امریکی افغانستان سے جا تو رہے تھے لیکن کسی کو یہ توقع نہ ہوگی کہ اس طرح رسوا ہوکر نکلیں گے۔کابل ایئرپورٹ کے نظارے تو ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔جب چیزیں ہاتھ سے نکل جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایئرپورٹ پہ طالبان موجود نہیں تھے۔گرتی حکومت کی گھبراہٹ ہی اتنی تھی کہ ہر طرف افراتفری مچ گئی ۔بھاگنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں لیکن اشرف غنی جس طریقے سے بھاگے وہ ایک مثال رہے گی۔
بہرحال آنے والے دنوں کی طرف دیکھنا چاہئے اور ابھی سے شواہد بتا رہے ہیں کہ مستقبل کے حوالے سے بھی طالبان دنیا کو حیران کر دیں گے۔ یہ جنہوں نے امریکہ کو شکست دی ہے اور ملک پہ کنٹرول جما رہے ہیں ایک نئے انداز سے چیزوں کوآگے لے جا رہے ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں پورے افغانستان میں امن و امان بحال ہو جائے گا۔ کیسا شورائی نظام طالبان لاتے ہیں وہ عنقریب پتا چل جائے گالیکن کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ چار دہائیوں بعد افغانستان کو ایک مضبوط حکومت ملنے والی ہے۔ طالبان کا اعزاز یہ ہے کہ انہوں نے ایک طویل جدوجہد کے ذریعے دنیا کے طاقتور ترین ملک کو شکست دی اور اپنے ملک کیلئے ازسرِنو آزادی حاصل کی۔ جب آپ کا اعزاز یہ ہو تو اندرونی طور پہ آپ کو کون چیلنج کرسکتا ہے؟
پہلے دور کے طالبان اپنے پورے زمانۂ اقتدار میں جنگ وجدل میں مصروف رہے‘ شمالی اتحاد‘ جس کے سربراہ احمد شاہ مسعود تھے‘ طالبان کے خلاف تھا۔ عبدالرشید دوستم خلاف تھا‘ اسماعیل خان خلاف تھا۔ اس بار صورتحال یکسر مختلف ہے ۔ پورے ملک پہ طالبان کا کنٹرول ہو جائے گااور جو مخالفت کرسکتے تھے وہ سب بھاگ چکے ہیں۔عبدالرشید دوستم نے دانائی دکھائی اور پہلے ہی ملک سے فرارہوگیا۔ ہرات میں اسماعیل خان نے بھی اسی میں بہتری سمجھی کے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ ہاں امریکہ کی کوشش رہے گی کہ طالبان اندرونی خلفشار کا شکارہوں ۔ ابھی سے مغربی میڈیا طالبان کے خلاف فضا بنانے میں مصروف ہوگیا ہے۔ لیکن ایسی سازشیں تبھی کامیاب ہوتی ہیں جب آپ کو اندرونِ خانہ آلہ کار دستیاب ہوں۔ ایسے آلہ کار امریکہ اور مغربی دنیا کو آسانی سے نہیں ملیں گے۔
اس سے بہتر صورتحال پاکستان کو نہیں مل سکتی ۔ ہمارامفاد اسی میں ہے کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو‘ ایسی حکومت جس کا حکم پورے ملک پہ چلے۔ابھی سے طالبان کہہ رہے ہیں کہ وہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔ یہ تمام مغربی پروپیگنڈا ہے کہ القاعدہ وغیرہ پھر سے سر اٹھا لیں گے۔یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کسی ایسی صورتحال کی یکسر اجازت نہیں دیں گے۔ ماضی کے حالات اور تھے۔ موجودہ طالبان جنہوں نے امریکہ کو شکست دی ہے بیس سالہ جدوجہد کی پراڈکٹ ہیں۔ انہوں نے بہت کچھ دیکھا ہے اور بہت سے تجربات سے گزرچکے ہیں۔اس بنا پہ یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے ۔
اُنہوں نے ملک چلا نا ہے ۔ نظم و نسق قائم کرنا ہے۔موجودہ افراتفری جب تھمے گی توروزمرہ کی حکومتی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ تنخواہیں دینا ہوں گی ‘ معیشت چلانا ہوگی۔ دیکھنا ہوگا کہ خزانے میں کوئی پیسہ چھوڑ کے بھی گئے ہیں یا سب لے اڑے ہیں۔ایک بری خبر یہ ہے کہ بینک افغانستان کے زیادہ اثاثے ملک سے باہر پڑے ہیں۔ امریکہ نے ابھی سے کہہ دیا ہے کہ افغانستان کے جو اثاثے امریکہ میں ہیں وہ طالبان کے حوالے نہیں کئے جائیں گے۔ ان سب چیزوں کا سامنا طالبان کو ہوگا۔ نظم و نسق تو قائم ہوگا لیکن یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پرانی سزاؤں کے تماشوں میں طالبان نہیں پڑیں گے۔امریکہ اور مغربی دنیا ضرور چاہے گی کہ طالبان ماضی کی غلطیاں دہرائیں تاکہ اُنہیں ایک بار پھر عالمی سٹیج پہ یک و تنہا کردیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ ایک تو طالبان نے وہ غلطیاں دہرانی نہیں اور دوسرا یہ کہ پڑوس کے ممالک نے امریکہ کے کسی کھیل میں شامل نہیں ہونا۔ چین اور روس افغانستان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ایران بھی یہی چاہتا ہے اورپاکستان سے تو طالبان کے پہلے ہی روابط ہیں۔امریکہ وغیرہ افغانستان میں شکست کی خفت پاکستان سے مٹانے کی کوشش کریں گے۔ اس حوالے سے پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔اس لحاظ سے یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان دھیرے دھیرے قدم رکھ رہا ہے۔ ہماری نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اُس میں بات مناسب طریقے سے کی گئی ہے۔اور ایسا ہی کرنا چاہئے تھا۔
ہم جیسوں کو بھی ماضی کا ڈر کھائے جا رہا تھا ۔ ہم اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ کیا طالبان کی فتح سے پاکستان مخالف تنظیمیں شہ تو نہ لیں گی اور کیا پاکستان کے خلاف اُن کی کارروائیوں میں تیزی تو نہ آجائے گی؟ لیکن یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جب ایک مستحکم افغانستان قائم ہوگا تو ایسی تنظیموں کے لئے جگہ سکڑ جائے گی۔طالبان نے اپنا ملک چلانا ہے یا اپنے لئے مشکلات پیدا کرنی ہیں؟اشرف غنی حکومت تو اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتی تھی ۔ اُس نے کسی تنظیم کو کیا سنبھالنا تھا لیکن جب طالبان کی گرفت مضبوط ہوگی تو یہ ممکن ہی نہیں رہے گا کہ القاعدہ یا داعش یا تحریک طالبان پاکستان دندناتے پھریں۔ مغربی دنیا کی کوشش ہوگی کہ وہ طالبان پہ یہ لیبل لگائیں کہ وہ عالمی دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔اس خطرے کا احساس طالبان کو بھی ہوگا۔ اس لئے ایسا لیبل ہرگز اپنے آپ پر چسپاں نہ ہونے دیں گے۔پہلے کیا ہوتا تھا؟کسی نے پاکستان میں واردات کی اور جا کے افغانستان میں کہیں کسی کونے میں چھپ گیا۔کوئی ایسی جنگجو تنظیم نہیں تھی جس کے روابط افغانستان سے نہ تھے۔ لیکن ایسا تب تھا جب افغان حکومتیں کمزور تھیں یا افغانستان کسی نہ کسی شکل میں خانہ جنگی کا شکار تھا۔اندرونی خلفشار کسی ملک میں ہو تو پھر وہاں ہرچیز چلتی ہے۔ لیکن جب استحکام پیدا ہو جائے تو ایسی کارروائیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔
ہرشکست کے بعد ایک کہانی بنتی ہے کہ شکست کیوں ہوئی۔ امریکہ میں بھی افغانستان میں شکست کے حوالے سے کہانیاں بنیں گی۔طالبان کا تو کچھ نہیںکرسکیں گے لیکن ٹارگٹ پاکستان کو بنایا جائے گا۔امریکہ کے تھنک ٹینکوں میں سیمینار ہوں گے کہ شکست کے اسباب کیا تھے اور اس بات پہ زور دیا جائے گا کہ طالبان اس لئے جیتے کہ پاکستان اُن کے پیچھے تھا۔الزام پاکستان پہ لگتا رہا ہے اور مزید لگے گاکہ پاکستان ڈبل گیم کھیلتا رہاہے‘ بظاہر امریکہ کے ساتھ لیکن اندرونِ خانہ طالبان کی حمایت کررہا تھا۔ہمیں اس پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کو کسی دفاعی پوزیشن میں آنے کی چنداں ضرورت نہیں۔پرائی جنگیں لڑ کے ہم پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ہمیں امریکیوں کو بتانا ہوگا کہ جب وہ خود افغانستان سنبھال نہ سکے تو کیا وہ یہ چاہتے تھے کہ ہم طالبان اور افغان عوام کی دشمنی مول لے لیں؟ پاکستان نے جو کیا ٹھیک کیا۔روابط طالبان سے رکھے تو رکھنا چاہیے تھے۔ آج کی صورتحال اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ہماری پالیسی ٹھیک تھی۔
ہاں 9/11کے بعد پاکستان سے کچھ شرمناک غلطیاں بھی سرزدہوئیں ۔ ہمیں امریکہ کے سامنے اتنا نہیں بچھنا چاہئے تھا ۔ دراصل ہمارے تب کے حکمران ضرورت سے زیادہ ڈر گئے تھے۔ اور ہم نے جو تب کے افغان سفیر عبدالسلام ضعیف کے ساتھ کیا‘ وہ تو ہرگز نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وہ ہماری حفاظت میں تھا اور ہم نے اُسے امریکہ کے حوالے کردیا۔بہرحال ایسی غلطیوں کا کفارہ بھی پاکستان نے بھرپور انداز سے اداکردیا ہے۔