آج قومی مفادیہ بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے افغانستان میں مداخلت نہیں کرنی۔ گزرے سالوں میں قومی مفاد یہ تھا کہ ہم نے افغانستان میں بھرپور مداخلت کرنی ہے۔آج قومی مفاد یہ ہے کہ ہندوستان سے تعلقات میں بہتری ہمارے فائدے کی بات ہے۔ کل تک ہندوستان ہمارا ازلی دشمن تھا۔ آج قومی مفاد ہے کہ امریکہ کے ساتھ برابری کے تعلقات ہونے چاہئیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا‘ جب ہم امریکہ کی ہر شے ماننے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ اس تناظر میں یہ پوچھنا بنتا ہے کہ قومی مفاد چیز کیا ہے اور اس کا تخلیق کار کس کو ہونا چاہئے؟ جب جنرل ضیا الحق اور اُن کے ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمارا قومی فریضہ بنتا ہے کہ افغانستان میں لگی ہوئی آگ کو ہم نے مزید بھڑکاناہے تو اُن کو کس کی تائید حاصل تھی؟کیا اُنہوں نے قوم سے اجازت لی تھی یا اُن کا اپنا ہی فیصلہ تھا؟ بہرحال وہ سیاہ وسفید کے مالک تھے اور اُنہی کے فیصلے قومی مفاد کہلاتے تھے۔ پاکستان نے نہ صرف افغانستان کی آگ بھڑکائی بلکہ اپنا یہ اعزاز سمجھا کہ وہ امریکہ کا آلہ کار بن گیا ہے۔ اسلحہ اور ڈالر وہاں سے آتے تھے اور پاکستانی اداروں نے ان کی تقسیم کا ذمہ اپنے سر لیا ہوا تھا۔تب یہ اولین قومی مفاد تھا اور اس پہ سوال اُٹھانا تقریباً غداری کے مترادف تھا۔ آج حالات بدل گئے ہیں اور امریکہ افغانستان سے بھاگ رہا ہے۔ اب ہم افغانستان میں مداخلت کرنا بھی چاہیں تو کیا کریں گے؟ مداخلت کی اوقات نہیں رہی‘ لہٰذا اب قومی مفاد نے ایک کروٹ لی ہے اور ہمارے ذہنوں پہ یہ راز منکشف ہوا ہے کہ افغانستان میں مداخلت اپنی ہی تباہی کا راستہ ہے۔ کچھ پہلے ہم پہ یہ راز کھل جاتا تو ہم بہت سے نقصان سے بچ جاتے۔
ہندوستان سے تعلقات کبھی دوستانہ نہ تھے لیکن تقسیم ِ ہند کے کئی سال بعد تک ہندوستان سے ہمارے معمول کے تعلقات تھے۔ کشمیر کا تنازع ضرور تھا اور اُس پہ ہم ایک جنگ بھی لڑچکے تھے لیکن پھر بھی آنا جانا تھا‘ کچھ تجارت تھی اور کسی نہ کسی سطح پہ بات چیت بھی ہوتی رہتی تھی۔ سارا کام خراب کیا 1965ء کی جنگ نے۔ باقاعدہ جنگ کا آغاز ہم نے نہیں کیا تھا لیکن کشمیر میں چھیڑخانی کا آغاز ہم نے ضرور کیا۔ اس سے حالات بگڑے اور باقاعدہ جنگ تک پہنچ گئے۔ قوم کو سوچنے کا موقع ہی نہ دیاگیاکہ یہ جنگ کیسے شروع ہوئی ہے اور اس کے اصل محرکات کیا ہیں۔ قوم کو فقط یہ بتایا گیا کہ مکار دشمن نے بلاوجہ اور بلااشتعال حملہ کردیا ہے۔ نورجہاں کی مسحور کن آواز میں ادا کئے گئے قومی نغموں نے ہماری عقل کے دروازے مزید بند کردیے۔ جنگ کا نتیجہ کیا نکلنا تھا‘ جیت ہار کسی کی نہ ہوئی لیکن دشمنی کی ایک نئی بنیاد ڈال دی گئی۔ آج کے ہندوستان پاکستان کے تعلقات تقسیم ہند کا شاخسانہ نہیں ہیں یہ دشمنی 1965ء کی جنگ کی پیداوار ہیں۔ لیکن پاکستانی قوم وفادار ٹھہری۔ اُسے جو کہا گیا وہ اُس نے کیااور جو نعرے اُسے دیے گئے وہی نعرے اُس نے جذبات سے بھری آوازوں میں لگائے۔ اُس جنگ کا سب سے بڑا نقصان اس کے خالق جنرل ایوب خان کو ہوا۔ ملک کو جو نقصان ہونا تھا وہ توہوالیکن جنرل صاحب کی شخصیت بھی ہل کے رہ گئی۔ بتدریج اُن کے زوال کے دن سامنے آنے لگے۔ جنگ کا سب سے بڑا فائدہ ذوالفقار علی بھٹو کو پہنچا جو ایک عوامی ہیرو کی شکل میں اُبھرے۔یاد رہے کہ 65ء کی جنگ کا سب سے بڑا اور مؤثر وکیل بھٹو ہی تھا لیکن ہیرو بھی پھر وہی بنا۔ تقریباً55سال بعد ہمیں دھیرے دھیرے یہ عقل آرہی ہے کہ ازلی دشمنی سب سے بڑے ہمسایے کے ساتھ کوئی اتنی دانائی کی بات نہیں۔البتہ یہ بدقسمتی ہماری سمجھی جائے گی کہ 1965ء میں قومی مفاد کی تشریح فردِ واحد کے ہاتھوں میں تھی۔ جنرل صاحب کی حالت تو یہ تھی کہ اُنہوں نے اپنے سارے فوجی کمانڈروں سے بھی مشورہ نہیں کیا تھا۔تب کے ایئرفورس کے کمانڈراِن چیف ایئرمارشل نور خان کو بھی نہیں معلوم تھا کہ قوم کو جنگ کی طرف دھکیلا جار ہاہے۔ آج اگر عقل دھیرے دھیرے آرہی ہے تو اُس کی بڑی وجہ ہمارے حالات ہیں۔مخدوش حالات کی وجہ سے یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ بیکار کی دشمنیاں گھاٹے کا سودا ہیں۔
ایک اور جنگ کا قصہ بھی سبق آموز ہے۔ جنرل مشرف جب فوج کے سربراہ تھے انہوں نے کارگل معرکہ کے بارے میں اپنے تمام کور کمانڈروں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ بس دو تین اعلیٰ عہدوں پہ فائز شخصیات تھیں جو اس راز میں شامل تھیں۔ افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ تب کے وزیراعظم نوازشریف‘ اُن کو بھی حالات کی سنگینی کا بروقت احساس نہ ہوا۔ پہلی بریفنگ جب اُنہیں دی گئی تو اُنہیں یہ پوچھنا چاہئے تھا کہ تمہیں فوجی پیش قدمی کی اجازت کس نے دی ہے۔ جنرل مشرف کو فارغ کرنا تھا تو تب کرتے۔اُس وقت ایسا کرنے پہ ردعمل بھی نہ ہوتا کیونکہ ادارے میں خود حیرانی تھی کہ یہ معرکہ کن وجوہات کی بنا پہ شروع کیا گیا ہے۔ لیکن بجائے صحیح سوال کرنے کے نوازشریف نے یہ پوچھا کہ ہم سرینگر پہ قبضہ کرلیں گے؟ اس احمقانہ سوال کا جواب کسی بڑھک کی صورت میں ہی دیا جا سکتا تھااور واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اُس بریفنگ میں زیادہ تر بڑھکیں ہی ماری گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب میدانِ جنگ کے حالات خراب ہوئے تو پاکستان کو مجبوراً صدر کلنٹن کی منت کرنی پڑی کہ بیچ میں آئیں اور جنگ بندی کرائیں۔ کلنٹن کا جواب تھا کہ واشنگٹن آنا ہے تو ضرور آؤ لیکن اس ضمانت کے ساتھ کہ پیش قدمی ختم کی جائے گی۔ ہماری یقین دہانی کے بعدہی نوازشریف کو اجازت ملی کہ وہ واشنگٹن آئیں۔
لہٰذا قوم کو یہ تو بتایا جائے کہ قومی مفاد نامی چیز کا ٹھیکہ کس کے ذمے ہونا چاہئے۔ نائن الیون کے بعد امریکیوں نے جنرل مشرف سے کچھ مطالبات کئے۔تب کے امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے ایک فون کال کی۔ امریکی بھی حیران رہ گئے جب کسی چون و چرا کے بغیر ہم نے سب مطالبات مان لئے۔ تب یہی قومی مفاد ٹھہرا تھااور قوم کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کے سامنے اور کوئی راستہ نہ تھا۔ آج جس لہجے میں ہم امریکہ کے بارے میں بات کررہے ہیں وہ بہت اچھا ہے لیکن کاش ایسا لہجہ ہم کچھ پہلے اپنا لیتے۔ عراق جنگ کے حوالے سے امریکہ نے ترکی سے بھی کچھ مطالبات کئے تھے لیکن ترکی کا مؤقف تھا کہ ہمیں اپنی پارلیمنٹ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ پارلیمانی بحث کے بعد ترکی نے یہ مطالبہ کیا کہ اگر امریکیوں کو زمینی راستہ چاہئے تو اس کے عوض پچیس بلین ڈالر ترکی کو دیے جائیں۔ امریکی چپ ہو گئے اور بات وہیں ختم ہو گئی۔کچھ تو ٹھہراؤ ہم اپنے میں پیدا کرلیں۔ تنگ دل ہوں تو اتنے تنگ دل نہ ہوں‘ دل پھینک ہوں تو سب کچھ کھول کے نہ رکھ دیں۔
قومی مفاد کے ایک اور کارنامے کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ 1970ء کے انتخاب میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کو سویپ کیا‘ لیکن قومی مفاد یہ ٹھہرا کہ قومی اسمبلی اجلاس نہ بلا یا جائے۔ جنرل یحییٰ خان اور اُن کے ساتھیوں کا یہ فیصلہ تھا اور اُن کے ہمنوا ذوالفقار علی بھٹوتھے۔سکاٹ لینڈ کہہ رہا ہے کہ اُسے برطانیہ سے علیحدگی چاہئے بہرحال وہاں یہ کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی کہ سکاٹ لینڈ میں فوج بھیجی جائے۔ البتہ 1971ء میں ہمارا قومی مفاد یہ ٹھہرا کہ ڈھاکہ میں فوجی آپریشن شروع کیا جائے۔