قوم کو سبق سکھایا جارہا ہے کہ آف شور کمپنیاں رکھنا قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ بالکل درست ہے۔ غربت میں رہنا بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ بھوک اور افلاس سے تنگی قانون کے خلاف نہیں۔ خودکشی خلافِ قانون ہے لیکن خودکشی کا سوچنا کہ اِس زندگی سے موت بہتر ہے کسی قانون سے متصادم نہیں۔
بات کچھ اور ہے۔ جس ملک کی اکثریت بھوک اور ننگ کی ماری ہو وہاں ایک طبقہ ایسا ہے جس کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ لندن یا نیویارک میں جائیدادیں بنانا کسی قانون کے خلاف نہیں لیکن کیا یہ قرینِ انصاف ہے کہ ایک طرف قوم کی وسیع آبادی مشکل میں رہتی ہو اور ایک طبقہ ایسا ہو جس کی جائیدادوں کی فہرست ختم نہیں ہوتی؟ کسی محکمے میں رہ کے (احتیاط کے راستے پہ چلتے ہوئے میں کسی محکمے کا نام نہیں لے رہا) آپ بڑے عہدوں پہ فائز ہوں اور آپ کے رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی تعداد دس بارہ یا چودہ ہو یہ کسی قانون کے خلاف تو نہیں لیکن مساوات کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سرمایہ کاری کیلئے آف شور کمپنیاں ایک بہترین راستہ ہے‘ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ حرام کی کمائی چھپانے کا بھی یہ بہترین راستہ ہے۔ آف شور کمپنیاں اِس لئے بنائی جاتی ہیں کہ دولت کا سفر چھپا رہے۔ پاکستان کی لسٹ ہی دیکھ لیں۔ کوئی صاحب لندن میں فلیٹ خرید رہا ہے، کسی کی بیوی کے نام جائیداد ٹرانسفر ہو رہی ہے۔ نواز شریف اور اُن کی فیملی کی لندن میں جائیدادیں اِنہی طریقوں سے بنیں۔ آج تک نہیں بتا سکے کہ پیسہ آیا کہاں سے۔ آف شور کمپنیوں والے کیا بتائیں گے کہ اُن کے پیسے کہاں سے آئے؟
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور اُن کی بیگم نے لندن کے قریب ایک مہنگا گھر خریدا۔ گھر آف شور کمپنی کے ذریعے خریدا گیا جس سے میاں بیوی کو ٹیکسوں میں خاصی بچت ہوئی۔ جب وزیر اعظم تھے تو ٹونی بلیئر نے ایک سے زیادہ موقع پر کہا کہ ٹیکس بچانے کیلئے امیروں کے پاس متعدد راستے ہوتے ہیں اور ایسا کرنا قابلِ مذمت ہے۔ اپنی باری آئی تو ٹونی بلیئر نے وہی کیا جس کی گزرے وقتوں میں تنقید کرتے تھے۔ قانون کوئی نہیں توڑا لیکن منافقت کا الزام تو اُن پر بنتا ہے۔
اُردن کے بادشاہ عبداللہ کا نام بھی پنڈورا لیکس میں آیا ہے اور سچ پوچھئے اُن کی روداد پڑھ کے مجھے نہایت شرم محسوس ہوئی۔ اردن چھوٹا سا ملک ہے، اِتنا امیر بھی نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں نے مشرق وسطیٰ کے نقشے پر لکیریں کھینچیں اور اردن بن گیا۔ ایک چچا زاد کو اردن کا بادشاہ بنا دیا، دوسرے کو عراق پر تخت نشین کیا۔ اور اس ملک کے سربراہ نے لگ بھگ سو ملین ڈالر کی پراپرٹی ایمپائر لندن اور امریکہ میں خفیہ طور پر بنائی ہے۔ لندن میں آف شور کمپنی کے ذریعے مہنگے گھر اور اپارٹمنٹ خریدے ہیں اور امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں امرا کی پسندیدہ جگہ میلیبو بیچ (Malibu Beach) پر سمندر کے کنارے ایک سے زیادہ عالی شان گھر خفیہ طور پر خریدے۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ سال کے چار سے چھ مہینے بادشاہ ملک سے باہر گزارتے ہیں۔ اپنے ملک کی پہلے حالت دیکھو اور پھر اِن عیاشیوں کا سوچو۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ملک مسائل زدہ کیوں ہیں، ہمارے حالات ٹھیک کیوں نہیں ہوتے۔ جن ہاتھوں میں اقتدار ہو اور اُن کی وارداتیں ایسی ہوں تو کیا ایسے بد نصیب ملکوں کی حالت سنور سکتی ہے؟
چلیں اگر کرپشن ہونی ہی ہے تو کم از کم ہمیں وعظ و نصیحت تو نہ کیا جائے۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک کے حکمران طبقات آپ تو جو کرتے ہیں‘ کرتے ہیں‘ لیکن عوام کے حصے میں نعرے اور وعظ ہی رہ جاتے ہیں۔ سچ پوچھئے ہمارے ہاں تو شرم نام کی چیز رہ نہیں گئی۔ نعرے اسلام کے اور وارداتیں ایسی کہ انسان سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر یہی کچھ ہونا ہے پارسائی کے دعوے تو کچھ کم ہو جائیں۔
اسلام کی عظمت کے جو دن رہے اُن میں بڑے بڑے سربراہان مملکت آئے جنہوں نے بہت کچھ کیا جن کے کارنامے بہت ہیں۔ لیکن یہ گزرے ہوئے دن ہیں۔ اِنہیں بیتے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں۔ ہمیں تو آج کا دور دیکھنا چاہئے جہاں ہماری کوئی وقعت اور حیثیت نہیں۔ پچھلی صدی میں ایک ہی عظیم مسلمان سربراہ گزرا ہے، مصطفی کمال۔ اپنے ملک کی تقدیر اس شخص نے بدل ڈالی لیکن کیا عجوبہ ہے کہ بہت سے مسلمان اتاترک کو ہیرو کا درجہ دینے کیلئے تیار نہیں۔ اتاترک نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ خوابِ ماضی سے نکلو اور جدید دور کے تقاضوں پر پورا اترو۔ اتاترک نے کوئی آف شور کمپنی نہیں بنائی، لندن یا امریکہ میں جائیدادیں نہیں خریدیں۔ میدانِ جنگ میں لوہا منوایا اور بطورِ مدبر اور سربراہ اونچا مقام پایا۔ سو سال بیتنے کو ہیں اتاترک جیسا شخص مسلم دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔
سٹالن کتنا بڑا راہنما تھا۔ ظلم ڈھائے، لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا لیکن اپنے ملک کو بھی بنا گیا۔ سوویت یونین کو اِس قابل بنایا کہ ہٹلر کا مقابلہ کر سکے۔ ہٹلر کی شکست کی داستان تب سے شروع ہوتی ہے جب جرمنی نے روس پر حملہ کیا۔ رحم نام کی چیز سٹالن کے دل میں نہیں تھی لیکن تاریخ کے عظیم راہنماؤں میں اُس کا نام ہمیشہ لیا جائے گا۔ ساری عمر سادہ سے کپڑے پہنے۔ ایک جوڑا لمبے بوٹوں کا سٹالن کا پسندیدہ تھا جسے سالہا سال استعمال کیا۔ ایک اوورکوٹ تھا جسے سٹالن نے سالوں پہنا۔ ویت نام کے عظیم رہنما ہوچی مِن کے پاس پہننے کیلئے چند جوڑے ہی تھے۔ کیوبا کے فیڈل کاسترو نے کون سی جائیدادیں پیچھے چھوڑیں؟ کون سی آف شور کمپنیاں بنائیں؟
ہمارے ہاں کوئی کسی محکمے کا سربراہ یا کسی بڑے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے تو اُس کی اولادیں بزنس مین کے طور پر نکھر آتی ہیں۔ داماد پَر نکالنے لگتے ہیں۔ لگتا ہے کہ بِل گیٹس بھی اِن سے بزنس کے راز جان سکتا ہے۔ یہاں ایسی ایسی اولادیں ہیں جنہیں اپنے زور پر معمولی سی نوکریاں نہ ملیں۔ کسی مقابلے کے امتحان میں وہ نہ بیٹھ سکیں لیکن باپ کیا عہدیدار ہوا اولادوں کی قسمتیں جاگ اُٹھیں۔ تعلیم یہاں کیا معنی رکھتی ہے؟ اِس معاشرے میں تعلیم کا کردار کیا ہے؟ اور ویسے بھی اِس ملک میں تعلیم ہے کون سی؟ ایسے اوٹ پٹانگ کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ چوہتر سالوں میں عام آدمی کو یہی تربیت ملی ہے کہ باہر کے ملکوں میں مزدوری کی جائے۔ جن کو ہم بڑے لوگ کہتے ہیں‘ اُنہوں نے اِس ملک کو محض ایک چراگاہ بنا کے رکھا ہے۔ ہیراپھیری سے جو دولت کمائی جاتی ہے وہ باہر کے ملکوں میں منتقل ہو جاتی ہے، انڈسٹری لگانے کیلئے نہیں بلکہ قیمتی جائیدادیں بنانے کیلئے۔ کبھی کبھار رازوں سے پردہ اٹھتا ہے تو نوید دی جاتی ہے کہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ سب کچھ قانون کے عین مطابق ہے۔
اولادوں کو باہر مہنگی یونیورسٹوں میں پڑھانا کسی قانون کے خلاف نہیں لیکن کہنا تو بنتا ہے کہ جہاں اِتنی ناخواندگی ہو آپ کو اِس ناانصافی پر تھوڑی سی شرم تو آنی چاہئے۔ لیکن یہ محض باتیں ہیں۔ ملک کی بنیادیں ایسی ڈالی گئیں کہ ایک طبقاتی نظام معرضِ وجود میں آئے۔ اِسی نظام کے ثمر ہم دیکھ رہے ہیں۔