ایک بات واضح ہونی چاہئے‘ 9/11 کے حملوں کی پلاننگ اسامہ بن لادن نے نہیں کی تھی۔اُن کو تو بعد میں اطلاع دی گئی کہ اس قسم کی پلاننگ ہو رہی ہے۔ اصل ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد تھا جو ابھی تک امریکی تحویل میں ہے اور جس کا ٹرائل ابھی تک نہیں ہوسکا۔ خالد شیخ محمد راولپنڈی سے گرفتار ہوئے تھے ۔ جماعت اسلامی کے ایک سپورٹر کے گھر ٹھہر رہے تھے اور وہیں سے اُنہیں پکڑاگیا۔ اطلاع دینے والا کون تھا یہ امریکیوں کومعلوم ہوگا۔
بہرحال 9/11کے حملوں کا مقصد کیا تھا؟ دو یا تین بڑی عمارتیں اڑانا تو مقصد نہیں تھا۔ اصل مقصد امریکی ذہنوں میں افراتفری یا کنفیوژن پیدا کرنا تھا اور اُس میں وہ حملے کامیاب ہوئے۔اُن حملوں کی وجہ سے ہی امریکہ نے پہلے افغانستان پہ حملہ کیا اور اُس ذہنی خلفشار میں عراق پر حملہ ہوا۔ امریکہ تب دنیا کی واحد سپرپاور تھا۔ سوویت یونین بکھر چکا تھا‘ اُس کی طاقت میں کمزوری آچکی تھی او روہ امریکہ کیلئے کوئی چیلنج نہیں رہا تھا۔اکیلے سپرپاور کی حیثیت میں امریکہ کا دماغ خراب ہوگیا تھااور تب جو نام نہاد دانشور جارج بش کے وائٹ ہاؤس کے قریب تھے اُن کا مصمم خیال تھا کہ دنیا میں امریکہ جو چاہے‘ وہ کرسکتا ہے۔صدر جارج بش کا قریب ترین سیاسی ایڈوائزر کارل روو (Karl Rove)تھاجس نے ایک مشہور بات کی کہ حقیقت یعنی reality وہ ہے جو ہم بنانا چاہیں۔الفاظ کچھ یوں تھے کہ جو ہم بنانا چاہیں وہی حقیقت ہوگی اور آپ کو اُس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا،اور اگرہم نے چاہا کہ اُس حقیقت کو بدلیں تو آپ کو وہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ انگریزی کا لفظ ہے Hubris جس کا مطلب ہے انتہا کا گھمنڈ ۔ انسان جب ہیوبرس کا شکار ہوتا ہے تو سمجھئے اُس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ بادشاہ یا سلطنتیں ہیوبر س کا شکار ہوئیں اور اس ذہنی کیفیت میں اُنہوں نے غلط فیصلے کئے جو اُن کی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔امریکہ کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔
آج ہر جگہ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا سے امریکہ کی کمزوری ظاہر ہوئی ہے۔ حالات کو سمجھنے والے لوگ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ ایک سپرپاور ہے جو اپنے عروج سے زوال کی طرف جا رہا ہے۔اتنا تو ظاہر ہے کہ امریکی طاقت کے عروج کا نقطہ گزر چکا ہے ۔ افغانستان اور عراق نے ثابت کیا ہے کہ امریکہ اپنی مرضی نہیں کرسکتا۔ دونوں ممالک میں خون تو بہا ہے لیکن امریکی خزانہ اور وسائل بھی پانی کی طرح بہے ہیں۔ زوال کی طرف یہ اقدام نہ ہوتے اگر 9/11کا واقعہ نہ ہوتا۔ اُس وقت کے امریکی دماغ خراب تو تھے ہی‘ ریپبلکن پارٹی کے دانشور مشرقِ وسطیٰ میں بھی افراتفری پھیلانا چاہتے تھے لیکن افراتفری کا محرک 9/11کے حملے ثابت ہوئے۔ افغانستان اور عراق کی جنگیں شروع کرکے امریکہ نے اپنی کمزوری کا سامان مہیا کیا۔ افغانستان کا سبق یہی ہے کہ دنیا کا طاقتور ترین ملک اسلامی جہادیوں کے ہاتھوں پِٹ گیا ہے۔امریکہ کے حمایتی ممالک بھی سوچنے پہ مجبورہوں گے کہ امریکی ضمانتوں اور یقین دہانیوں پہ کتنا یقین کیا جائے۔اور اب امریکہ واحد سپرپاور نہیں رہا ۔ اُسے چین کا سامنا ہے اور معیشت کے رموز جاننے والے تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اگلے بیس نہیں توتیس سالوں میں چین امریکہ سے معاشی میدان میں آگے نکل جائے گا۔
اوون بینٹ جونز پاکستان میں بی بی سی کے نمائندہ رہ چکے ہیں‘ اُن کے مضامین ہمارے ایک انگریزی اخبار میں چھپا کرتے ہیں۔کل ہی وہ لکھ رہے تھے کہ جنگ ِ عظیم دوم میں جرمنی اورپھر سرد جنگ میں روس امریکہ کا وہ نقصان نہیں کرسکے جو 9/11کے ایک حملے نے کیا۔ہمارے جیسے لوگ جن کی سوچ ایک خاص قسم کی ہے سمجھتے رہے ہیں کہ 9/11کے حملے ایک فضول قسم کا کام تھاجس سے حاصل کچھ نہیں ہوا۔ حاصل کیا ہونا تھا حالات ایسے پیدا ہوئے کہ ایک سے زیادہ مسلم ممالک تباہی کا شکار ہوئے، لیکن جہادی ذہن رکھنے والوں کا یہ خیال نہیں ہے۔امریکہ کا افغانستان اور پھر عراق میں پھنس جانا وہ دورِ حاضر کی جہادی سوچ کی کامیابی سمجھتے ہیں۔اور افغانستان سے امریکی انخلا دیکھ کر اُن کا یہ خیال پختہ ہو جاتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ بیس سالہ جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا میں امریکہ کسی عسکری مداخلت کے قابل نہیں رہا۔افغانستان کے بعد امریکی دھمکیوں کو کون خاطر میں لائے گا۔ خالد شیخ محمد امریکی تحویل میں زندہ ہے ۔ کہتے ہیں اُس کی حسِ مزاح بھی تیز ہے۔ سی آئی اے کی قید میں اُس پہ بے پناہ تشدد کیا گیا۔ افغانستان کے حالات کے بعد وہ کیا سوچتا ہوگا؟امریکی تفتیش کرنے والوں کے سامنے تو وہ ہنستا ہوگا۔
جہادی سوچ رکھنے والوں کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں ۔ جماعتیں‘ تنظیمیں‘ لشکر ایسے ہیں جو اس سوچ کے حامل ہیں۔ افغانستان کے حالات سے اُن کے حوصلے کتنے بلند ہوئے ہوں گے؟ اگلے روز ہی ٹی ٹی پی کے ترجمان نے پاکستانی میڈیا کو انتباہ کیا ہے کہ ان کو دہشت گردی جیسے القاب نہ دیے جائیں اور جو ایسا کریں گے اُن کو دشمن سمجھا جائے گا۔ یہ ایک وارننگ ہے ۔ جب ماضی میں ہمارے قبائلی علاقے شورش زدہ تھے تو تقریباً تمام صحافیوں کو اُن علاقوں کو چھوڑنا پڑا تھا۔تحریک طالبان والے اُن کی موجودگی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔وزیرداخلہ شیخ رشیداحمد کا بھی بیان ہے کہ مستونگ میں دھماکہ کرنے والے افغانستان سے آئے تھے۔ یعنی اس قسم کے خطرے ہمارے لئے ختم نہیں ہوئے‘ وہ موجود ہیں۔ ٹی ٹی پی ایک حقیقت ہے اور اس تنظیم نے پاکستان کے خلاف تقریباً اعلانِ جنگ کررکھا ہے۔ جہادی سوچ ایک طویل المدت بنیاد رکھنے والی سوچ ہے۔ کیا اس سوچ کا اثر لینے والے 9/11 اور بیس سالہ افغان جنگ کا نہ سوچتے ہوں گے ؟ٹی ٹی پی والے ان خیالات سے متاثر نہ ہوں گے ؟ اسامہ بن لادن مارے گئے لیکن اُن کی سوچ تو نہیں مری۔ کیا اُن کے پیروکارافغانستان میں ختم ہو گئے ہیں؟کیا وہ پاکستان سے چلے گئے ہیں؟
جنہیں ہم فیصلہ ساز کہہ سکتے ہیں یا جو اوپر کی اشرافیہ کے لوگ ہیں‘کیااس صورتحال کا صحیح ادراک رکھتے ہیں؟جہادی سوچ پاکستان کے آئینی وجود سے متصادم ہے ۔ اب تو امریکی نہیں رہے ۔ ایسے میں جہاد کس کے خلاف ہوگا ؟ جہاد تو پھر اپنے خلاف ہی بنتا ہے جیسا کہ ماضی میں قبائلی علاقو ں میں ہوچکا ہے ۔کمانڈر نیک محمد اور اور بیت اللہ محسود کیا تھے؟وہ جہادی سوچ کے خلیفہ تھے اور پاکستان ریاست کے خلاف کھڑے تھے۔ یہ درست ہے کہ ہماری عسکری طاقت کمزور نہیں ۔ پہلے بھی ایسے چیلنجوں کا سامنا ہو چکا ہے اور پھر بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن خطرہ تو ہے اور افغانستان کے حالات کی وجہ سے ان خطرات کو تقویت ملتی ہے۔
اس سے بھی بڑا خطرہ البتہ دوسرا ہے ۔ پلاٹوں کے کاروبار میں جو ہمہ وقت لگے ہوئے ہیں اور جن کامطمحِ نظر دولت کمانا ہی ہے‘ جائز یا ناجائز طریقوں سے ‘کیا وہ یہ صلاحیت اور ایمان رکھتے ہیں کہ جہادی سوچ کا مقابلہ کرسکیں؟اصل سوال یہ ہے اور یہ سوال ٹی ٹی پی کے بارے میں نہیں بلکہ ہمارے اپنے ارادوں اور ایمان کے بارے میں ہے۔
اُبھرتے خطرات کا مقابلہ کرنا ہے تو جہاں بازو مضبوط ہوں ذہن بھی صاف ہونے چاہئیں ۔گزارش صرف اتنی ہے کہ پلاٹوں کے کاروبار سے دیگر فائدے تو بہت پہنچ سکتے ہیں ذہن صاف نہیں رہتے۔ اور دلوں میں میل اُترآتی ہے۔ لہٰذا علاج ہو تو اس ذہنی اور قلبی کیفیت کا ۔ یہ کون کرے گا؟