کہنے کو تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری چین سے دوستی پہاڑوں سے اوپر ہے اور سمندروں سے گہری لیکن کیا عجب بات ہے کہ چین سے ہم کچھ سیکھتے نہیں۔ دفاعی سامان اور قرضوں تک ہی ہماری دوستی محدود ہے۔ اصل ملاپ تو تہذیب و تمدن کا ہوتا ہے۔ وہ ہمارا چین سے بالکل نہیں۔ سال میں ایک دو بار چائنہ کا کوئی آرٹسٹوں کا وفد پاکستان کا دورہ کرتا ہے اور کچھ شہروں میں پرفارمنس ہو جاتی ہے‘ لیکن چینی باشندے رہتے کیسے ہیں، اُن کے طور طریقے کیا ہیں، اُن کی سوچ کیا ہے‘ اِن چیزوں کے بارے میں ہماری معلومات محدود سے بھی کم ہیں۔
پہلے تو پاکستانی یہ فیصلہ کریں کہ چین کے طور طریقے قابل تقلید ہیں یا نہیں۔ محض یہ کہنا کہ ہماری دوستی شہد سے میٹھی ہے اِس سے تو کام نہیں بنتا۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ چین نے ترقی کیسے کی، چین کے حکمرانوں نے چینی قوم کی تقدیر کیسے بدلی اور کمیونسٹ پارٹی کا رول کیا رہا ہے۔ چین ایک آگے دیکھنے والا معاشرہ ہے، جسے انگریزی میں کہتے ہیں progressive۔ ہم قدامت پسندی کے مارے لوگ ہیں۔ خیالات ہمارے فرسودہ ہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو کسی تبدیلی کے قابل نہیں رکھا۔ پرانے طور طریقے ہیں اور اُنہیں تبدیل کرنے کے لیے ہم تیار نہیں۔ نہ کوئی لیڈرشپ ہے جو قوم کو جھنجھوڑ سکے۔ انقلاب سے پہلے چینی قوم کو افیون زدہ معاشرہ کہا جاتا تھا۔ افیون کا استعمال عام تھا۔ مرد لوگ بھی لمبی گُتیں پہن کے پھرا کرتے تھے۔ انگریزوں سے لے کر جاپانیوں تک نے چینی قوم کو دبایا، اُن پہ جنگیں مسلط کیں اور چینی قوم کی رسوائی کا سامان پیدا کیا۔ چینی انقلاب سے سو سال پہلے کے زمانے کو بے عزتی کی صدی کہا جاتا ہے۔ اِس صورت حال کو تبدیل کیا تو چینی انقلاب اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے۔
ہم عجیب مسخرے ہیں۔ لاہور سے مریدکے جانا ہو تو اُسے لانگ مارچ کہہ دیتے ہیں۔ کوئی سیاسی پارٹی سو دو سو بسوں‘ ٹرکوں کا جلوس تیار کر لے تو اُسے لانگ مارچ کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ لانگ مارچ کی تاریخ کو پڑھنے کی کوئی زحمت تو کر لے۔ مخالف فوجوں کے ہاتھوں تباہی سے بچنے کے لیے کمیونسٹ فوج نے جنوب سے شمال نو ہزار کلومیٹر کا سفر تقریباً ایک سال میں طے کیا۔ راستے میں چینی سرزمین کے دشوار ترین علاقوں سے گزرنا پڑا۔ بے پناہ تکالیف کمیونسٹوں کو سہنی پڑیں۔ اپنی دوسری بیوی سے چیئرمین ماؤ کے دو بچوں کو راستے میں چھوڑنا پڑا۔ بچے کسی غریب کسان خاندان کے حوالے کئے گئے اِس امید سے کہ مصیبتوں کے بعد بچے واپس مل جائیں گے۔ لانگ مارچ کے اختتام پہ بچوں کو ڈھونڈنے کی بڑی کوشش کی گئی لیکن وہ نہ ملے۔ تاریخ میں لکھا ہوا ہے کہ دوران مارچ حالات اِتنے خراب تھے کہ بھوک کے مارے کمیونسٹ سپاہی راہ میں پڑی جانوروں کی گندگی سے دانے چن چن کے منہ میں ڈال لیتے۔ چینی انقلاب کامیاب ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے چیئرمین ماؤ کی قیادت میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے تبدیلی کے سفر کا آغاز کر دیا۔ پرانے طور طریقے ختم کئے، جن کو ضروری سمجھا گولی سے اُڑا دیا گیا۔ جسے ہم اشرافیہ کہتے ہیں اُس کا خاتمہ کیا گیا‘ لیکن چھوڑیئے اِن باتوں کو۔ چینی قوم میں جو تبدیلی لائی گئی اُس تبدیلی کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ جدوجہد ہمارے تصورات سے باہر ہے۔
جسے افیونی قوم کہا جاتا تھا وہ آج محنتی قوم بن چکی ہے۔ ہر شعبے میں اُس کا مقابلہ امریکہ سے ہے اور امریکی ڈر رہے ہیں کہ چین اُن سے آگے نہ بڑھ جائے‘ لیکن جہاں چینی قوم محنت کرتی ہے وہاں محنت کے اوقات کے بعد مزے بھی کرتی ہے۔ یہی حال مغربی قوموں کا ہے، دن بھر سخت محنت اور شاموں کو شغل میلہ۔ ہمارا عجیب مخمصہ ہے۔ نہ محنت نہ صحیح طریقے سے موج میلہ۔ سال دو سال پہلے میرا اتفاق ہانگ کانگ جانے کا ہوا۔ چکوالی دوست مجھے ایک دن ہانگ کانگ بارڈر کے پار چائنہ کے شہر شینزَن لے گئے۔ رات وہاں ٹھہرے۔ دوست ہمارے پہلے ایک جگہ لے گئے جہاں خوب چہل پہل تھی، رنگینی بھی رعنائی بھی۔ رات ہم سستے سے ہوٹل میں رہے، صبح ایک مسلم ریسٹورنٹ میں ناشتہ کیا‘ پھر ٹرین پکڑی اور واپس ہانگ کانگ آ گئے۔ جس جگہ ہم نے شام گزاری وہ کوئی اِتنی بڑی جگہ نہ تھی لیکن جو کچھ وہاں میسر تھا وہ سہولتیں آپ کو پاکستان میں ڈھونڈے نہ ملے۔ ہم تو پرلے درجے کے منافق بن چکے ہیں۔ خواہشات وہی جو ہر انسان کی ہوتی ہیں لیکن ہر جگہ پہ دروازہ اور اُن دروازوں پہ تالے۔ جو کچھ ہم نے کرنا ہوتا ہے چھپ چھپا کے کرتے ہیں، وہ نہ دیکھ لے، پولیس نہ آ جائے وغیرہ وغیرہ۔
جنرل مشرف کے زمانے میں چائنہ کے کچھ لوگوں نے اسلام آباد میں صحت کدے بنانے شروع کئے۔ جو چیز ہم نہ کر سکتے تھے‘ کیونکہ اِتنی ہمت نہ تھی‘ وہ راستہ اُنہوں نے دکھایا لیکن تب مشرف حکومت ڈانواں ڈول ہونے لگی تھی اور وکلا تحریک کے ساتھ ساتھ لال مسجد والوں نے بھی اپنا جھنڈا لہرا رکھا تھا۔ لمبے لمبے ڈنڈوں سے لیس برقعہ پوش خواتین نے اِن صحت کدوں پہ دھاوا بول دیا اور نعرۂ پارسائی بلند کیا۔ اسلام آباد کے وہ مراکز وہیں ختم ہو گئے۔ اب سنا ہے پھر سے رونما ہو رہے ہیں لیکن سارا کام چوری چھپے، مجرموں کی طرح، جیسے کوئی بہت بڑی واردات ڈالی جا رہی ہو۔ یہ اچھا ہوا ہے کہ اِس ضمن میں لاہور کچھ آزاد ہو چکا ہے۔
چینی باشندوں کی تعداد پاکستان میں دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے۔ کنسٹرکشن پروجیکٹ جاری ہیں اور سی پیک کے تحت بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔ بڑی سڑکیں ہم سے تو بنتی نہیں چینی بنا رہے ہیں۔ انویسٹمنٹ وہ لا رہے ہیں گو اُن کو شکایت ہے کہ سی پیک پروجیکٹوںکے حوالے سے پاکستان سست روی کا شکار ہو رہا ہے۔ بہرحال ڈیم ہوں یا ریلوے لائنیں وہ سب چین کی امداد کے مرہون منت ہیں۔ اِس صورت حال میں قدرتی امر ہے کہ پہلے سے زیادہ چینی اب پاکستان میں دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن مسئلہ کلچر کا ہے۔ جو طرزِ زندگی چینی باشندے اپنے ملک میں اپنا سکتے ہیں یہاں اُنہیں پرابلم ہے کیونکہ بے جا قدغنوں اور فضول کی پردہ داری کے ہم قائل ہیں۔ بہرحال نظریۂ ضرورت کے تحت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے چینی کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہی سمجھی جانی چاہئے کہ پاکستان کے جنوب میں جَو کے ایک کارخانے میں پروڈکشن شروع ہو چکی ہے اور اُس میں جَو کا تیار شدہ پانی کچھ جگہوں پر دستیاب بھی ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ بھی اِس بات پر متفق ہوں گے کہ جَو کا پانی صحت کے لیے مفید ہے اور جسم میں ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔
ہم حکیم تو نہ ٹھہرے لیکن لاہور میں جس جگہ ہمارا قیام ہوتا ہے وہاں اِس نادر چینی پروڈکٹ کے مشاہدے کا موقع ملا ہے۔ داد دینی چاہئے بنانے والوں کو۔ اپنے دوست اسفن یار بھنڈارا سے التماس ہے کہ اِس پروڈکٹ سے کچھ سیکھیں، بہت عمدہ ہے۔