وزیراعظم کہتے ہیں کہ آسٹریلیامیں کوئی وادیٔ کاغان نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی خوبصورتی بے مثال ہے اور اگر سیاحت یہاں فروغ پائے تو ہماری معاشی دشواریاں دور ہو سکتی ہیں۔ درست فرماتے ہیں لیکن اُنہیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ اگر آسٹریلیا میں وادیٔ کاغان اور ہمالیہ کی پہاڑیاں نہیں ہیں تو پھر بھی دنیا کے لوگ ہمارے ملک کو چھوڑ کے آسٹریلیااور اُس جیسے ممالک کا رخ کیوں کرتے ہیں۔ آسٹریلیاکو ایک طرف رکھئے‘ بنکاک اور دبئی کے شہروں میں کون سا قدرتی حسن ہے لیکن اہلِ دنیا وہاں جاتے ہیں اور پاک باسیوں کے دیس سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں ہی اپنی بہتری سمجھتے ہیں۔
سیاحت ڈھیر ساری آرزوؤں کا ایک مرکب ہے۔ دنیا کی سیر کو جو لوگ نکلتے ہیں وہ دنیا کو دیکھنا چاہتے ہیں ‘ اپنی روزمرہ کی روٹین کو چھوڑکے ایک نئے ماحول میں جاکے راحت محسوس کرنا چاہتے ہیں اور سیرپہ نکلے ہوئے لوگوں کو موج میلے کا بھی شوق ہوتا ہے۔اس نصیحت کے مارے معاشرے میں موج میلے کے تمام دروازے نہ صرف ہم نے بند کر دیے ہیں بلکہ اُن پہ بھاری بھاری تالے بھی لگا دیے ہیں۔ ایسے میں کہاں سے ہم اُن بے وقوفوں کو ڈھونڈ کے نکالیں گے جو باقی دنیا کی آسائشوں کو چھوڑ کے اس نصیحت آموز دیس میں آنا چاہیں گے؟
یہاں پہ آکے باہر کا آدمی کرے گا کیا؟ ہمارے اپنے طور طریقے ہوں گے لیکن باہر کی دنیا کے اپنے رسم و رواج ہیں۔ ہمارے مبلغین شام اور رات گزارنے کا ہمیں ایک طریقہ بتاتے ہیں۔ عبادت پہ وہ زور دیتے ہیں اور بجا دیتے ہوں گے لیکن جرمنی ‘ فرانس یا آسٹریلیا کارہنے والا اُس کا شام گزارنے کا یہ تصور تو یقینا نہ ہوگا۔ ہمارے راستے تو صاف متعین ہیں۔ شام کو یا مسجد جائیں یا گھر پہ بیٹھ کے ٹی وی پہ کوئی ساس اور بہو کا ڈرامہ دیکھیں۔ یا انسان پہ کچھ دلیری آجائے تو وہ کڑاہی گوشت یا کوئی دنبے کا پکوان کھانے کیلئے نکل سکتا ہے۔قومی تہوار ہو تو بیشتر آبادی کیلئے یہی راستہ متعین ہے کہ موٹر سائیکلوں کو نکال کے سڑکوں اور شاہراؤں پہ اُدھم مچایا جائے اور بدتمیزی کے مظاہرے کئے جائیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی زیادہ منچلے ہوں تو اپنے چھتو ں پہ چڑھ کے ہوائی فائرنگ شروع کردیتے ہیں۔ باہر کے سیاح کی تو شاید اتنی دلچسپی ہمارے ان مشغلوں میں نہ ہو۔ تو سوال پھریہی بنتا ہے کہ کوئی احمق ساری دنیا چھوڑ کے یہاں آئے گا کیوں۔
سیاح وہاں جاتے ہیں جہاں اُن کی کوئی دلچسپی بنے۔ مارخور کا شکار کرنے والے چترال اور گلگت بلتستان جاتے ہیں۔ کوہ پیماؤں کی دلچسپی ہمالیہ کے پہاڑوں میں ہوتی ہے۔ یہ تو خاص قسم کے سیاح ہوئے لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عام سیاح جس نے نہ خاص شکار کرنا ہے نہ خاص کوہ پیمائی اُس کیلئے پاکستان کے موجودہ معاشرے میں کیا کشش یا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ ایک زمانے کا پاکستان اور قسم کا تھا۔ اُس وقت یہاں باہر کے لوگ بڑے شوق سے آیا کرتے تھے۔ اسلام آباد تب تو تھا نہیں لیکن راولپنڈی‘ لاہور اور کراچی نگاہِ شوق کی منازل ہوا کرتے تھے۔پشاور خاص توجہ کا مرکز تھا۔ درہ خیبر کو دیکھنے کہاں کہاں سے لوگ نہیں آتے تھے۔ پشاور سے لنڈی کوتل ایک ٹرین چلا کرتی تھی‘ بڑے شوق سے اُس ٹرین کا سفر کیا جاتا تھا۔ سب کچھ ہم نے تبدیل کرکے رکھ دیا۔ وہ والا پاکستان سوائے خوابوں کے اور کہیں نہیں رہا۔ جو پاکستان ہماری کوتاہی اور تنگ نظری کے سبب بن چکا ہے اُسے تبدیل کرنے کیلئے ہم تیار نہیں۔ لیکن پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ پرانے وقتوں کی طرح باہر کے لوگ یہاں اُمنڈ اُمنڈ کے آئیں۔ ایساممکن نہیں۔
ضیاء الحق کے زمانے میں اور اُس کے بعد پاکستان توجہ کا مرکز رہا لیکن اُس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔افغانستان میں جب جہاد کا نعرہ لگا تو دنیائے اسلام کے ہر کونے سے یہاں ایک خاص قسم کا سیاح آئے۔ اپنے ملکوں میں تو جہاد کا کوئی موقع تھا نہیں لیکن افغانستان ایک نام نہاد جہاد کا میدان بن گیااور اُس میں شریک ہونے کیلئے کہاں کہاں سے لوگ آنے لگے۔ عرب ملکوں سے آئے ‘ وسطی ایشیا سے آئے‘ انڈونیشیا سے آئے۔ جو افغانستان جانا چاہتے تھے اُن کیلئے پشاور ایک پڑاؤ کی جگہ بن گیا۔ پرانے وقتوں میں جو ہِپی(hippy)قسم کے لوگ آتے تھے اُن کا اپنا ایک موڈ اور مزاج ہوا کرتا تھا۔ وہ امن پسند اور عاشق مزاج قسم کے لوگ تھے۔ چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں میں پڑے رہتے۔ اُن میں سے کچھ یہاں کا لباس اپنا لیتے۔ اُن کیلئے ایک کشش یہ تھی کہ چرس اُنہیں آسانی سے اور سستے داموں مل جاتی۔اُسی میں مگن رہتے۔ نہ کسی سے جھگڑا نہ عناد۔ نام نہاد جہاد کے حوالے سے جو لوگ آئے وہ مختلف تنظیموں کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ اُن کی ٹریننگ کا بندوبست ہو جاتا ‘ اسلحہ سے بھی لیس ہو جاتے اور پھر افغانستان کے سفر کیلئے تیار ہوتے۔ پشاور ایک درختوں بھرا خوبصورت شہر ہوا کرتا تھا۔ آبادی اس کی تقریباً پانچ لاکھ تھی۔ کچھ ہی عرصے میں اُس کی آبادی ڈبل ہو گئی ‘ گاڑیوں کا رش بڑھ گیا ‘ شہر کی خوبصورتی جاتی رہی۔ یہ نئے سیاح اپنی رقابتیں بھی اپنے ساتھ لائے۔ ان کی دشمنیوں کا حساب پشاور کی گلیوں اور سڑکوں نے دیکھا لیکن حلیہ صرف پشاور کا نہ بگڑا پاکستان کا بھی بدل گیا۔
مفروضے کے طور پہ یہ بات مان بھی لی جائے کہ ہم بڑے متقی اور پرہیزگار ہو گئے ہیں لیکن سوال اُٹھتا ہے کہ باقی دنیا کو ہماری مبینہ پرہیزگاری میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟جوسیرسپاٹے کا شوق رکھتے ہیں اُن کے پاس خرچنے کیلئے پیسے بھی ہوتے ہیں۔دنیا کے ممالک ایسے پیسے کو کھینچنے کیلئے اپنی کشش کو بڑھانے کیلئے ہرجتن کرتے ہیں۔دبئی میں نہ تیل ہے نہ ایسا موسم جس سے زراعت ہوسکے لیکن جو سرخی پاؤڈر اپنے حلیے پہ وہ لگا سکتا ہے اُس نے ایسا کیا ہے۔ باہر کی دنیا کیلئے اُس نے اپنے آپ کو پرکشش بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اسی لئے سیر سپاٹا کرنے کیلئے وہاں لوگ جاتے ہیں اور جب جاتے ہیں تو اپنی جیبیں خالی نہ بھی کریں توہلکی ضرورکرتے ہیں۔ سیاحت کی لمبی چوڑی باتیں کرنے والے بتائیں تو سہی کہ ہم نے اپنے آپ کو پرکشش بنانے کی کتنی کوشش کی ہے؟
کوئی بھولا بھٹکا سیاح یہاں آ بھی جائے اور باہر کے کسی ایئرپورٹ کی ڈیوٹی فری شاپ سے وادیٔ سرور میں جانے کیلئے کچھ مناسب سامان اپنے ساتھ لے آئے تو ہمارے ایئرپورٹ پہ وہ ضبط ہو جائے گا۔ پھر کہیں کسی ہوٹل میں قیام کی غرض سے ٹھہرے تو وادیٔ سرورکا سامان پھر بھی اُس کے ہاتھ آسانی سے نہ آئے گا۔پوری دنیا میں ایک تصور نائٹ لائف (night life)کا ہے۔اب لاہو ر‘ کراچی یا اسلام آباد کے کسی ہوٹل میں کوئی سیاح ٹھہرے اور پوچھے کہ یہاں نائٹ لائف کیا ہے تو اُسے کیا جواب ملے گا؟
بات خاصی سادہ ہے۔ یا تو ہم کہیں کہ ہمیں کسی سیاحت واحت کی ضرورت نہیں۔ ہم سیاحت اور اُس کے ڈالروں سے بے نیاز ہیں۔ پھر تو ٹھیک ہے ‘ جو ہم نے اپنے ساتھ کرنا ہے وہ جائز ہے۔ اُس پہ کوئی اعتراض نہیں اُٹھایاجاسکتا۔ لیکن اگر ہم کہیں کہ باہر کے لوگوں کو یہاں آنا چاہئے‘ سیاحت کو فروغ پانا چاہئے ‘ سیاحت کے ڈالر ہماری معیشت کی بہتری کیلئے ناگزیر ہیں تو پھر ہمیں بدلنے کی ضرورت ہے۔جو کشش ہمارے معاشرے میں تھی اُسے اپنے ہاتھوں برباد کردیا۔وہ کشش دوبارہ زندہ نہ ہو توسیاحت کا مرکز یہ پاک معاشرہ کیسے بنے گا؟