سب سے برا حال اُس روپے کا ہے جو بینکوں میں پڑا ہے۔ اُس کی قوت خرید کو دیمک چاٹ رہی ہے اور اِس مرض کا تاحال کوئی علاج نظر نہیں آرہا۔ بہت سے یار دوست سوچنے پہ مجبور ہوگئے ہیں کہ روپوں کو ڈالروں میں تبدیل کیا جائے۔ ڈالر کی قدرومنزلت کی اور بھی وجوہات ہوں گی لیکن روپے کی گرتی ساکھ بھی ایک وجہ ہے کیونکہ ڈالروں کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔
حکومت کی نااہلی اپنی جگہ لیکن حکومت کو کوسنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ افواہیں گرم تھیں کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہ تو عیاں ہے کہ وزیرِ خزانہ رہنے کیلئے شوکت ترین کو سینیٹ یا قومی اسمبلی کا ممبر بننا تھا۔ اِس قسم کی یقین دہانی بھی حکومت نے کرائی تھی لیکن یہ کارنامہ اب تک سرانجام نہیں دیا جا سکا اور اب تو اُن کے پاس جو آئینی گنجائش تھی کہ چھ ماہ تک بغیر پارلیمنٹ میں بیٹھے وزیر خزانہ رہ سکتے ہیں‘ وہ ختم ہونے کو ہے۔ اب خبریں ہیں کہ اُن کے انتخاب کا کچھ انتظام کیا جا رہا ہے۔ اپنے معاملات ہم سے چل نہیں رہے دنیا کی فکر ہمیں لاحق ہے۔ مملکت خداداد میں پہلے ہی مبلغین کی کمی نہ تھی لیکن موجودہ وزیر اعظم جو ملک کے نصیب میں آئے‘ وہ بھی ایک بڑے مبلغ نکلے ہیں۔ تبلیغ کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بولنا پڑے تو وہاں بھی نصیحت و تبلیغ فرما دیتے ہیں۔
بہرحال بات تو روپے کی ہے۔ باقی ساری باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ شہزاداں بیگم جو بھگوال میں ہمارے امور سنبھالتی ہے‘ سو دو سو یومیہ پہ سودا سلف کا کام پورا کرلیتی تھی۔ لیکن یہ گزرے دنوں کی بات ہے۔ اب تو بات یومیہ پانچ سو یا ہزار تک پہنچ چکی ہے اور ہم نے گننا چھوڑ دیا ہے۔ یہی حال پٹرول کا ہے۔ اپنے ڈرائیور اقبال سے پوچھنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ مہینے میں پٹرول پر کتنا خرچہ آرہا ہے۔ بھلا ہو کریڈٹ کارڈوں کا‘ روپیہ صَرف ہو تو دل پہ کچھ ہوتا ہے لیکن کریڈٹ کارڈ استعمال کیا جائے تو دل پر اِتنا بوجھ نہیں پڑتا۔ ہاں جب ہرماہ کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی کرنی پڑے تب تکلیف ضرور ہوتی ہے لیکن آنکھیں بند کرکے وہ چیک کاٹ دیتے ہیں۔
کچھ روز ہوئے اسلام آباد میں رات کے کھانے کی دعوت تھی۔ میزبان کا انتظام چونکہ ہمیشہ عمدہ ہوتا ہے اس لیے ہم نے اپنا ٹی وی پروگرام کیا اور وہاں سے بھاگم بھاگ دعوت کیلئے پہنچے۔ ایک اندیشہ البتہ دل میں کھٹک رہا تھا کہ کہیں سامانِ راحت دو نمبر کا نہ ہو۔ وہی ہوا، دو نمبری تھی‘ نری دو نمبری۔ کیا کرتے اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ جوکچھ تھا اُسی پہ گزارہ کرنا پڑا لیکن دوران دعوت ہی ایک دوست کو فون کردیا یہ پوچھنے کیلئے کہ کچھ خالص ہے۔ انہوں نے کہا کچھ ڈال دیتا ہوں ڈرائیور کو بھیج دیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کھانے پہ جائیں اور دوران دعوت ہی کسی قریب کے ہوٹل سے کچھ منگوانے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ قصہ اس لئے بیان کررہا ہوں کہ یہ حالت ہے جو ہم نے اپنی کرلی ہے۔ یوں تو ہم جنرل ضیاء الحق کو کوستے نہیں تھکتے، لیکن اُن کے زمانے میں جب ہم اسلام آباد ہوا کرتے تھے سامانِ رنگ و بو کی کبھی کمی نہ ہوتی اور دام بھی یوں سمجھئے مستقل قسم کے ہوا کرتے تھے‘ یعنی اِن اشیاء کا مارکیٹ میں استحکام تھا اور یہ صورتحال سالہا سال تبدیل نہ ہوئی۔ یہ جو ہم تبدیلی کے دور میں آگئے ہیں اس نے تو بیڑہ ہی غرق کر دیا ہے۔ شہزاداں بیگم آج ہی صبح خوردنی تیل کی قیمت پر ماتم کناں تھی۔ دل میں سوچا کہ تم پکوان کے تیل کو رو رہی ہو ہم سے پوچھو کہ ہم نے کیا غم پال رکھے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ نیک و پارسا لوگ برا نہ منا جائیں لیکن مخصوص اشیاء کی قیمتیں بتاؤں تو ہوش اڑ جائیں۔
افغانستان کے بارے میں دنیا کو تلقین کی جا رہی ہے۔ درست ہے تلقین ہونی چاہئے لیکن کچھ اپنے حالات کا بھی خیال رکھیں۔ باربار کہنا اچھا نہیں لگتا لیکن موجودہ لوگ بالکل فارغ ہیں، اِن سے کچھ نہیں ہو رہا۔ معاشی صورتحال آپ کے قابو میں نہیں آ رہی تو کچھ سماجی نوعیت کی آسانیاں پیدا کر دیں۔ نیک لوگوں کو چھوڑیئے وہ تو ویسے ہی بخشے جائیں گے لیکن گناہگاروں کا حال کچھ بہتر ہو جائے۔ اندازہ کیجئے گزرے ہوئے کل ڈرائیورکو ایک بار پھر لاہور بھیجنا پڑا۔ کیا لینے کیلئے بھیجا‘ چھوڑئیے۔ زبان بندی یہاں دستور بن چکا ہے۔کھل کر بہت سی چیزیں کہہ نہیں سکتے لیکن اہل کرم مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ تعویذ دھاگے کے استعمال سے روپے میں استحکام پیدا نہیں ہونا۔ اِس مقصد کیلئے کچھ اور کرنا پڑے گا اور ایسا کرنے کیلئے کچھ ذہانت کچھ قابلیت درکار ہے جو یہاں ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی۔ مانا یہ حالات ناگزیر ہیں لیکن باقی چیزوں میں تو کچھ آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ آپ کی تقریروں پر کتنا عرصہ گزارہ ہو سکتا ہے؟
کسی اور ضمن میں گزرے ہوئے کل کااوپر ذکر کیا۔ ایک اور حوالے سے اب کررہا ہوں۔ 28 ستمبر لتا منگیشکر کا جنم دن ہے۔ نوے سے اوپر اب ہو چکی ہیں لیکن ہمارے جیسوں کیلئے وہ ہمیشہ جوان رہیں گی۔ اُن کی آواز اور ان کے گانے امر ہیں۔ صدیاں بیت جائیں گی اُن کی یاد رہے گی۔ خدا کی دَین کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔ ایسی مدھر آواز اس روئے زمین پر پھر نہ جانے کب پیدا ہوگی۔ کل صبح ریڈیو سیلون سے پرانی فلموں کا سنگیت والا پروگرام ظاہر ہے لتا منگیشکر کے بارے میں تھا۔ لتا اور رفیع صاحب کا ایک پرابلم ہے کہ اِن کے اتنے ڈھیر سارے لاجواب گانے ہیں کہ اِن میں سے انتخاب مشکل ہو جاتا ہے۔ آدھے گھنٹے کے پروگرام میں کتنے گانے چنے جا سکتے ہیں؟ ظاہر ہے پانچ چھ یا سات لیکن لتا کے لاجواب گانے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اِن میں سے کن کن کو چنا جائے؟
میری اپنی پسند لتا کے 1950ء اور اُس کے لگ بھگ سالوں کے گانے ہیں۔ کیا کیا عظیم میوزک ڈائریکٹر بھی تھے۔ کھیم چند پرکاش، ماسٹر غلام حیدر، انیل بسواس، جمال سین، سجاد حیدر، غلام محمد، وِنود، اور کس کس کے نام لیے جائیں۔ فہرست طویل ہے۔ یہاں مجھے کہنے کی اجازت ہو کہ ِونود کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ حال ہی میں پتا چلا کہ اُن کا اصلی نام ایریک رابرٹس تھا۔ لاہور کے رہنے والے ایک کرسچیئن تھے جنہوں نے موسیقی کی دنیا میں آکر وِنود کا نام اپنایا۔ اُن کی تیار کی ہوئی چند دھنیں پاگل کردینے والی ہیں۔ ان میں سے ایک دھن اس گانے پہ بنی ہے 'میری الفت سوئی ہے یہاں، سونے دو جگانا نہ‘۔ یہ گانا سنئے اور دم بخود ہو جائیے۔ لتا جی کی لافانی آواز کا اندازہ تو ہو ہی جائے گا لیکن وِنود کا کمال بھی عیاں ہو گا۔ 1955ء کی فلم 'اُوٹ پٹانگ‘ سے یہ گانا ہے۔ ہم تو اُسی جوانی کی آواز سے لتا جی کو یاد کرتے ہیں۔ اِسی لئے کہا کہ سو سال کی بھی ہو جائیں، اور اللہ کرے ایسا ہی ہو، لیکن ہمارے لئے وہ جوانی والی آواز کی لتا رہیں گی۔ اِس دنیا میں بہت سی چیزیں فانی ہیں، لتا ہمیشہ رہیں گی۔