"AYA" (space) message & send to 7575

پولیس ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہے

ہم جو سیاست یا میڈیا میں بڑی بڑی باتیں اِصلاح کی کرتے ہیں بیشتر فضول کی باتیں ہوتی ہیں۔ ہمارے جیسے معاشرے میں دو اداروں کی اِصلاح بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک عدالتی نظام اور دوسرا پولیس کا محکمہ۔ عدالتی نظام تو رہنے دیجئے، حساس مسئلہ ہے اِس پہ کچھ کہنا اِتنا آسان نہیں‘ لیکن پولیس کا محکمہ ایسا ہے کہ جس سے عوام کا پالا روزمرہ کی بنیاد پہ پڑتا ہے۔ اِس محکمے کی کارکردگی بہتر ہو جائے تو روزمرہ کے آدھے مسائل ختم نہ بھی ہوں تو اِتنے تکلیف دہ نہیں رہتے۔
محکموں کو انسان چلاتے ہیں۔ انسانوں کا چناؤ بہتر ہو تو محکموں کی کارکردگی بھی اُسی لحاظ سے بہتر ہو جاتی ہے۔ فوج میں لوگ مریخ سے نہیں آئے ہوتے لیکن بطور ادارہ فوج کی کارکردگی بہتر ہے تو اِس لئے کہ وہاں کا نظام بہتر ہے۔ پولیس میں بھی بہتری آ سکتی ہے اگر اُس کا اندرونی نظم و ضبط بہتر طریقے سے چلایا جائے۔ میرا بیک گراؤنڈ ایک دیہاتی آدمی کا ہے۔ ہمارا پولیس سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ کوئی مقدمہ ہو، کوئی تفتیش ہو، کوئی چالان ہو جائے تو پولیس سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ اپنا کام تو نہیں ہوتا زیادہ تر لوگوں کا کام ہوتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کے حالات ایسے ہیں کہ روزمرہ اور جائز کاموں کیلئے بھی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی صحیح، جائز اور قانونی کام کرانے کیلئے بھی کسی کو کہنا پڑتا ہے۔
اِ س واسطے یا تجربے کی بنیاد پہ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ ضلع کا بڑا پولیس افسر جسے آج کل ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (DPO) کہتے ہیں اگر اچھا ہو تو اُس ضلع کی ساری پولیس کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ رشوت اور زیادتی کا ایک دم خاتمہ ہو جاتا ہے لیکن اچھا ڈی پی او ہو تو ماتحتوں کو کچھ ڈر رہتا ہے۔ زیادتی ہو تو شنوائی ہو سکتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اچھا افسر ہو تو اُس کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ تھانوں میں ماتحتوں کا چناؤ بھی اچھا ہو۔ ایک اچھے ڈی پی او کا مطلب ہی یہ ہے کہ دستیاب نفری میں سے وہ اچھے ایس ایچ او یعنی سٹیشن ہاؤس آفیسر لگائے۔
مثال کے طور پہ ضلع چکوال کے گیارہ تھانے اور سات چوکیاں ہیں، چوکی کا مطلب سب تھانہ ہے ۔ اگر اِن تھانوں اور چوکیوں میں دستیاب نفری میں سے بہتر سے بہتر افسروں کا چناؤ ہو سکے تو سمجھئے کہ ضلع کے آدھے پولیس کے مسائل ختم ہو گئے۔ یہ سادہ سی بات ہے۔ نہ آپ کو انگلینڈ کے پولیس نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے نہ جاپان کے پولیس سسٹم کو پرکھنے کی۔ ہمارا اپنا معاشرہ ہے جس کے اپنے مسائل ہیں۔ یہاں پہ جو نظام ہے وہی چل سکتا ہے۔ لیکن اِسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور اِس کی برائیاں مکمل طور پہ نہ بھی ختم ہوسکیں تو اِنہیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا اور بنیادی قدم بہتر آدمیوں کی سلیکشن ہے۔ پاکستان کے کل اضلاع کی تعداد تقریباً 107 ہے۔ ہمارے تمام صوبوں کی پولیس فورس کو ملائیں تو بیشتر ملکوں کی فوج کی تعداد سے بڑی پولیس فورس بنتی ہے۔ صرف پنجاب پولیس کی نفری ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ تقابل کے طور پہ یہ ذہن میں رہے کہ آج کل برطانیہ کی فوج کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ آپ کو کہیں اور سے نظام لانے کی ضرورت نہیں۔ اِس پولیس فورس میں سے 107 اچھے ڈی پی اوز چنے جا سکیں تو انتظامی بہتری کے حوالے سے قوم کا آدھا دردِ سر ختم ہو جاتا ہے۔ اِس کے ساتھ یہ بھی کہتا چلوں کہ 107 اچھے ڈپٹی کمشنرز اور 107 اچھے سیشن جج ملک میں لگ سکیں تو اِس ملک کی شکل بدل جائے۔
چکوال سے جان میری چھوٹ نہیں سکتی اور کیونکہ وہاں رہتا ہوں یا جانا پڑتا ہے تو پولیس سے رابطہ کسی نہ کسی حوالے سے رکھنا پڑتا ہے۔ اِس لحاظ سے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ چکوال میں اچھے ڈی پی او لگیں تو لوگوں کے مسائل ختم تو نہ ہوں گے لیکن کسی حد تک لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اچھا افسر وہ ہوتا ہے جو اپنے کام کو جانے اور سمجھے اور جو لوگوں کی بات سن سکے۔ راشی، بد دیانت اور نالائق افسروں سے خدا کی پناہ۔ ایسے افسروں کی حکمرانی میں ماتحت بھی بے لگام ہو جاتے ہیں۔ رشوت اور بد دیانتی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ ٹاؤٹوں کا راج ہوتا ہے اور عام آدمی کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ یعنی ضلع میں ایک افسر یعنی ڈی پی او کے لگنے یا نہ لگنے سے اِتنا فرق پڑ جاتا ہے۔
اتنی لمبی تمہید میں نے اِس لئے باندھی کہ کچھ روز ہوئے ہمارے بلکسر انٹرچینج کے قریب ایک المناک حادثہ ہوا جس میں ایک نوجوان میاں بیوی مارے گئے۔ وہ سڑک کے قریب ایک جوس والے ڈھابے سے جوس پی رہے تھے جب تلہ گنگ کی طرف سے ایک بے تحاشا تیز رفتار بس آئی اور اُنہیں کچل کے رکھ دیا۔ ملاحظہ ہو کہ بس نے سڑک کی بائیں جانب سے آنا ہے، یہ میاں بیوی سڑک کے دائیں جانب جوس سٹال پر کھڑے ہیں اور یہ بس اپنی تیز رفتاری میں دائیں طرف آ کے انہیں روند دیتی ہے۔ ٹکر اتنے زور سے لگتی ہے کہ لڑکی کا سر تن سے جدا ہو جاتا ہے۔ کچھ فاصلے پہ بس رکتی ہے اور جیسے ایسے موقعوں پہ اکثر ہوتا ہے ڈرائیور جائے وقوعہ سے فوراً فرار ہو جاتا ہے۔ لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ میاں بیوی کے گاؤں سے بھی لوگ جائے وقوعہ پہ پہنچ جاتے ہیں۔ ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے۔ گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ ایسے موقعوں پہ دو میں سے ایک چیز ہوتی ہے۔ یا تو پولیس غفلت کی مرتکب ہوتی ہے۔ اُس کا رویہ ٹھیک نہیں ہوتا جس سے موقع پہ موجود لوگوں کا اشتعال بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگر پولیس مستعدی دکھائے نقصان تو ہو گیا ہوتا ہے پولیس کے اچھے رویے سے لوگوں کا اشتعال اور اُن کا غم و غصہ قدرے کم ہو جاتا ہے۔
یہاں پہ ایسا ہی ہوا۔ پولیس فوراً موقع پہ پہنچی۔ موجودہ ڈی پی او چکوال کسی میٹنگ کیلئے لاہور میں تھے لیکن اُنہیں اطلاع ملی تو وہیں سے ہدایات دیں کہ متعلقہ پولیس افسران جائے وقوعہ پہ فوراً پہنچیں۔ جلد ہی ڈی ایس پی ٹریفک، ایک عدد اور ڈی ایس پی اور ایس ایچ او صدر پولیس سٹیشن موقع پر پہنچ گئے۔ لوگوں کو تسلی دی کہ ڈرائیور اور بس والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ ہمارے لوگ عام طور پر پولیس کی یقین دہانیوں پہ اِتنی جلدی یقین نہیں کرتے لیکن اِس حادثے کے حوالے سے پولیس کا رویہ ایسا رہا کہ وہاں موجود ہجوم نے پولیس کی بات مان لی۔ سڑک سے ہجوم ہٹ گیا اور ٹریفک بحال ہو گئی۔ گاؤں والے نہیں چاہتے تھے کہ لاشوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چکوال لے جایا جائے لیکن وہاں پولیس حکام نے اُنہیں قائل کیا کہ مقدمے کے لئے پوسٹ مارٹم رپورٹ کا ہونا ضروری ہے۔ میتوں کو ہسپتال پہنچایا گیا۔ ایم ایس ڈی ایچ کیو چکوال کو اطلاع ہوئی تو اُنہوں نے بھی عملے سے کہا کہ تیزی سے کام کیا جائے۔ شام تک جنازہ ہو گیا اور میتوں کو دفنا دیا گیا۔
یہ ساری روداد بیان کرنے کا مقصد یہ کہنا ہے کہ جہاں ادارے اور محکمے کام کرنا چاہیں وہاں کام ہو جاتا ہے اور اِس بات کو لوگ بھی سراہتے ہیں۔ حالات میں بہتری لانا اِتنا مشکل نہیں ہے لیکن کوئی بتانے اور کہنے والا تو ہو۔ صحیح ماحول بنانا حکمرانی کا کام ہے۔ حکمرانی اچھی ہو تو مخدوش حالات میں بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں