ایک تو افغانستان کے طالبان ہیں جن کا زور بڑھ رہا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں سب سے بڑی طاقت وہ ہیں۔ اُن کا مطمح نظر پورے افغانستان پہ قبضہ ہے۔ دوسرے طالبان وہ ہیں جو اپنے آپ کو یہاں کا کہتے ہیں اور جن کی تنظیم ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی۔ ہمارا مسئلہ افغانستان کے طالبان نہیں بلکہ ہمارا مسئلہ یہ اپنے طالبان ہیں جن کی جنگ پاکستان سے ہے۔ وہ یہاں ہر چیز کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں اور اپنا نظام قائم کرنے چاہتے ہیں۔
2014ء تک پورے قبائلی علاقے میں ٹی ٹی پی کا راج قائم تھا اور اُن کا حکم چلتا تھا۔ ریاست ِپاکستان کا وجود قلعوں اور چیک پوسٹوں تک محدود تھا، باہر کا علاقہ ٹی ٹی پی کے کنٹرول میں تھا۔ قبائلی علاقے میں اور خاص طور پہ شمالی وزیرستان میں اُن کے اڈے تھے اور وہاں سے اُن کے حملوں اور دہشت گردی کا جال پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ کوئی علاقہ اُن کی دہشت گردی سے محفوظ نہیں تھا۔ جی ایچ کیو تک پر اُنہوں نے حملہ کر دیا تھا۔ بنوں جیل پر دھاوا بولا اور اپنے بندے وہاں سے رہا کروائے۔ شمالی پنجاب میں کامرہ ایئربیس اور کراچی میں مسرور ایئربیس پہ اُن کے حملے ہوئے۔ غرضیکہ اُن کی شروع کی ہوئی جنگ سے پورا ملک ہل کے رہ گیا تھا۔
سوات آپریشن ہوا، جنوبی وزیرستان میں آپریشن ہوا اور گو ٹی ٹی پی کو بھاری نقصان پہنچا‘ اِس تنظیم کا وجود شمالی وزیرستان میں قائم رہا۔ بالآخر جب پانی سر تک تقریباً پہنچ چکا تھا ریاستِ پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف بھرپور آپریشن کرنا پڑا۔ شمالی وزیرستان میں فوج کی پیش قدمی ہوئی، ٹی ٹی پی کے قبضے سے علاقے آزاد کرائے گئے۔ میرم شاہ بازار‘ جو کھلم کھلا ٹی ٹی پی کے کنٹرول میں تھا‘ کو تباہ کیا گیا۔ اِس آپریشن میں پاکستان ایئرفورس نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ بہت سے ایسے پہاڑی ٹھکانے تھے جن پہ ہوائی حملے پہلے ہوتے اور فوج پیش قدمی بعد میں کرتی۔ اُس وقت تک ہماری ایئرفورس کی ایک یہ کمزوری تھی کہ ایف سولہ طیاروں کے پاس نائٹ ویژن صلاحیت نہ تھی۔ امریکیوں نے شاید یہ صلاحیت ہمیں نہ دے رکھی تھی لیکن اُس آپریشن کے دوران نائٹ ویژن صلاحیت کا بھی استعمال ہونے لگا اور اِس سے ٹی ٹی پی کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اِس صلاحیت سے دن اور رات کا فرق مٹ گیا۔ پہلے رات کے اندھیرے میں میدانِ جنگ کے بادشاہ ٹی ٹی پی کے جنگجو ہوتے تھے۔ نائٹ ویژن صلاحیت نے اِن کی یہ بادشاہت ختم کردی۔
ٹی ٹی پی کے جنگجو شمالی وزیرستان سے بے دخل ہو گئے۔ اپنے بڑے مراکز اُن کو چھوڑنے پڑے۔ کاری ضربیں ضرور لگیں لیکن ٹی ٹی پی تباہ نہیں ہوئی۔ طاقت جو اُس کی بچی ڈیورنڈ لائن کے اُس پار افغانستان میں منتقل ہو گئی۔ وہاں پہاڑوں اور وادیوں میں اُنہوں نے اپنے ٹھکانے بنائے‘ جہاں وہ ابھی تک موجود ہیں۔ یہ قیاس کی باتیں ہیں کہ اُنہیں کس کی امداد مہیا رہی ہے۔ ہندوستان نے ضرور اُن کی مددکی ہوگی۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس نے بھی ٹی ٹی پی کو سپورٹ کیا ہوگا‘ لیکن طاقت سے زیادہ ٹی ٹی پی کے ارادے قائم ہیں اور یہ ارادے وہی ہیں جو پہلے تھے۔ کسی کو اِس بارے شک ہو تو ٹی ٹی پی کے سربراہ نورولی محسود کا سی این این کو دیا گیا انٹرویو تمام شکوک دور کرنے کیلئے کافی ہے۔ یہ انٹرویو یو ٹیوب پہ موجود ہے اور جن لوگوں کی دلچسپی ایسے امور میں ہے‘ اُنہیں ضرور دیکھنا چاہئے۔ دیگر باتوں کے علاوہ نورولی برملا کہتا ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو آزاد کرائیں گے اور وہاں اپنا شرعی نظام قائم کریں گے۔
ٹی ٹی پی کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں البتہ ہمارے لئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر طالبان کی حکومت کابل میں قائم ہوتی ہے تو اُس کا رویہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا ہوگا۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کی فرنچائز ہے۔ ایسی باتوں میں کیا حقیقت ہے وہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ابھی سے شمالی وزیرستان کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ آئے روز ہماری سکیورٹی فورسز پہ حملے ہوتے ہیں۔ جانوں کا ضیاع ہوتا رہتا ہے۔ فوج کو چوکنا رہنا پڑ رہا ہے۔ بارڈر پہ باڑ لگائی جا رہی ہے لیکن وہ علاقہ ہی ایسا ہے کہ باڑ لگا کے بھی افغانستان سے مکمل طور پہ آمدورفت کا بند کیا جانا آسان کام نہیں۔
بہرحال ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جب طالبان افغانستان میں برسرِ اقتدار آتے ہیں تو ٹی ٹی پی کے ساتھ وہ کیا رویہ رکھتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو لگام ڈالتے ہیں یا کھلی چھٹی دیتے ہیں؟ پاکستان کیلئے سب سے اہم سوال یہ ہے۔ اِس میں تو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ طالبان کی فتح سے ٹی ٹی پی کے حوصلے بڑھیں گے اور یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ ان کی کارروائیوں میں شدت آ جائے گی۔ اِسی لئے حیرانی کی بات یہ ہے کہ گو کسی نہ کسی سطح پہ پاکستان افغان طالبان کی معاونت کرتا رہا ہے‘ پاکستان کو کوئی ضمانت نہیں ملی کہ ٹی ٹی پی کی کارروائیاں بند کی جائیں گی اور ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چین بھی یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ چین مخالف ترکمانستان تحریک کو افغانستان سے کوئی امداد مہیا نہ ہو۔ طالبان چین کو تو یہ ضمانت دے سکتے ہیں کیونکہ چین سے اچھے روابط چاہتے ہیں۔ کیا پاکستان کو ایسی ضمانت مل سکتی ہے؟
یہ بھی یاد رہے کہ موجودہ ٹی ٹی پی کے سربراہ نورولی محسود نے اپنی تمام تعلیم پاکستان میں حاصل کی۔ وہ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور کراچی کے مختلف مدرسوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ یعنی دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے یہ فصلیں ہماری اپنی بوئی ہوئی ہیں۔ یہ تو کوئی ڈھکی چھی بات نہیں کہ طالبان کے اکثر لیڈر اکوڑہ خٹک کے پڑھے ہوئے ہیں۔ ولی محسود فرفر اردو بولتا ہے۔ یہی حال دیگر طالبان لیڈروں کا ہے۔ 1974ء میں جب میں کابل پہلی بار گیا شاذونادر ہی کوئی اردو بولتا تھا۔ اب کابل اردو شہر بن چکا ہے۔ اردو کے سہارے آپ آسانی سے چل پھر سکتے ہیں‘ لیکن بات صرف اردو تک نہیں رہی۔ جہاد کے نام پہ پاکستانی سرزمین پہ فتنے تیار ہوئے اور ایسے فتنے نہ صرف افغانستان میں کارآمد ثابت ہوئے بلکہ اُن فتنوں کے شرر نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔ یہ بات ہم کب سمجھ پائیں گے؟
نام نہاد جہاد کو ایک ایکسپورٹ آئٹم کے طور پہ ہم نے تیار کیا۔ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ یہ ایکسپورٹ آئٹم ہمارے گلے ہی پڑے گا۔ لشکر اور تنظیمیں کچھ افغانستان کیلئے تیار ہوئیں کچھ کشمیر کیلئے۔ حاصل کچھ نہ ہوا۔ نہ افغانستان میں کچھ پا سکے نہ کشمیر آزاد ہوا۔ البتہ اپنی تباہی کا سامان ہم نے خوب اکٹھا کیا۔ ہمارے مسخ شدہ چہرے کے کئی اسباب و محرکات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ ہماری افغانستان میں دخل اندازی ہے۔ افغانستان کے ساتھ بارڈر تو ایران کا بھی ہے‘ لیکن شروع دن سے ایران نے افغانوں کو وہ آزادیاں مہیا نہ کیں جو بلا سوچے سمجھے ہم نچھاور کرتے رہے۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا ذہن واضح ہے۔ حالیہ دنوں میں افغانستان پہ اُنہوں نے خاصا اظہارِ خیال کیا ہے اور جو باتیں کر رہے ہیں صحیح کر رہے ہیں۔ تو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔