ہنگامے نے پوری کر دی ہے۔ دل اب سیاسی ارمانوں سے پاک ہو چکا ہے۔
اب وہی چیزیں رہ گئی ہیں جن پہ تکیہ کرتے آئے ہیں۔ ایک تو موسیقی کا سہارا۔ یہ بھی نہ رہے تو زندگی میں کیا رہ جاتا ہے۔ شام ڈھلے موسیقی کی صحبت ہو تو انسان کو اور کیا چاہئے۔ صحیح انداز میں سامانِ شب بھی میسر ہو تو بشر اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھے۔ اور مہمان کرنے کو کوئی یار نہ بھی ہو کوئی ویسے ہی مہمان سہی پھر بھی نعمت ہے۔
ہماری بنیاد میں ہی کچھ ایسا تھا۔ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اِس سے مختلف نہیں ہو سکتا تھا۔ پاکستانی تاریخ کی گہرائیوں میں جائیں تو اس میں ایک منطق نظر آتی ہے۔ جو ہم نے نہایت تن دہی سے بویا اُسی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ منطق کا تسلسل اتنا واضح ہے کہ دل میں خوف اٹھتا ہے۔ لیکن اس خوف کو بھی اپنے نصیب کا حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ یہ سمجھ بھی آ چکی ہے کہ انہی حالات میں جینا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں