یہ بات نئے وزیرِ خزانہ شوکت ترین کی طرف سے آئی ہے۔ عہدہ سنبھالتے ہی اُنہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے جو شرائط ہم نے طے کی تھیں وہ بہت سخت ہیں اور ہم اِس کوشش میں ہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں تاکہ شرائط میں کچھ نرمی لائی جا سکے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ورلڈ بینک کا رویہ ہمدردانہ ہے اور وہ ہماری صورتحال کو سمجھ رہا ہے‘ البتہ آئی ایم ایف سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ انوکھی بیماری جس کی لپیٹ میں ساری دنیا آ چکی ہے وہ تو ایک طر ف رہی لیکن اِس بیماری کے اثرات مرتب ہونے سے پہلے بھی موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے قوم نڈھال ہو چکی تھی۔ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پاکستان کا گلا گھونٹ کے معاشی استحکام لایا جائے۔ بجلی کے ٹیرف کے بارے میں اُنہوں نے صاف کہا ہے کہ اِتنی اونچی بجلی کی قیمتوں کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا اور اِس ضمن میں آئی ایم ایف کو ہم نئی تجاویز دیں گے۔ شوکت ترین کی اَپروچ سودمند ثابت ہوتی ہے یا نہیں یہ وقت بتائے گا لیکن اُن کی باتوں سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ موجودہ حکومت میں پہلا شخص آیا ہے جو کم از کم معاشی حالات کا ادراک رکھتا ہے۔ وہ جو بات کر رہے ہیں ایک عام آدمی کی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ اسد عمر تو بس ایک حادثہ تھے اور بطور وزیرِ خزانہ حادثات برپا کرکے ہی گئے۔ حفیظ شیخ جو اِن کے بعد آئے وہ تو ایک بابو قسم کے انسان تھے۔ اعدادوشمار سے واسطہ رکھتے تھے، اُن کی معاشی پالیسیوں کا قوم پہ کیا اثر پڑ رہا ہے اُس سے اُن کو کوئی سروکار نہیں تھا۔ عوام کی چیخ و پکار اُن کے کانوں تک نہیں پہنچ پاتی تھی۔ یہ تو شکر ہو یوسف رضا گیلانی کا کہ سینیٹ الیکشن میں انہوں نے حفیظ شیخ کو ہرا دیا‘ ورنہ حفیظ شیخ جیت جاتے تو وزیر خزانہ وہی رہتے، عمران خان اُن کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے اور قوم کا حال مزید برا ہوتا جاتا۔ سینیٹ الیکشن میں ہار کی وجہ سے ہی حفیظ شیخ سے قوم کو نجات حاصل ہوئی۔ شوکت ترین سے کچھ ہوتا ہے کہ نہیں مرض کی تشخیص تو اُنہوں نے درست کی ہے اور موجودہ حالات میں یہی بڑی غنیمت ہے۔
تاہم یہ تمام صورتحال دیکھ کے عام آدمی سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ جب یہ افلاطون اقتدار میں آئے اِن کے پلے کچھ تھا یا نہیں۔ حالات حاضرہ سے واقف لوگ جانکاری رکھتے تھے کہ ملک کی معاشی حالت خراب ہے اور فوری طور پہ ہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان بہت بڑھکیں مار چکے تھے۔ ضرورت تو اِس امر کی تھی کہ کچھ تیاری کر کے آتے۔ یہ نہیں کہ معاشی ایکسپرٹ خود بن جاتے لیکن اِتنی سمجھ تو ہونی چاہئے تھی کہ معیشت کے سٹیئرنگ ویل پہ کس کو بٹھانا ہے۔ پی ٹی آئی کے بڑے لوگ اور کچھ نہ بھی کرتے اِس نکتے پہ تو اُنہیں کچھ سوچنا چاہئے تھا‘ لیکن معیشت پہ ایک ایسے آدمی کو بٹھا دیا جس کی معاشی سمجھ کچھ بھی نہ تھی۔ اِن کمبختوں نے روپے کی قدر ہی اِتنی کم کر دی کہ اِس ایک اقدام سے قوم اب تک سنبھل نہیں سکی۔ بہرحال چھوڑیئے اس آہ و زاری کو۔ حکومت میں آئے اِن لوگوں کو کافی دیر ہو چکی ہے اور معاشی حالات کو سنبھالنے کیلئے اِن کے ہاتھ ایک ایسا آدمی آیا ہے جو اور نہیں تو بنیادی معاملات کی سمجھ رکھتا ہے۔
حیرانی البتہ اِ س امر پہ رہے گی کہ پی ٹی آئی کے رکھوالے ، یعنی وہ جو اِن لوگوں کواقتدار میں لانے کے معاون رہے ، یہ تو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ۔ تاثر اِن سے یہ ملتا ہے کہ ہرتالے کی چابی اِن کے پاس ہے ، ہر مسئلے کا حل اِ ن کے زرخیز ذہنوں میں موجود ہے۔اِن کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ پی ٹی آئی والے کتنے پانی میں ہیں ؟دیگر معاملات کو چھوڑیئے، یہ پی ٹی آئی والوں کو باور نہ کراسکتے تھے کہ نمبر ون پرابلم پاکستان کا معاشی ہے اور نمبر ون ترجیح حکومت کی صحیح وزیرمعاشیات کا چناؤ ہے۔وزیراعظم کی تو ایک ہی گردان رہی کہ کرپشن ختم کروں گا اور کرپٹ لوگوں کا گریبان میرے ہاتھ میں ہوگا۔ ابھی تک اس گردان سے آگے نہیں جاسکے وہیں پھنسے ہوئے ہیں لیکن جن کو عقل کل ہونے کا مان رہتا ہے تو وہ نہ کہہ سکتے تھے کہ ڈھنگ کا وزیرخزانہ چن لو؟وزیراعظم کی سمجھ میں تو یہ بات نہیں آنی تھی لیکن اب یوں لگتا ہے کہ ان کی سمجھ میں بھی بات نہ آئی۔
اگلے الیکشن کو اب اڑھائی سال نہیں رہ گئے ۔ آخری سال تو الیکشن کے ہنگام میں گم ہو جاتا ہے۔ اِس حکومت کی مہلت کا وقت محض ڈیڑھ سال ہے۔کسی معجزے نے رونما ہونا ہے تو اِس عرصے میں ہو‘ نہیں تو حکومت کے کسی کام نہ آئے گا۔ جو کرنا ہے اِ س نسبتاً قلیل عرصے میں کرنا ہوگا۔ ایک تو معیشت ہے ، شوکت ترین کے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئے اور جو سیاسی سپورٹ اِنہیں چاہئے ہووہ مہیا کی جانی چاہئے۔ دوسرا میدان جس میں کچھ ہوسکتا ہے وہ خارجہ امور کا ہے ۔ ہمسایوں سے ہمارے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔ امریکہ کے تحفظات ایران کے بارے میں جو بھی ہوں ہمیں ایران سے تعلقات میں بہتری لانی چاہئے۔ افغانستان میں امن لانے کیلئے جو ہم کرسکتے ہیں وہ کریں۔ طالبان کو خواہ مخواہ ناراض نہ کریں لیکن طالبان کو اپنے سر پہ بھی نہ بٹھالیں۔ رہ گیا ہندوستان تو اور کچھ ہو یا نہ ہو بے جا کشیدگی میں کمی آنی چاہئے۔کشمیر کا مسئلہ کل یا پرسوں حل نہیں ہوگا،نہ ہمیں ایسی توقع رکھنی چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر کی اندرونی صورتحال میں ہم کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ لیکن ہندوستان کے ساتھ ہمارا مقصد کچھ اورہونا چاہئے کہ فضول کی پنگے بازی سے دونوں ممالک نجات حاصل کرسکیں۔فضول کی مہم جوئی نہ ہندوستان کے فائدے میں ہے نہ ہمارے۔ اِتنا ہی ہم کرلیں تو بہت ہے۔ پیچیدہ مسئلوں نے حل ہونا ہواتو اپنے وقت پہ ایسا ہوگا۔
فوری خطرہ ہمیں افغانستان کی طر ف سے ہے کیونکہ یہ خدشہ موجود ہے کہ جب امریکی انخلا مکمل ہوگیا تو افغانستان کی داخلی جنگ میں اضافہ ہوگا کمی نہیں۔ ایسے میں پاکستان مخالف عناصر جیسا کہ تحریک طالبانِ پاکستان ہے زور پکڑسکتے ہیں۔ اب کی صورتحال بھی ایسی ہے کہ جہاں ٹی ٹی پی کا بس چلے وہ ہمارے کچھ سکیورٹی اداروں پہ حملے کررہی ہے۔ بہت حد تک بلوچستان اور فاٹا میں ہم نے سکیورٹی صورتحال کو کنٹرول کیا ہے لیکن اِن دونوں علاقوں میں شورش کے انگارے اب تک سلگ رہے ہیں۔یہ انگارے کہیں بھڑک نہ اٹھیں یہ ہمارے لئے بڑا خطرہ ہے۔اگر ہندوستان کا ہاتھ اِن شعلوں کوبھڑکانے میں لگا ہوا ہے تو ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ سفارتی محاذ پہ ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ ہندوستان ایسا کرنے سے باز آئے۔ پاکستان اور ہندوستان بہت کچھ ایک دوسرے کے خلاف ردِعمل کے طور پہ کرتے ہیں ۔ ِان ردِعملوں کے اسباب ختم کرنے چاہئیں۔یہی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
یہ بات البتہ عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ پاکستانی سیاست میں پی ٹی آئی کا دور ایک وقفے سے زیادہ ثابت نہیں ہوگا۔ مٹی سے لدے ہوئے طوفان جنہیں پنجابی میں ہم 'جھکڑ‘ کہتے ہیں جتنی تیزی سے آتے ہیں اِتنی تیزی سے اُفق سے غائب ہو جاتے ہیں۔پی ٹی آئی کے جھکڑ کے بعد کون آتا ہے یہ تو جب اگلا میدان سجاتب ہی پتا چلے گا‘ لیکن اُس میدان کے سجنے میں کوئی زیادہ دیر باقی نہیں۔