نام نہاد جہاد کے ادوار میں ہمارے ریاستی ادارے افغانستان کو اور نظروں سے دیکھتے تھے۔ پتا نہیں اُنہوں نے یہ دانش کہاں سے پائی تھی لیکن ہمارے ریاستی پاسبانوں نے افغانستان اور اُس کے مسائل کو گلے سے لگا لیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ریاستی ادارے سمجھتے تھے کہ ہماری بقا افغانستان میں ہے۔ کس منطق کے تحت وہ اِس نتیجے پہ پہنچے اب تک ایک معمہ ہے لیکن جنرل ضیاء اور اُس کے بعد کے ادوار میں اِسی پالیسی پہ ریاستِ پاکستان کاربند رہی۔
نتیجہ اِس شاندار سوچ کا یہ نکلا کہ افغانستان کے مسائل کو ہم پاکستان میں گھسیٹ لائے اور اِن مسائل کو اپنے مسائل بنا لئے۔ یعنی وہاں پہ زور مذہبی انتہا پسندی کا تھا اور ہمارے ہاں بھی وہ تنظیمیں جو مذہب کا نعرہ لگاتی تھیں اُن کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ البتہ باتیں جہاد کی تھیں لیکن اِن باتوں کے پیچھے باہر کے ڈالر اور ریال تھے۔ اِس مالی معاونت کے بغیر وہ جہاد کامیاب نہ ہوتا۔
9/11 کے بعد تو ہم نے کمال ہی کر دیا۔ ایک طرف افغانستان پر امریکی حملے کے ہم کلیدی معاون تھے اور دوسری جانب جب القاعدہ اور طالبان نے افغانستان سے اپنے ٹھکانے ہمارے قبائلی علاقوں میں منتقل کئے تو ہم نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ کمال ہمارا یہ تھا کہ اُن ٹھکانوں کی منتقلی کے نتائج ہم سمجھ نہ سکے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کا کنٹرول بڑھتا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ قبائلی علاقوں میں حکم طالبان اور القاعدہ کا چلنے لگا۔ پاکستانی ریاست کی موجودگی وہاں واجبی سی ہو گئی۔ جب لال مسجد آپریشن کے بعد تحریکِ طالبان اور القاعدہ نے ریاستِ پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا تو قبائلی علاقوں کو اپنا محور بناتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات پورے پاکستان میں ہونے لگے۔ پشاور اِن حملوں کا خاص ٹارگٹ تھا اور 2014ء سے پہلے یوں لگتا تھا کہ پشاور ایک محصور شہر بن چکا ہے۔ 2014ء میں جا کے ہمارے ریاستی اداروں کی آنکھیں کہیں کھلیں اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مذہبی اصطلاحوں میں ڈوبی ہوئی دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ بھرپور جنگی اقدامات کے بعد مذہبی دہشت گردی کا زور ٹوٹا اور طالبان اور القاعدہ کو قبائلی علاقوں میں اپنے ٹھکانے چھوڑنا پڑے۔ جیسے پہلے یہ عناصر افغانستان سے پاکستان منتقل ہوئے تھے اب اِن کو اپنی حفاظت کیلئے الٹا سفر کرنا پڑا۔
امریکیوں کے خلاف بیس سالہ مزاحمت کے بعد طالبان ایک بار پھر اقتدار کے دروازے پہ دستک دے رہے ہیں۔ پورے افغانستان میں اُن کی پیش قدمی جاری ہے اور صرف وقت کا تعین کرنا باقی ہے کہ ان کا تسلط پورے افغانستان پہ کب ہوتا ہے‘ لہٰذا اگر پرانے وقتوں اور اب میں کوئی فرق ہے تو وہ کیا ہے؟
فرق یہ ہے کہ گزرے وقتوں میں افغانستان اور اُس کے مسائل کو ہم نے گلے لگا لیا تھا جبکہ اب افغانستان کو ہم قدرے بہتر سمجھنے لگے ہیں۔ افغانستان سے نمودار ہونے والے ممکنہ خطرات کا ہم بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ پہلے ہم نے وہاں کی انتہا پسندی کو جگہ دی اور تحفظ فراہم کیا۔ اب ہم سہمے ہوئے ہیں۔ پہلے ہم نے ڈھول کی تھاپ پہ افغان پناہ گزینوں کا خیرمقدم کیا تھا اور انہیں پورے ملک میں گھومنے کی آزادی مہیا کی تھی۔ اب ہم مزید پناہ گزینوں کی آمد سے خائف ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے بارے میں بھی ہم ہوشیار ہیں۔ ٹی ٹی پی نے ہمارے ریاستی اداروں پہ ابھی سے حملے شروع کر دیئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے حملے ہیں لیکن اِن میں تواتر سے جانی نقصان ہو رہا ہے۔ ماضی کو پرکھیں تواگرکچھ مصیبتیں ناگہانی تھیں تو کچھ مصیبتیں ہم نے خود اپنے سرلیں۔ بہت سی آزمائشوں سے ہمیں گزرنا پڑا لیکن اِس سفر کی بدولت افغانستان کے بارے میں ہماری سمجھ قدرے بہتر ہو گئی ہے۔ القاعدہ اور ٹی ٹی پی نے اپنے ٹھکانے پھر سے بنائے تو اپنے زور پہ بنائیں گے، اُنہیں کوئی دعوت نہیں ملے گی۔ پہلے ہم جہاد کے بخار میں مبتلا تھے۔ نام نہاد جہادی عناصر ختم نہیں ہوئے لیکن کافی حد تک جہاد کا بخار اُتر چکا ہے۔ جہاد کے نام پہ ہم بہت مزے چکھ چکے ہیں اور مزید چکھنے کی ہم میں سکت نہیں رہی۔
یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ہمارے عسکری ادارے کٹھن جنگی تجربات سے گزرکر battle-hardened ہوچکے ہیں۔ شروع شروع میں قبائلی علاقے میں آپریشنوں کیلئے ہمارے فوجی دستے تیار نہ تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں جب پہلی یونٹیں اُن علاقوں میں گئیں تو اُنہیں بھاری نقصانات اُٹھانے پڑے۔ اب وہ کیفیت نہیں۔ جسے انگریزی میں terrain کہتے ہیں اُس کی اب بہتر سمجھ ہماری فوج رکھتی ہے۔ اُن علاقوں میں کیسے آپریٹ کرنا چاہئے اُس کی اچھی خاصی جانکاری ہوچکی ہے۔ جیسا ہم جانتے ہیں ٹی ٹی پی بطور ایک فوجی قوت ختم نہیں ہوئی لیکن اُس کا سامنا کرنے کیلئے ہماری فورسز بہتر طور پہ تیار ہیں۔
جب دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمارے سر آن پڑی تو اندرونی طور پہ ہمارے دہشت گردی مخالف ادارے برائے نام کے تھے۔ نہ تجربہ نہ تربیت نہ دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں بنیادی انفارمیشن یا ڈیٹا۔ اِن سب چیزوں میں مثالی کیفیت تو نہ حاصل ہوئی ہوگی لیکن بہتری ضرور آئی ہے۔ تو دیکھتے ہیں آنے والے وقت میں کیا ہوتا ہے۔ یہ آنے والا وقت دور بھی نہیں، افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر یہ وقت ہمارے اوپر آنے والا ہے۔ ٹی ٹی پی نے اپنے ارادے ابھی سے واضح کر دیئے ہیں۔ اِس کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود نے سی این این کو اپنے دیئے گئے انٹرویو میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ ٹی ٹی پی کا عزم ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو 'آزاد‘ کیا جائے۔ یعنی ابھی سے اعلانِ جنگ کررہے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اب ہماری آنکھیں کھلی ہیں۔ اگر خطرہ ہے تو اُس کا ادراک بھی ہے۔ یہ احساس بھی ہے کہ اس جنگ میں ہم اکیلے ہیں۔ ہمارے ساتھ کوئی نہیں۔ جو کرنا ہوگا اپنے زورِ بازو پہ کرنا ہوگا۔ ایک لحاظ سے یہ اچھی چیز ہے۔ اپنے پہ ہوں تو خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ خود اعتمادی کی ہمیں خاصی ضرورت ہے۔
بنیادی مسئلہ البتہ دوسرا ہے۔ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں ہماری فوج حالتِ جنگ میں ہے‘ لیکن آپ اسلام آباد میں ہوں یا پنجاب کے بڑے شہروں میں‘ وہاں آپ کو قطعاً کوئی احساس نہیں ہوتا کہ ہم کیفیتِ جنگ میں ہیں۔ شہروں میں فضول عیاشیاں دیکھیں تو جنگ کا تاثر کہیں سے نہیں ملتا۔ ہرکوئی لگتا ہے ایک ہی کام میں لگا ہوا ہے، پراپرٹی کا کاروبار۔ ادارے بھی پراپرٹی کے دھندے میں دھنسے پڑے ہیں۔ نام کس کس کا لیا جائے۔ حساس طبیعتوں پہ گراں گزرے گا۔ اوروں نے یہ کاروبار کرنا ہے ضرور کریں‘ لیکن سرکاری محکموں کو تو اِس دھندے سے دور رہنا چاہئے۔ اِسی میں اُن کی بہتری ہے۔ اِس روش پہ کچھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ دھندہ پاکستان میں بہت پھیل چکا ہے اور جہاں یہ قوم کے مزاج کو بگاڑ رہا ہے وہاں محکموں کی صحت پہ بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی جنگ ایک دن کی نہیں لمبی جنگ ہے۔ اِس میں سرخرو ہونے کیلئے ہمیں بہت کچھ کرنا پڑے گا‘ لیکن اِس میں کامیابی کیلئے شاپنگ مالوں اور شادی ہالوں کے کلچر سے نکلنا ہوگا۔ کامیاب قوموں کے یہ وتیرے نہیں ہوتے۔
قوم کو صحیح سمت پہ ڈالنا قیادت کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قیادت کے حوالے سے ہماری حالت کچھ مثالی نہیں۔ بہرحال کہیں اور سے تو قیادت نے آنا نہیں، جو ہے اُسی پہ گزارہ کرنا ہے۔