فی الوقت باقی سب بیکار کی باتیں ہیں۔ اب سے لے کر طالبان کے قبضۂ افغانستان تک ایک ہی موضوع ہے اور وہ ہے افغانستان کی صورتحال۔ اب تو ہر ایک کے ذہن میں بات آجانی چاہئے کہ جن حالات کو امریکی کنٹرول نہیں کرسکے وہ کیا اُن کے پِٹھو کرسکتے ہیں؟ امریکیوں کے بغیرکابل رجیم (regime) کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ کسی دوربین کی ضرورت نہیں یہ سمجھنے کیلئے کہ کابل رجیم امریکی کٹھ پتلی تھی۔ وہ کہاں اِن طالب علموں کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
طالبان کامیاب حکمت عملی سے قدم بڑھا رہے ہیں۔ مختلف اطراف پہ بارڈر پوسٹوں پہ قبضہ کررہے ہیں تاکہ کابل رجیم کا رابطہ پڑوس کے ملکوں سے نہ رہے۔ بارڈر پوسٹوں پہ قبضے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اگر ان حالات میں بھی براستہ اُن پوسٹوں کے کوئی تجارت ہو رہی ہے تو اُس کا پیسہ طالبان کو نہ کہ کابل رجیم کو جائے۔ ساتھ ہی طالبان ہتھیار پھینکنے والے افغان فوجیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کررہے ہیں۔ کوئی ہتھیار پھینکنے والا فوجی مارا نہیں جا رہا، اِس کے برعکس یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ایسے فوجیوں کو کچھ پیسے دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے آبائی علاقوں میں واپس جا سکیں۔ تمام پڑوسی ممالک سے طالبان رابطے میں ہیں: چین، روس اور ایران۔ اور پاکستان سے تو وہ رابطے میں ہیں ہی۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی legitimacy منوائیں تاکہ ایک دم نہیں تو آہستہ آہستہ دنیا یہ باور کرسکے کہ افغانستان کی حقیقی اور نمائندہ حکومت طالبان کی ہی ہے۔
جو علاقے طالبان کے زیرِ کنٹرول آرہے ہیں اُن میں اِنفراسٹرکچر اور سویلین انتظامیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا رہا۔ صرف گورنر تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ باقی حالات جیسے پہلے تھے ایسے ہی چلائے جا رہے ہیں۔ کوئی قاضی عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جا رہا اور کہیں بھی سکول وغیرہ بند نہیں ہو رہے۔شیعہ ہزارہ کے جو وسطی افغانستان میں علاقے ہیں اُن پہ بھی کوئی حملے نہیں ہو رہے۔ کوشش یہی ہے کہ پُرامن طور پہ یہ علاقے طالبان کنٹرول میں آجائیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ پورے افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات ختم نہیں ہوئے‘ تو بہت کم ضرور ہو گئے ہیں۔ سویلین ٹارگٹوں کو کسی حملے کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ اِسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ کسی وسیع پیمانے پہ نقل مکانی کی اطلاعات افغانستان سے نہیں آ رہیں۔ نہ ہی ایسے منظر دیکھنے میں آرہے ہیں کہ پناہ گزینوں کے ریلے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہوں۔ ایسی کوئی اطلاع نہیں۔ قتل و غارت کے واقعات ہوتے یا خانہ جنگی کا ڈر ہوتا تو آبادی کی نقل مکانی شروع ہو جاتی‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
امریکی انخلا اگست کے آخر تک مکمل ہوگا اور شاید طالبان کو اِسی مرحلے کا انتظار ہے۔ ابھی تک صوبائی دارالحکومتوں پہ کوئی حملہ نہیں ہو رہا اور نہ کابل کی طرف پیش قدمی کی جا رہی ہے۔ کوشش یہ لگتی ہے کہ کابل پہ حملے کے بجائے اشرف غنی رجیم خود بخود implode ہو جائے۔ اگست تک باہر جانے کا راستہ کابل ایئرپورٹ ہی رہ جائے گا اور جوں جوں یہ تاریخ قریب آئے گی کابل رجیم کے سرکردہ رہنمائوں پہ نفسیاتی پریشر بڑھے گاکہ وہ کابل سے فرار کی سوچیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تب تک جلال آباد اور طورخم کا راستہ بھی طالبان کے کنٹرول میں نہیں تو اُن کے زیر اثر آچکا ہوگا۔ ایسی صورتحال میں کابل سے باہر جانے کے تمام زمینی راستے بند ہو چکے ہوں گے۔
یہ سب فضول کی باتیں ہیں کہ کسی سیاسی معاہدے کے تحت کوئی متفقہ حکومت کابل میں قائم ہو جائے۔ جب تک امریکی انخلا مکمل نہیں ہوتا‘ ایسے خیالی پلاؤ پکتے رہیں گے لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے امید یہ کی جا سکتی ہے کہ اگست کے آخر تک ایسی سب باتیں دم توڑ جائیں گی۔ طاقت طالبان کی ہے۔ بندوق اُن کے ہاتھ میں ہے۔ حوصلے اُن کے بلند ہیں۔ جن کا پلڑا میدانِ جنگ میں بھاری ہو وہ بیکار کی باتوں میں نہیں پڑتے۔ متفقہ حکومت بننی تھی تو دس سال پہلے بنتی جب تقریباً ایک سے ڈیڑھ لاکھ امریکی فوجی افغانستان میں موجود تھے۔ جب وہ جا رہے ہیں اور امریکہ کیا دنیا اُن کی شکست کو تسلیم کررہی ہے‘ اب کون سا فیصلہ طالبان پہ ٹھونسا جا سکتا ہے۔ اب تو فیصلے اُنہی کے ہیں اور یہ اُن کی کامیاب حکمت عملی دکھائی دیتی ہے کہ وہ فضول کی خون ریزی سے پرہیز کررہے ہیں۔ یہ تو چینی مفکر سن زو (Sun Tzu) نے صدیوں پہلے کہاتھا کہ بہترین فتح وہ ہے جسے لڑائی کے بغیر حاصل کیا جائے۔ ایسی فتح ہم افغانستان میں دیکھ رہے ہیں۔ زیادہ تر کامیابیاں جو طالبان کی ہو رہی ہیں وہ بغیر لڑے ہو رہی ہیں‘ لہٰذا یہ تمام قیاس آرائیاں غلط مفروضوں پہ مبنی ہیں کہ افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ ایسا قطعاً نظر نہیں آرہا۔ خانہ جنگی ہونا ہوتی تو اُس کی شروعات ہو گئی ہوتی۔
ایک وجہ طالبان کی کامیابی کی یہ ہے کہ وہ کسی سے گائیڈنس یا ڈکٹیشن نہیں لے رہے۔ امداد اِدھر اُدھر سے لے رہے ہوں گے لیکن سوچ اُن کی اپنی ہے، اہداف وہ خود متعین کررہے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ اُنہوں نے افغانستان کی حالیہ تاریخ اور اپنے تجربوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ آخری مستحکم حکومت جو افغانستان نے دیکھی وہ ظاہر شاہ کی تھی۔ اُس دور میں افغانستان میں مکمل امن قائم تھا اور افغانستان کے تعلقات روس اور امریکہ‘ دونوں سے تھے۔ پاکستان سے تعلقات میں تناؤ رہتا تھا لیکن تجارت چلتی تھی اور لوگو ںکا آنا جانا بھی تھا۔ جب 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد انڈیا کا بارڈر بند ہو گیا تو سیر و تفریح کیلئے پاکستانی افغانستان کا رخ کرتے تھے۔ پشاور سے صبح 9 بجے ہماری گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی ایک بس کابل کیلئے نکلتی تھی۔ مجھے اُس بس پہ بیٹھنے کا تجربہ ہوا تھا۔ کابل کا ٹکٹ 32 روپے تھا۔ پہلا پڑاؤ جلال آباد ہوتا اور پھر کابل گورج (Kabul Gorge) کی پہاڑیوں میں سے گزر کے کابل کی طرف بس نیچے کو اُترتی۔
افغانستان کے ساتھ ظلم کیا تو ظاہر شاہ کے کزن سردار داؤد نے جس نے افغان فوج میں کمیونسٹ افسروں کی مدد سے اپنے چچا زاد کی حکومت کا تختہ اُلٹا۔ اُس دن کے بعد سے افغانستان کو چین نصیب نہیں ہوا۔ سردار داؤد کا تختہ کمیونسٹوں نے1978ء میں الٹایا۔ اقتدار میں آتے ہی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان‘ جس کے اُس وقت کے سربراہ نور محمد ترکئی تھے‘ نے ایسے اقدامات کیے کہ پورے ملک میں بدامنی پھیلتی گئی۔ نیت اُن نوزائیدہ کمیونسٹوں کی ٹھیک ہو گی لیکن افغانستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں راتوں رات انقلاب لانے کی سعی تباہ کن تھی۔ ترکئی کو اُن کے نائب حفیظ اللہ امین نے اقتدار سے ہٹایا۔ امین سے حالات نہ سنبھلے تو روس نے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اُس دن سے لے کر آج تک افغانستان قتل و غارت کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔ بیچ میں طالبان بھی آئے لیکن جیسے کمیونسٹ بائیں بازو کے انتہا پسند تھے تو طالبان دائیں بازو کے انتہا پسند تھے۔ نہ کمیونسٹوں کی سوچ میں لچک تھی نہ طالبان کی سوچ میں۔
اِس خونیں تاریخ کے بعد وقت کی گھڑی اپنے پرانے مقام پہ پہنچ رہی ہے۔ جنگ و جدل اور طرح طرح کی بیرونی مداخلتوں کے بعد اب ایسا لگ رہا ہے کہ افغانستان کو تقریباً نصف صدی کے بعد پھر سے استحکام نصیب ہو گا۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب کابل میں ایک مضبوط حکومت ہو جو پورے ملک کو اپنے کنٹرول میں لا سکے۔ طالبان کی حمایت یا مخالفت کا سوال نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حالات کہاں جا رہے ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ طالبان کا مکمل قبضہ افغانستان پہ ہونے جا رہا ہے۔