یہ موسم جو دھیرے دھیرے ا ب شروع ہوچکا ہے لگ بھگ پانچ ساڑھے پانچ ماہ رہتا ہے۔ جس دھرتی کے ہم باسی ہیں اِس کا یہ خوبصورت ترین موسم ہے۔اب کی بار بھادوں کی بارشیں گرمی کا زور مکمل نہ توڑ سکیں۔ کل پرسوں کی جو بارش ہو ئی اُس سے نئے موسم کی نوید ملی۔ ہوا میں ہلکی خنکی آگئی ہے۔ آسمان کا رنگ بدلتا جا رہا ہے۔ہمارے شمالی پنجاب میں سردیوں کے موسم میں آسمان کی رنگت بدل جاتی ہے۔نیلا پن گہرا ہو جاتا ہے اور جب شام کے وقت تنوروں سے دھواں اُٹھتا ہے تو ایک عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے۔درخت بھرے بھرے لگنے لگ پڑتے ہیں۔اِسی موسم میں کیکر کے درختوں پہ ہلکے پیلے پھول کھلتے ہیں۔بیری کے درختوں پہ پھل آجاتا ہے۔ پرندوں پر بھی ایک عجیب موڈ طاری ہو جاتا ہے۔ کل ہی میں دیکھ رہا تھا کہ پاس دیوار پر دو فاختائیں ایک دوسرے کے ساتھ ایسی محوتھیں کہ اُن کی حالت پہ رشک آگیا۔
سچ پوچھیے تو یہ قاتلانہ موسم ہوتا ہے اور اِس کاایک عجیب اثر جذبات پہ پڑتا ہے۔ دل آوارگی کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔جی چاہتا ہے کہ کہیں لمبے سفر پر نکلیں لیکن اکیلے نہیں کوئی ہمراہی تو ہو۔ میں کاہلی کا مارا انسان، دل میں تڑپ اٹھتی بھی ہے تو وہیں بیٹھا رہتا ہوں حالانکہ جی چاہتا ہے سیہون شریف کے درشن کو نکلیں، کاسہ اٹھائے فقیروں کے کسی کاروان کے ساتھ ہو لیں‘ لیکن یہ سب خیالی چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ ذہن سفر کو نکل جاتا ہے لیکن وجود یہیں کا رہتا ہے۔
حسب ِ معمول کل صبح اخبارات پر نظر ضرور دوڑائی لیکن آج کل کی خبروں میں جی نہیں لگتا۔ہماری سیاست میں کچھ زیادہ مزہ نہیں رہا اور رہا افغانستان تو اُس کا کتنی بار ذکر ہوسکتا ہے ۔ٹیکس ریٹرن فائل کرنی ہے حالانکہ یہ کام ہمارے چکوال کے ایک نوجوان وکیل جن کی بہت وسیع پریکٹس اسلام آباد میں ہے کرتے ہیں لیکن پھر بھی خیال آتا ہے کہ اس میں کوئی دیر نہ ہو جائے۔ پراپرٹی ٹیکس بھی جمع کرانا ہے۔ اُس کیلئے شاید کل یا پرسوں چکوال جانا پڑے۔تیس ستمبر سے پہلے یہ کردیں تو کچھ رعایت مل جاتی ہے۔ یہ بھی اب ہوا ہے کہ الیکٹرانک ذرائع سے آپ پراپرٹی ٹیکس جمع کرادیں تو مزید پانچ فیصد رعایت مل جاتی ہے۔لیکن الیکٹرانک ذرائع کااستعمال ہمارے بس کی بات نہیں۔پچھلے سال بھی جو ہمارے بینک کی خاتون منیجر ہیں‘ اُن کی مدد لینی پڑی۔اِس بار بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔یہ ایک دو کام نہ ہوتے تو شاید رختِ سفر باندھ لیا ہوتا، سندھ کے صحراؤں کی طر ف نہیں تو کم از کم لاہور ہی جھک مارنے چلے جاتے۔
تین ماہ ہوتے ہیں وہاں نہیں گئے۔لاہور نے کسی کا انتظارکیا کرنا ہے، ہم ہی مشتاق ہیں وہاں جانے کے۔ایک آدھ شام گزر جاتی ہے۔
آج کل کی واہیات موسیقی پرتھوڑاساپرفارمنس شاید دیکھ لیتے، ، حالانکہ خدا گواہ ہے کہ آج کل کی موسیقی سن کے اور اُس پر اگر کسی پرفارمنس کو دیکھنا پڑے تو جی چاہتا ہے کہ ہاتھ اپنا پستول کی طرف جائے۔کس قسم کے لوگ ہیں ، پیسہ برباد کرتے ہیں ،ہر قسم کا اہتمام ہوتا ہے لیکن یہ سب کچھ کس کی خاطر؟ واہیاتی کا لفظ ہی میں استعمال کرسکتاہوں۔ لیکن اور کچھ چارہ بھی نہیں ۔بدذوقی کے سوا ہم نے چھوڑا کیا ہے۔ جس قسم کی موسیقی اِن محفلوں میں ہوتی ہے جو ڈانس نمبر برپا ہوتے ہیں اُنہیں بیان کرنے سے میں قاصر ہوں۔اِتنے گھٹیا بول کہ لکھے نہیں جا سکتے لیکن ہمارے میزبان اور ایک آدھ دوسرے دوست جھوم رہے ہوتے ہیں۔اُس وقت دوستی کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر جی چاہتا ہے کہ میزبان اور جو ایک آدھ دوست ساتھ ہوتا ہے کو سیدھا تھانہ کوتوالی پہنچادیں۔
ہمارا ضابطہ فوجداری بھی ایسا ہے کہ دنیا جہان کے جرائم اور ان کی تشریح ضابطے میں درج ہیں لیکن بدذوقی کا کوئی ذکر نہ کوئی سزا حالانکہ ایک بھاری بھرکم دفعہ بدذوقی پہ لگنی چاہئے اور گھٹیا موسیقی کا تو فوری پرچہ درج ہونا چاہئے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ کہ تماش بینی کا بھی کوئی معیار ہوتا ہے۔ اِ ن گناہگار آنکھوں نے وہ زمانے خود دیکھے ہیں جب معیارِ تماش بینی ہوا کرتا تھا۔قاعدے یا ترتیب سے کام ہوتے تھے۔کیا اہل کرم اور کیا اِن مخصوص جگہوں کی میزبان ، دونوں طرف سے شائستگی اورذوق کے رویے رکھے جاتے تھے۔یہ والا تو اب زمانہ ہی اور ہے ۔ جب تک چار آٹھ بھاری بھرکم مونچھوں والے اور بندوق اٹھائے مشٹنڈے ساتھ نہ ہوں تو اہل کرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ہم اکیلے پھرنے والے ، کہاں سے باڈی گارڈ لائیں ۔ ہرچیز کا معیار ہی بدل چکا ہے۔ کل رات نیند نہیں آرہی تھی تو لاہور کے یہ جو ٹاپ ٹین قسم کے لوگ سمجھے جاتے ہیں اُن کی ویڈیو کلپس دیکھنے لگا۔ نیویارک میں مافیا کے ڈان ایسے نہیں پھرتے جیسے ہمارے ڈان ۔ بیس بیس گاڑیاں ہمراہ ہوتی ہیں، کھلے اسلحے کی نمائش۔ یورپ، جاپان اور امریکہ کے بدمعاش ہمارے بدمعاشوں سے کہیں آگے ہیں۔ اُن کے کاروبار کہیں زیادہ خطرناک اور وسیع ہیں لیکن وہ اِس بدذوقی کے مرتکب نہیں ہوتے جو ہمارے بدمعاشوں کا خاصہ ہے۔ مطلب یہ کہ نمائش اور وہ بھی گھٹیا نمائش کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ ہمارے حکمرانوں کی اپنی نمائش، سیاست دانوں کی اپنی اور پھر ٹاپ ٹین حضرات بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو معاشرے کا معیار بن جاتا ہے۔ایسے میں تماش بینوں اور تماش بینی کے معیار کہاں سے اونچے ہوں؟یہ تو ناممکن ہے کہ حکمرانی اور سیاست میں گھٹیا پن آبیٹھے اور اِ س گھٹیا پن سے بدمعاشی مبرّارہے۔ مثال اوپر سے قائم ہوتی ہے اور اُس کے اثرات نیچے تک جاتے ہیں۔
لیکن ہمارا گھٹیا پن بھی ملاحظہ ہو ۔ جو بیچارے میزبان تماش بینی کا اہتمام کرتے ہیں اُن پر تو ہم تبرے کس رہے ہیں لیکن تمام تر نفاستِ مزاج کے مظاہرے کی کوشش کے باوجود اُن محفلو ں میں ہم پہنچ تو جاتے ہیں ۔ میزبانی کا لطف بھی اٹھاتے ہیں ، موسیقی گھٹیا بھی لگے تو اُس پر تھوڑا بہت جھومتے ہیں یعنی ہمارے دوہرے معیار کی بھی کوئی مثال نہیں ۔اِتنا نازک مزاج ہے تو وہاں جائیں نہیں لیکن جاتے ہیں اور نخرا بھی کرتے ہیں۔اوروں کو ہدایت اللہ سے کیا ملنی ہے کچھ ہمیں ہی مل جائے۔
لیکن چھوڑیں اِن بیکار کی باتوں کو ۔ کل ملکہِ ترنم نورجہاں کا جنم دن تھا۔ ریڈیو سیلون کا پروگرام پرانی فلموں کا سنگیت میڈم کی نذرہوا۔ وہی گانے جن سے ہم مانوس ہیں سنائے گئے۔ لیکن کیا آواز تھی، خدا کی دین۔ ایسا پروگرام ہو تو فلم جگنو کا وہ دوگانہ ضرور سنایا جا تاہے 'یہاں بدلہ وفا کا بیوفائی کے سوا کیا ہے‘جو میڈم نے محمد رفیع صاحب کے ساتھ گایا ہے۔اِس گانے کا اِس لئے ذکر ضروری سمجھا کہ محمد رفیع صاحب کی آواز کا جادو پہلی بار بھرپور انداز سے سامنے آیا۔ اُن جیسا بھی کوئی نہیں تھااور شاید کوئی نہیں آئے گا۔ اِتنی عظمت کو کوئی پہنچے وہ بھی خدا کی دین ہے۔ اُس زمانے میں نور جہاں اپنا مقام بنا چکی تھیں البتہ محمد رفیع صاحب کی شروعات تھی۔اِس ایک گانے کے ساتھ اُن کا ڈنکا بجنے لگا۔
نورجہاں بے مثال گائیکہ تو تھیں ہی لیکن اپنے حسن اور ایکٹنگ کیلئے بھی مشہور تھیں۔ ہمارے مرحوم دوست خالد حسن نے انگریزی میں میڈم پر ایک بہت خوبصورت فیچر لکھا تھا ۔ اُس کے لیے انہوں نے میڈم کا انٹرویو کیا اور دوران انٹرویو انہوں نے میڈم سے اُن کے معاشقوں کے بارے میں پوچھا۔ جیسے اپنے سے باتیں کررہی ہوں میڈم آہستہ سے اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات گننے لگ گئیں اور پھر بولیں ' ہائے وے ، ناں ناں کردے وی سولہ اٹھارہ ہو جاندے نیں‘ ۔