حسنِ اتفاق سے ایم این اے منتخب ہوئے تو ایک خیرخواہ نے نصیحت کی کہ ایک احتیاط ضرور کرنا۔ ایک فون روزمرہ کے کام کاج کیلئے رکھنا اور دوسرا فضولیات کیلئے اگر اُن سے باز نہیں آسکتے۔ پہلے تو غصہ آیا لیکن پھر دیکھا کہ نصیحت کارآمد ہے۔ دن بھر کی مصروفیات کے بعد شام کو جب اکیلے ہوتے تو طبیعت اِدھر اُدھر ہونے لگتی‘ لہٰذا اِسی میں بہتری سمجھی کہ دو فون رکھ لئے جائیں۔
لیکن جلد ہی احساس پیدا ہوا کہ دو فونوں والا ہنر ہم میں نہیں۔ کام کاج کی کالیں کبھی دوسرے فون پہ ہو جاتیں اور بظاہر رازداری کی باتیں روزمرہ کے فون پہ کر دیتے۔ اِس بے ہنری کے سبب دو فونوں والا تجربہ کچھ عرصے بعد ترک کر دیا اور گزارہ پہلے کی طرح ایک ہی فون پہ ہونے لگا یعنی سیاست اور عارضۂ قلب کے مسائل ایک ہی پرانے قسم کے فون پہ نمٹتے رہے۔ کئی دفعہ مختلف اِطراف سے کانوں میں کھسر پھسر کی گئی کہ فلاں خفیہ والے کہہ رہے ہیں کہ ایم این اے صاحب کچھ تو احتیاط برتا کریں۔ بات سمجھ میں نہ آئی کیونکہ نہ تو اپنے پاس کوئی ایسے راز تھے جو اگل سکتے نہ قصۂ ٹھیکیداری یا اُس سے منسلک کاموں سے کوئی خاص شغف تھا۔ یہی ہوتا کہ شام کو کام کاج کے بعد جب ہلکی سی کیفیت میں آتے تو اِدھر اُدھر فون کرنے کو جی چاہتا۔ بہت سے المیوں میں ایک المیہ تو ہمارے ملک کا یہ ہے کہ جن کا کام کان لگائے باتیں سننے کا ہے، یعنی حافظانِ ملت و اخلاقیات، اُن کی زیادہ دلچسپی چسکے اور چٹخارے کی باتوں میں لگی رہتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے احتیاط کا کبھی زیادہ نہیں سوچا۔ ویسے بھی تمام عمر ہماری حرکات چھوٹی موٹی قسم کی رہی ہیں۔ نہ بم اڑائے ہیں نہ کوئی قلعے فتح کئے ہیں۔ کسی نے ہمارے راز افشا کرنے ہیں تو اِسی ایک فون کو پکڑ لیں اور اِس میں پنہاں تمام مواد کو ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ سب کچھ سامنے آ جائے گا اور سب کچھ سامنے آنے سے شاید ہمارے اعمال پہ رحم بھی آ جائے۔
فون کی یادداشت (memory) میں سوائے گانوں اور موسیقی کے اور کچھ نہیں۔ دیگر خصلتوں سے انکار شاید ممکن نہ ہو لیکن بلیو قسم کے آرٹ میں کبھی دلچسپی نہیں رکھی۔ ایسی مکمل فلم زندگی میں شاید کبھی دیکھی نہ ہو ماسوائے ایک فلم کے جو اس زمرے میں نہیں آتی کیونکہ اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حقیقت پہ مبنی ہے۔ یہ مختصر سی فلم اُن دنوں کی ہے جب مشہور انڈین فلم ایکٹریس یا یوں کہئے سپر سٹار مادھوری ڈکشٹ فلموں میں آنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ جیسا کہ عام سمجھا جاتا ہے فلم اور تھیٹر کی دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لیے اکثر بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ جس مختصر سی فلم کا ذکر ہو رہا ہے وہ بھی شاید ایسے ہی سلسلے کی ایک کڑی ہو البتہ مادھوری ڈکشٹ چونکہ بہت بڑی آرٹسٹ ہیں کیمرے کے سامنے جب بھی اُنہوں نے کچھ پرفارم کیا کمال کا کیا۔ اِس فلم میں بھی اُن کی کارکردگی اِسی زمرے میں آتی ہے۔
جہاں تک فون کالوں کی یادداشت کا تعلق ہے‘ اُس میں بھی ہم قدامت پسند ثابت ہوئے ہیں۔ وہ اِس لحاظ سے کہ جو جان پہچان ہے پرانی جان پہچان ہے۔ پوری کالوں کی تاریخ کو چھان ماریں وہی دو تین نمبر اسلام آباد کے ہوں گے، دو تین چکوال کے اور دو تین یا شاید چار پانچ لاہور کے۔ زمانہ بیت گیا عمر خاصی دراز ہو گئی لیکن اِسی محدود جان پہچان پہ اکتفا کیا۔ شاید نئے دوستوں کو آزمانے کو دل نہ چاہتا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دل میں ڈر ہو کہ نئے کو آزمانے میں کیا رکھا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ عادات پکی ہو جاتی ہیں۔ پرانے دوستوں کو آپ جانتے ہیں وہ آپ کے مزاج سے آشنا ہوتے ہیں۔ اِس لئے جو ہے وہی کافی ہے۔ ویسے بھی اتنی دوستی کے ہم قائل نہیں۔ اکثر شامیں اپنی ہی ہوتی ہیں، یعنی تنہائی میں گزرتی ہیں۔ اِس تنہائی کو کوئی توڑے بھی تو کم از کم زبان خوش گفتار ہو‘ انداز خوش مزاج ہو اور چہرہ اور کچھ نہیں تو خوشگوار ہو۔ نہیں تو اپنا ہی چہرہ کافی ہے۔ اُسی کو آئینے میں دیکھ کے زمانے کی بے رحم رفتار کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ فضول کالوں کا معمول روز کا نہیں کبھی کبھی ہوتا ہے۔ غالب نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے جس میں تذکرہ ہے روزِ ابر اور شب مہتاب کا۔ ایسی شب میں ہی دل میں ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ ایسی شب کے لوازمات پورے کریں تو کیفیت بھی خاص ہو جاتی ہے۔ تب ہاتھ فون کی طرف جاتا ہے اور بھولے بسرے نمبر یاد آنے لگتے ہیں۔ اگلے کا موڈ جو بھی ہو آپ دیوانِ غالب سنانے پہ مُصر ہوتے ہیں۔
ایک بات البتہ اب تک سمجھ میں نہیں آئی۔ تاریخِ مغرب اور تاریخِ مشرق میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ وہاں بہت سے پرانے اور مشہور معاشقوں کا ذکر تاریخ کے اوراق میں ملتا ہے۔ مثال کے طور پہ مصوری میں ایسی بہت سی تصاویر ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں چہرہ فلاں ماڈل لڑکی کو سامنے رکھ کے پینٹ کیا گیا تھا۔ بڑے بڑے زعما کے دل کے معاملات کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے لیکن یہاں دیکھئے حافظ شیرازی کہتے ہیں کہ 'شیراز کی اُس ترک دوشیزہ کے گال کے کالے تل کے عوض میں سمرقند و بخارا بخش دوں‘۔ حافظ کے اِس شعر کی دھوم زمانوں سے سنائی دے رہی ہے لیکن کہیں بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ وہ ترک دوشیزہ تھی کون۔ کیا نام تھا اُس کا، کیا تھے اُس کے خدوخال۔ لیکن دیکھئے حافظ کا کمال کہ اپنے گمنام محبوب کو اُس نے اِتنی شہرت عطا کر دی جتنی کہ پرانے سمرقند اور بخارا کی ہے۔
اپنے بارے میں البتہ یہ بھی کہنا پڑے گا کہ اگر حسرتیں جواں بھی ہوں خطرہ یہ آن پڑا ہے کہ وجودِ بد بخت میں لغز ش نہ آ گئی ہو۔ کچھ شامیں ہوئیں گاؤں کے مسکن میں گانے وانے سن رہے تھے۔ ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ کھانے کا وقت آیا تو کہا کمرے میں نہیں اپنا چھوٹا سا جو باغیچہ ہے اُس میں سے ہوتے ہوئے مٹی کی لپائی میں سجا ہوا جو ہمارا ڈائننگ روم ہے وہاں کھائیں گے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن چلئے ترنگ میں ہی ہوں گے۔ پہلے قدم ایسے لئے جیسے کوئی فاتح چل رہا ہو لیکن کیا منحوس لمحہ تھا وہ کہ کچھ ہی قدم چلے تھے کہ گھاس پہ پھسلن ہوئی اور سارا ترنگ زمین بوس ہو گیا۔ بمشکل اُٹھائے گئے تو احساس ہوا کہ پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔ کچھ دن بعد بڑے بیٹے نے فون کیا اور کہا: بابا اِس عمر میں تو کچھ خیال کر لیا کریں۔ خاصا غصہ آیا کہ اب ایسی باتیں بھی سننا پڑ رہی ہیں لیکن غصہ پینے کے سوا چارہ کیا تھا۔ شاہسوار گھوڑے سے گر جائے یا مردِ میدان پھسلن کا شکار ہو جائے تو باتیں سننا پڑتی ہیں۔
بہرحال پھر بھی مولا کا شکر ہے۔ وسیلۂ روزگار ایسا عطا کیا ہے کہ ہم ٹیلی ویژن پہ بیٹھ کہ یا بذریعہ کالم نگاری قوم کی اصلاح اور بہتری کے وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔ اپنی بہادری کے بھی قائل ہیں اِس بنا پہ کہ اپنی تو اصلاح نہیں کر پائے لیکن قوم کی اصلاح کی فکر ہمہ وقت لاحق رہتی ہے۔ خیر ہماری اصلاح کا تو اب وقت نہیں رہا لیکن شاید قوم ہی ٹھیک ہو جائے۔ اِسی امید پہ جی رہے ہیں۔