علیحدہ ملک اِس لئے کہ وہاں جانا بے حد مشکل ہو گیا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنزکے کسی جہاز میں بیٹھنے سے ڈر لگتا ہے۔ حالت اب یہ ہے کہ کراچی کا کوئی مفت ٹکٹ بھی لے کے دے تو پی آئی اے میں بیٹھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ جہاں تک ریل کے سفر کا تعلق ہے اُس کا حشر ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں اور یہ جو گھوٹکی میں کل پرسوں کا واقعہ ہے‘ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ حادثات کے ایک تسلسل کا حصہ ہے۔ ریل کا سفر اب مجبور لوگ ہی کرتے ہیں۔ کسی کے پاس کوئی اور آپشن ہو تو کسی ریلوے سٹیشن کے قریب پھٹکنے سے بھی گریز کرے۔
زیادہ تر کراچی کا سفر اب بذریعہ بس ہی ہوتا ہے۔ آج کل کی لمبی روٹوں والی بسیں آرام دہ ہوتی ہیں۔ اوورلوڈنگ بھی نہیں ہوتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اِن بسوں میں بیٹھنے کیلئے بھی دل گردے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چکوال سے کبھی بلکسر جانا ہو تو کراچی جانے والی یا وہاں سے آنے والی بسوں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ رفتار اُن کی ایسے ہوتی ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔ ظاہر ہے آبادی کا بہت بڑا حصہ اِن بسوں پہ سفر کرتا ہے لیکن مجھ میں اِن بسوں میں بیٹھنے کی ہمت کبھی نہ پڑے۔
ایک زمانہ تھا کہ کراچی بہت آنا جانا رہتا تھا۔ صحافتی قبیلے کو ایک یہ رعایت حاصل تھی کہ پی آئی اے کا ٹکٹ پچاس فیصد رعایت سے ملتا تھا۔ کراچی جانے میں کبھی قباحت محسوس نہ ہوتی بلکہ کچھ عرصہ نہ جاتے تو آرزو پیدا ہوتی تھی کہ کراچی کا دورہ کیا جائے۔ یہ گزرے وقتوں کی بات ہے، اب یاد نہیں پڑتا کہ آخری بار کراچی کب گئے تھے۔ دعوت بھی آتی ہے تو بغیر سوچے کوئی بہانہ بنا کے انکار میں ہی بہتری سمجھتے ہیں‘ لیکن سوال اُٹھتا ہے کہ اگر کراچی جانا ہی پڑے تو کیسے جایا جائے؟ ایک آپشن ہے کہ اپنی گاڑی پہ جائیں‘ لیکن اِتنا معلوم ہے کہ جائیں بھی تو ہمیں تین دن لگ جائیں گے۔ چکوال سے چلیں تو ایک شام ملتان پڑاؤ کریں گے۔ وہاں سے اگلی صبح سکھر پہنچیں گے اور وہاں بھی ایک رات پڑاؤ ہو گا۔ پھر تیسری صبح کراچی کی طرف چل نکلیں گے۔ ایسی سیاحت تو کبھی کبھار ہی کی جا سکتی ہے‘ وہ بھی مکمل تیاری کے ساتھ۔ تمام ضروری سامان بشمول سامانِ شب ساتھ لے جانا پڑے گا۔ ملتان ٹھہریں گے تو وہاں کے مزارات ضرور دیکھنے جائیں گے۔ ہوٹل اب ملتان میں اچھے بن چکے ہیں، رہنے کا مسئلہ نہیں ہو گا لیکن اپنی طبیعت کو جانتے ہوئے ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے دل میں آرزو ضرور اُٹھے گی کہ کوئی کمپنی تو ہو۔ ملتان میں ہماری حیثیت پردیسیوں والی ہو گی۔ رات گئے کس کی کمپنی ہم ڈھونڈیں گے؟ یہی کیفیت سکھر میں ہو گی۔ کس سے رابطہ کریں گے کس سے کچھ کہیں گے؟ بہرحال دریائے سندھ کا چکر ضرور لگے گا اور سکھر کے سامنے جو جزیرہ دریائے سندھ میں ہے اور جس کی تصویریں ہم پتا نہیں کب سے دیکھتے آئے ہیں‘ وہاں جانے کی بھی کوشش ضرور ہو گی۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ایسے میں کراچی کا سفر کرنے کی سوچیں تو یوں لگے گا کہ ہم صحرائے گوبی عبور کرنے جا رہے ہیں۔
ہاں ایک اور ذریعہ ضرور ہے کراچی جانے کیلئے۔ اپنا ذاتی ہوائی جہاز ہو تو پھر انسان آرام سے وہاں پہنچ سکتا ہے‘ لیکن جہاز رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ بندہ یا تو ہاؤسنگ سیکٹر کا بہت بڑا ٹائیکون ہو یا جنوبی پنجاب کے کسی ضلع میں کم از کم پانچ ہزار ایکڑ زرعی اراضی کا مالک ہو۔ ظاہر ہے رادھا کے ناچنے کیلئے یہ نو من تیل ہم سے کبھی اکٹھا نہ ہوگا۔
بیک وقت قومی ایئرلائن اور قومی ریلوے کو تباہی کے دہانے پر پہنچانا ہر ایک معاشرے کے بس کی بات نہیں لیکن ہم نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے۔ تاتاریوں یا منگولوں نے شہر اِس طرح تباہ نہیں کئے ہوں گے جس انداز میں قومی ایئرلائن اور قومی ریلوے کو ہم نے تباہ کیا ہے۔ پھر بتائیے کہ اگر انسان شمال پاکستان میں رہتا ہو اور کراچی جانے کی ضرورت پڑے تو وہ کیسے جائے؟ ہوائی سفر، ریل کا سفر اور بس کا سفر جب تینوں سے دھڑکا لگے تو اور ذریعہ کیا رہ جاتا ہے؟ اب سارے باتیں کر رہے ہیں اور فضول کی بیان بازی ہو رہی ہے‘ نہیں تو سب کو پتا ہونا چاہئے تھا کہ ریلوے کا بیشتر ٹریک جو صوبہ سندھ سے گزرتا ہے اور خاص طور پہ سکھر ڈویژن کے حصے میں جو ریلوے ٹریک آتا ہے اُس کی کتنی خستہ حالت ہے۔ یہاں اب جو حادثہ ہوا ہے وہاں پٹڑی میں ایسے جوائنٹ تھے جن کو ویلڈ (weld) کیا گیا تھا۔ خبریں آرہی ہیں کہ بارہا محکمے کو اطلاع دی جاتی رہی کہ ٹریک کی حالت خراب ہے اور اِس کا کچھ کیا جانا چاہئے لیکن کچھ بھی نہ کیا گیا۔ پھر ذمہ داری کس کی بنتی ہے؟ وزیر ریلوے اعظم سواتی حسبِ معمول آئیں بائیں شائیں کررہے ہیں‘ حالانکہ ضمیر کی کچھ معمولی سی خلش بھی ہو تو انہیں فوراً استعفیٰ دینا چاہئے‘ لیکن یہ معجزہ کبھی نہ دیکھنے میں آئے گا اور وہ اِدھر اُدھر کی بیان بازی کرتے رہیں گے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جیسے ملک کا بٹوارہ ہوا ریلوے نظام کی بھی تقسیم ہوئی۔ ایک ہی نظام تھا جس کا بڑا حصہ ہندوستان کو گیا اور رقبے کے لحاظ سے جتنا حصہ ہمارا بنتا تھا وہ ہمار ے پلے آیا یعنی دونوں اطراف سسٹم ایک ہی تھا۔ ایک ہی قسم کے انجن، ایک ہی قسم کی بوگیاں اور ایک ہی قسم کے ریلوے ٹریکس ۔ ہندوستان میں وہی پرانا نظام ٹھیک سے چل رہا ہے۔ ٹرینیں ٹائم سے چلتی ہیں اور ٹائم سے منزل پہ پہنچتی ہیں۔ ہم نے خود اُن پہ سفر کیا ہے۔ ایک دفعہ دہلی سے آگرہ جانے کا اتفاق ہوا۔ سیٹ پہ بیٹھے ہی تھے کہ ایک کپ چائے پیش کی گئی اور ساتھ ہی ایک اخبار کی کاپی۔ ویٹر نے پھر پوچھا کہ ناشتے میں کس قسم کے انڈے پسند کیے جائیں گے۔ ہم نے اپنی پسند بتائی اور کچھ دیر بعد ناشتہ سَرو کیا گیا۔ عین وقت پہ ٹرین آگرہ پہنچی اور ہم اپنے ہوٹل منتقل ہو گئے۔ وہاں کی تیز ٹرینوں کو شتآپدی ایکسپریس کہتے ہیں۔ بڑے شہروں کے درمیان چلتی ہیں اور راستے میں کہیں نہیں رکتیں۔ فاصلے ہندوستان کے بہت لمبے ہیں لیکن بیشتر آبادی ریل کے ذریعے ہی یہ فاصلے طے کرتی ہے۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ چینی مدد سے تیز رفتار ٹرینوں کا نظام تشکیل دیا جائے گا۔ پرانا نظام تباہ حال کر دیا اور اب دور کی سوچ رہے ہیں۔ قومی ایئرلائن کے ساتھ بھی ہم نے یہی کیا۔ اچھی بھلی ایئرلائن جو دنیا کی اچھی ایئرلائنوں میں شمار ہوتی تھی کو ہم نے برباد کردیا۔ اور ہاں یاد آیا کہ روسیوں نے ہمیں ایک سٹیل مل بنا کے دی تھی۔ اُس کا بھی حشر ہم نے کر دکھایا۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ ہم ایٹم بم کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن غالباً یہ چھوٹے موٹے کام ہماری شان کے خلاف ہیں۔
اچھی تعلیم اور اچھے ہسپتال‘ دونوں پرائیویٹ سیکٹر میں ملتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا بھی حل اب یہی رہ گیا ہے کہ پرائیویٹ ذرائع پہ انحصار کیا جائے۔ چھوٹا یا لمبا سفر کرنا ہو تو اپنی گاڑی پہ۔ ہو سکے تو ذاتی گاڑی آرام دہ اور کشادہ ہو۔ ہر آسائش اُس میں ہونی چاہئے۔ چھوٹا فریج اُس میں لازمی طور پہ ہو تاکہ بوقت ضرورت برف اور ٹھنڈا پانی میسر ہوں۔ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے وہ جانیں اور اُن کے ٹھہرے ہوئے نصیب۔