غالب کے ہم عصروں کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے؟ کوئی پتا پوچھے تو کہہ سکتے ہیں کہ غالب کی دہلی میں رہتے تھے۔ غالب سے پہلے میر تقی میر کا حوالہ بہ آسانی دیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ تو کچھ ہمارا ہے۔ آگے جاکے کوئی پوچھے کہ کہاں سے آئے ہو تو کیا کہیں گے؟ ہاں فیض صاحب کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ غالباً جوش صاحب اور خواجہ خورشید انور کا بھی۔ اِن ناموں کی گونج آگے بھی ہو گی‘ لیکن دیگر کیا حوالے ممکن ہیں؟ اِنحصار کچھ اِن ناموں پہ کرنا پڑے گا: استاد بڑے غلام علی خان، کندن لال سہگل، محمد رفیع، نور جہاں، لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے۔ جب ہمارے زمانے کے اور نام ماند پڑ جائیں گے تو یہ نام زندہ رہیں گے۔
ایسی باتوں کا ذکر کیوں؟ ہوتا یوں ہے کہ کبھی کبھی صبح ایک ایسا گانا کانوں میں رس گھولتا ہے کہ اور نہیں تو اُس دن کیلئے دنیا کا سارا سماں بدل کے رہ جاتا ہے۔ کچھ پرانی عادت سی ہے‘ ریڈیو سیلون کو سننے کی اور اکثر ایسے گانے ریڈیو سیلون پہ سننے کا اتفاق ہوتا ہے۔ کبھی پہلے ایسے گانوں کو نہیں سنا ہوتا۔ فلموں کے نام انجانے ہوتے ہیں، میوزک ڈائریکٹر اجنبیوں کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن گانا ایسا ہوتا ہے کہ دل کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ ایک روز پہلے کچھ ایسا ہی ہوا جب آشا بھوسلے کا ایک پرانا گمنام قسم کا گیت سننے کا موقع ملا۔ 1954ء کی فلم ہے، نام اُس کا 'رامن‘ اور اِس خاص گانے کے الفاظ عزیز کاشمیری کے ہیں۔ گانے کی دھن بنائی ہے کسی وِنود نے (پورا نام نہیں لکھا ہوا) اور بے مثل گائیکی ہے آشا بھوسلے کی۔ اثر اِس گانے کا اتنا ہوا کہ میں سنتا رہا اور پھر بیٹھ کے بول بھی لکھ لئے جو یوں ہیں:
اداس نظروں سے پوچھ لیجے
میں کیا بتاؤں سوال کیا ہے
اِسی تمنا میں مر رہے ہیں
کبھی تو پوچھو کہ حال کیا ہے
ہمیں تو دل کی لگی نے آخر
تمہارے قدموں میں لا کے چھوڑا
ہمارے آنسو یہ پوچھتے ہیں
تمہیں ہمارا خیال کیا ہے
تمہیں تو آتا ہے دل جلانا
کسی کے اشکوں پہ مسکرانا
تمہیں قسم ہے تم ہی بتا دو
کہ اور تم میں کمال کیا ہے
یہ بتاتا چلوں کہ اس گانے کی ریکارڈنگ جو یوٹیوب پہ ہے نہایت کمزور ہے۔ گانا صحیح سننا ہو تو ریڈیو سیلون کے 11 جون 2021ء کے پروگرام 'پرانی فلموں کے سنگیت‘ میں سنا جائے۔ سطور میں جو درد ہے وہ آشا ہی سامنے لا سکتی ہے۔ یہ شروع کی آشا تھی، یعنی آواز میں جوانی کے آثار نمایاں ہیں۔ تب ابھی اپنی عظیم بہن لتامنگیشکر کے سائے میں چلتی تھی‘ لیکن پھر بھی گانا ایسا کہ دل کی تانیں ہل کے رہ جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھی آشا کا ایک گانا سنا تھا جس کا اثر ذہن پہ دیر تک رہا۔ 1952ء کی فلم ہے 'زلزلہ‘۔ شاعری قیس عرفانی کی اور میوزک رابن چیٹرجی کا۔ بول یوں ہیں: کھلی آنکھ جب تیرے پیارے میں رہی یاد اِس لئے داستاں۔
چند روز پہلے نورجہاں کا ایک گانا سنا جو پہلے کبھی نہ سنا تھا ''روشنی اپنی اُمنگوں کی لٹا کر چل دیئے‘‘۔ تقسیم ہند سے پہلے کی فلم ہے 'نادان‘۔ گانے کی موسیقی کے دَتہ کی ہے اور بول ہیں ضیا سرحدی کے۔ میری ناپختہ رائے میں گانے کی دُھن مشکل ہے لیکن کس لا جواب انداز سے نور جہاں نے اِسے ادا کیا ہے۔
جمال سین اپنے زمانے کے بہت اچھے میوزک ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔ زیادہ کام اُنہیں نہیں ملا لیکن کچھ ایسی اُن کی ترتیب دی ہوئی دھنیں ہیں جو اُنہیں لافانی بنا دیتی ہیں۔ ایک تو لتا منگیشکر کا ناقابلِ فراموش گانا ہے ''سپنا بن ساجن آئے‘‘ اور دوسر ا 1953ء کی فلم 'دائرہ‘ سے مبارک بیگم اور محمد رفیع کا دوگانا ''دیوتا تم ہو میرا سہارا‘‘۔ گانے میں کورس ہے اور کورس بھی لاجواب ہے۔ یہ ایسے گانے ہیں جو اپنا نقش ہمیشہ کے لئے انسان کے ذہن پہ چھوڑ جاتے ہیں۔
ہر دور میں خرابیاں ہوتی ہیں۔ موجودہ دور کی بھی اپنی خرابیاں ہوں گی لیکن بے شمار بربادی میں ایک نعمت یہ ہے کہ گزرے زمانوں کی نسبت آج موسیقی کا زیادہ تر ذخیرہ یوٹیوب پہ محفوظ ہے۔ گزرے وقتوں میں جن کے پاس گراموفون ریکارڈ تھے وہ گانے سن سکتے تھے۔ ریڈیو سے بہت کچھ سنا جاتا تھا لیکن یہ جو سہولت ہمیں میسر ہے کہ ایک دو بٹن دبا کے اپنی پسندکی موسیقی آسمانوں سے کھینچ لائیں یہ ایک ایسی عیاشی ہے جو پہلے میسر نہ ہوا کرتی تھی۔ انٹرنیٹ پہ بکواس بھی بہت سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے لیکن موسیقی، رقص اور فلموں کے ذخیرے بھی موجود ہیں۔ یقین مانئے ایسی ایسی موسیقی کہ انسان سن کے حیران رہ جاتا ہے۔ یہ آپ پہ منحصر ہے کہ بکواس میں ہاتھ ڈالتے ہیں یا کچھ اور پسند کرتے ہیں۔ سودا تمام سجا ہوا ہے اور دستیاب ہے۔ جو من چاہے ڈھونڈ کے آسمانوں سے اتاریے۔
ہم جب چھوٹے تھے تو ریڈیو کو ترستے تھے۔ گھر کا ماحول ایسا تھا کہ ریڈیو آسانی سے سننے کو نہ ملتا۔ کبھی لتا کے گانے سنتے تو گماں ہوتا کہ بہت ہی دلکش قسم کی جوان لڑکی ہے جو بہت عمدہ ڈانس کرتی ہو گی۔ آواز ہی ایسی تھی کہ لگتا تھا کہ کوئی حسینہ گا رہی ہے۔ آشا بھوسلے کا نام ہم نے تب سنا ہی نہ تھا۔ جب لارنس کالج گئے تو مری میں انڈین فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ یہ 1965ء سے پہلے کا زمانہ تھا جب انڈین فلمیں پاکستانی سینماؤں میں لگا کرتی تھیں۔ جو گلوکاری ہم تب سنتے تھے وہ ہماری زندگی کا حصہ بن گئی۔ نور جہاں، لتا جی اور محمد رفیع صاحب کی آوازوں کو ہم جیسوں کی زندگیوں سے نکال لیں تو وہ زندگیاں ادھوری رہ جائیں۔ دیگر میدانوں میں بھی پھنے خان ہوا کرتے تھے۔ سیاسی لیڈر بڑے آئے اور گئے۔ ہم اُن سے نا صرف متاثر ہوتے بلکہ اُن کے نعرے بھی لگاتے۔ یہ بعد میں احساس ہواکہ زیادہ تر وہ کھوکھلے لوگ تھے جن کی پہچان اُن کے اپنے وقت تک محدود تھی۔ اصل عظمت اُن کی ہے جو وقت کے دھارے پہ کچھ ایسی نشانیاں چھوڑ گئے جو کبھی نہ مٹ سکیں گی۔ ایسوں میں شمار فیض صاحب جیسے شاعروں کا ہوتا ہے اور اُن فنکاروں کا جن کا نام میں لے چکا ہوں۔ پچاس سال بعد کس کو آج کے لیڈروں کا نام یاد رہے گا۔ ڈھونڈے سے بھی اِن کے نام نہیں ملیں گے‘ لیکن ہزار سال بعد بھی نور جہاں، لتا اور محمد رفیع کی گائیکی سنی جائے گی۔
برصغیر کی فلمی گائیکی کا درخشاں دور کچھ عرصہ ہی رہا۔ جب ہندوستانی فلموں میں موسیقی آئی تو اچھے گانے والے تھے لیکن اپنے وقت کے لئے ہی تھے۔ سہگل صاحب آئے تو گویا مردانہ گائیکی میں ایک انقلاب آ گیا۔ وہ فلموں میں 1932-33ء میں آئے اور ان کا انتقال 1947ء میں ہو گیا۔ ان کے بعد ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ 1930ء کی دہائی سے لے کر 1960ء کی دہائی کے شروع کے سالوں تک بر صغیر کی گائیکی کا گولڈن زمانہ رہا۔ اُس دور کا آفتاب غروب ہوا تو اور قسم کی گائیکی نے جنم لیا۔
تان سین کا نام ہم نے سنا ہے لیکن ہمارے ذہنوں میں اُن کی گائیکی کا ایک تصور ہی ہے۔ گولڈن ایج کے فنکاروں کی خوش قسمتی ہے کہ اُن کا کام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہے‘ لیکن نام اگر زندہ رہتے ہیں تو محض سائنس کی وجہ سے نہیں اُن میں کچھ ہو تب ہی زمانے یاد رکھتے ہیں۔