خواب دیکھنا کب کا چھوڑ دیا۔ اِس مرض سے اپنے آپ کو آزاد کرلیا کہ پاکستان کا یوں ہونا چاہئے یا یہاں فلاں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ خواب جانیں اور اُن کے دیکھنے والے حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ نہ صرف ہم بلکہ قوم نے بھی خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اب ہم نفسانفسی کی دنیا میں ہیں کہ جس نے مال بنایا وہ ہی بڑا اور افضل ٹھہرا۔ آج کے پاکستان میں یہ بھی کوئی قید نہیں رہی کہ مال کس طریقے سے بنانا ہے۔ ہر راستہ جائز ہے۔
یہ محض بڑی عمر کی سِنے سزِم (cynicism) نہیں۔ آج کے پاکستان کا فلسفہ یہی ہے کہ مال ہے تو سب جائز ہے۔ مال نہیں ہے تو آپ کی کوئی حیثیت نہیں۔ آج کل حکومت اور اپوزیشن پارٹیاں دونوں ہمیں اعداد و شمار سنا رہی ہیں۔ اِتنی شرح نمو، دوسرے کہتے ہیں یہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اِس بحث سے ہمارا کیا لینا دینا؟ ہر چیز بکتی ہے، اور ہر بکنے والی چیز کیلئے مال ضروری ہے۔ تعلیم بکتی ہے صحت بکتی ہے۔ تھانوں سے مہیا کردہ حفاظت بکتی ہے۔ انصاف کے بارے میں کیا کہیں؟ کوئی برا نہ منائے یہ بھی بکتا ہے۔ جیب میں کچھ نہ ہو تو کوئی بات سنے گا؟ اُس کا منشی نزدیک نہیں آنے دے گا۔ جسے ہم ریاست کہتے ہیں اُس نے تو کچھ کرنا نہیں۔ نہ تعلیم مفت دینی نہ صحت کا نظام کیوبا جیسے ملک والا بنانا ہے۔ ہمارے والد صاحب ٹھیک کہا کرتے تھے، دو چیزوں سے بچو۔ نہ جیل جانا پڑے نہ کوئی ہسپتال دیکھنا پڑے۔ بہت سی خواہشات میں ایک توقع رہ گئی ہے کہ صحت ٹھیک رہے۔ صبح کالی کافی پی سکیں۔ کچھ ورزش کے بعد میز پہ بیٹھیں تو دیسی گھی والا ایک پراٹھا اور ساتھ سادہ سا سبزی کا سالن یا دیسی انڈے کا آملیٹ۔ اُس کے بعد گھر کا جما ہوا تھوڑا سا دہی۔ کبھی کبھی چھوٹی مکھی والے اصلی شہد کا ایک چمچہ ڈَل جائے۔ اور یہ سب کچھ بغیر کسی دوا کے ہضم ہو جائے۔ اِس سے زیادہ کوئی خواہش نہیں رہی کہ فلاں ملک جانا ہے اور وہاں فلاں چیز دیکھنی ہے۔ کھانا دو ٹائم کا کھاتے ہیں، ایک صبح والا اور پھر شام ڈھلے۔ اور پھر بغیر کسی دوا کے نیند آ جائے تو بس یہی دعا ہے کہ ایسا رہے تو اپنے آپ کو خوش قسمت جانیں۔
اخبارات کا ٹھرک بھی وہ نہیں رہا جو ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ سیاست بدمزہ ہو چکی ہے تو اخبارات میں مزا کہاں سے آئے۔ روٹین پوری کرتے ہیں کہ اخبارات کے صفحات پھرول لیں لیکن ثقیل تحریر اب پڑھی نہیں جاتی اور جو لکھاری زیادہ دانشور بننے کی کوشش کر رہے ہوں اُن کی تحریر دور سے پہچان میں آ جاتی ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اخبارات نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ کسی دلچسپ لکھنے والے کو قطعاً کوئی جگہ مہیا نہیں کرنی۔ چٹخارے والے مضامین تو یوں سمجھئے آج کل کے اخبارات سے غائب ہو چکے ہیں۔
یاد تو نہیں پڑتا کہ کبھی کوئی اچھا کام کیا ہو لیکن کچھ نہ کچھ اچھا کام ضرور کیا ہوگا کیونکہ کچھ دنوںسے شام ہوتی نہیں کہ کوئلوں کی ایک جوڑی ہمارے بیری کے درخت پہ آن بیٹھتی ہے۔ پھر اُن کے سریلے نغموں سے شام کے وہ مختصر سے لمحات مہک اٹھتے ہیں۔ پرابلم صرف یہ ہے کہ جلد ہی لاؤڈ سپیکر بھی کھل جاتے ہیں۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ دو تین لاؤڈ سپیکر بیک وقت مقابلے پہ اُترے ہوتے ہیں۔ اِس پہ اعتراض کیا کیا جا سکتا ہے لیکن دل ہی دل میں آرزو ہوتی ہے کہ دعوتِ فلاح تو سن لی اب کوئلوں کے نغموں کو بھی سن لیں۔ خدا خدا کر کے کوئلوں کو بھی باری مل جاتی ہے اور یوں شام کے سائے اندھیروں میں ڈھل جاتے ہیں۔ آج ہی پڑھ رہا تھا کہ سعودی عرب میں حکمنامہ جاری ہوا ہے کہ لاؤڈ سپیکروں کی آواز کم کی جائے۔ تاکید یہ کی گئی ہے کہ لاؤڈ سپیکروں کا جو بھی والیم ہو اس کا ایک تہائی سے زیادہ استعمال میں نہ آئے۔ وہ تو ایسا کر سکتے ہیں یہاں ایسا حکمنامہ تقریباً ناممکن ہے۔ بغاوت پہ اتر آئے گی قوم۔ بہرحال نازک موضوع ہے زیادہ چھیڑنا نہیں چاہئے۔ ویسے بھی فتویٰ لگنے میں دیر نہیں لگتی۔
حال ہی میں پاکستان کے بارے میں یورپین پارلیمنٹ میں جو قرارداد پاس ہوئی تھی اُس میں ایک کرسچین جوڑے کا ذکر تھا جنہیں توہین کے الزام میں سزائے موت ہوئی تھی۔ خاتون کا نام شگفتہ کوثر ہے اور مرد کا نام شفقت ایمونئیل۔ اچھی خبر یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے اِس جوڑے کو الزام سے بری کردیا ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ سات سال جیل میں تو رہے۔ یہ عرصہ اِنہیں واپس کون دلائے گا؟ شفقت ایمونئیل کی میں نے فوٹو دیکھی ہے۔ وہ جو ہمارے معاشرے میں بالکل پسے ہوئے لوگ ہوتے ہیں، جن کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہوتا، اُس کی شکل ایک ایسے شخص کی ہے۔ ہم کیسے لوگ ہیں کہ ایسے پسے ہوئے لوگوں پہ ظلم ڈھاتے ہیں۔ کوئی علاج ہے ایسی روشوں کا؟ بہرحال اُن کے وکیل کو سلام پیش کرنا چاہئے۔ پاکستان میں بہت کم انصاف دلانے والے رہ گئے ہیں جو ایسے مقدمات کو لینے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ باقی بیشتر ہم میں سے بیکار کی نصیحت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
جس کو دیکھو یہاں مبلغ ہے۔ دین کا حکم ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اِس نصف کا جو حشر مملکت خداداد میں ہوتا ہے! بطور قوم ذاتی صفائی کے ہم دلدادہ ہیں لیکن اجتماعی صفائی کے تصور سے ہمارے ذہن خالی ہیں۔ کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے باہر پھینک دیں گے۔ کوئی ہماری قوم کو یہ تو بتا دے کہ کوڑا کرکٹ پلاسٹک کے شاپروں میں بند کر کے باہر نہیں پھینکنا چاہئے۔ وہ گند جو آب و ہوا سے تحلیل ہو سکتا ہے پلاسٹک شاپروں میں رہ کر عرصہ دراز کے لئے محفوظ ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم ماحولیا ت کی بات بہت کرتے ہیں لیکن پلاسٹک کے شاپروں کی لعنت اِن سے ختم ہوئی نہیں۔ اگر صفائی نصف ایمان ہے تو نصف صفائی پلاسٹک شاپروں کے خاتمے سے پوری ہو جائے‘ لیکن ہمارے بارے میں کیا کہا جاتا ہے؟ ہم ٹھہرے گفتار کے غازی۔ باتیں کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔ عمل وغیرہ کرنا وہ الگ باتیں ہیں۔
ایک اور خیال ذہن میں آیا۔ شہر بیکار ہیں اگر اُن میں ایسی جگہیں نہ ہوں جہاں شاموں کو لوگ بیٹھ سکیں۔ ایسی جگہوں کو آپ انگریزی میں کیفے (cafe) کہتے ہیں۔ جہاں کیفے کا کلچر نہ ہو وہاں تخلیقی کام بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ تخلیق کرنے والے لوگ چاہے فنکار ہوں شاعر ہوں یا ادیب وہ دن ڈھلے کہاں بیٹھیں اگر ایسی جگہیں نہ ہوں؟ ایسی جگہوں میں ہی گفتگو چلتی ہے کچھ شور اٹھتا ہے کچھ بحث و تکرار کا سماں پیدا ہوتا ہے۔ ایسا کلچر ہمارے شہروں میں ہوا کرتا تھا۔ گزرے وقتوں میں مال لاہور ایسی جگہوں سے بھرا پڑا تھا۔ راولپنڈی صدر میں ایسی جگہیں ہوا کرتی تھیں اور کراچی کا تو ڈھنگ ہی اپنا تھا۔ نظرِ بد ایسی لگی کہ تمام ایسے مقامات ختم ہو گئے۔ اُن پہ تالے لگ گئے۔ ساتھ ہی اجتماعی طور پہ ہمارے ذہنوں پہ تالے لگ گئے۔ سوچنے کی صلاحیت محدود ہو گئی۔ غور کرنے کی استطاعت بھی سکڑ کے رہ گئی۔ نتیجہ اِس سارے عمل کا آج کا بوریت بھرا ماحول ہے۔ کون مسیحا آئے گا جو اِس صورتحال کو تبدیل کرے؟