وعظ و نصیحت کرنے والوں کے سپرد یہ ملک رہا اور جو ملک کا حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ نعروں سے کام چلتا تو ہم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑے ہوتے لیکن صد افسوس کہ ایک تو نعرے کھوکھلے تھے اور کھوکھلے نہ بھی ہوتے تو محض نعروں نے کیا کام آنا تھا۔ قوم کا المیہ البتہ یہ ہے کہ گناہ گاروں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اُن کی بات نہیں سنی جاتی۔ کمر توڑ مہنگائی تو ہے لیکن اس ماحول میں بھی کچھ آسانیاں پیدا کی جا سکتی تھیں۔ فیصلہ ساز ملک کو برباد کئے جا رہے ہیں لیکن اُن سے آسانیاں پیدا کرنے کا کہیں تو لاحول ولاقوۃ کہنا شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستانی قوم دبئی کے بارے میں ہی کچھ سن اور پڑھ لے۔ وہاں قانون میں ایسی آسانیاں پیدا کردی گئی ہیں جن کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ قانون میں تبدیلیاں ایسی ہیں کہ اُن کا ذکر بھی یہاں محال ہے۔ یعنی پاکستانی کان اتنے نازک مزاج ہو چکے ہیں کہ سچ بات کہنی بھی مشکل ہو گئی ہے۔ مخمصہ دیکھئے، ایک مسلمان ملک کی بات ہو رہی ہے اور ایک ایسا ملک جس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے ہمیں شرم نہیں آتی لیکن قانون میں وہاں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں شادی بیاہ کے بارے میں اور بچوں کی وراثت کے بارے میں ہم کسی اردو اخبار میں بیان نہیں کرسکتے۔ انگریزی میں کئی چیزیں چل جاتی ہیں وہ اس لیے کہ نعرے لگانے والے اور سنگ زنی کرنے والے عموماً انگریزی سے دور رہتے ہیں‘ لیکن موضوع ذرا نازک ہو تو جو بات کرنے کا مزہ اپنی زبان میں آتا ہے انگریزی میں نہیں۔ وہی بات پنجابی میں کریں تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ بہرحال لغت اور گرائمر کی باتیں چھوڑتے ہیں، ان میں کیا رکھا ہے۔ بات ہو رہی تھی کہ پرہیز گاروں نے اس ملک کا کیا حشرکرڈالا ہے ۔ایک بات واضح ہونی چاہئے کہ لوٹ مار کرنے سے ہم پاکستانیوں کی پرہیزگاری پہ کوئی حرف نہیں آتا۔ ہماری پرہیزگاری وہ ہے جو اوپر سے ہے۔ اندر سے ہم جو مرضی کرتے رہیں بس ظاہر ہمارا ٹھیک اور اُجلا ہونا چاہئے۔ پاکستان میں یہی کافی ہے۔ یعنی آپ جائیدادیں بنائیں ، باہر کے ملکوں میں بنگلے خریدیں ، یہاں زمین کے کاروبار میں یا شوگر ملوں کے حساب میں لوٹ مار مچائی ہو‘ ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا بشرطیکہ نصیحت کرنا آپ کا پسندیدہ مشغلہ ہو۔ ایسے میں جو سکہ بند گناہگار ہیں اور طرح طرح کی گناہگاری سے اجتناب نہیں کرسکتے وہ کیا کریں؟
کمرتوڑ مہنگائی محض محاورہ نہیں رہا ، واقعی مہنگائی نے ہرچیز کی کمرتوڑ دی ہے۔روپے کی عصمت تومکمل طور پہ جا چکی ہے۔اب روپے کو ہاتھ لگانے سے شرم آتی ہے۔لیکن حیرانی کی بات ہے کہ ملک میں جو چند ایک فیکٹریاں آبِ جو بنانے میں مصروف ہیں اُن کے نرخ نہیں بڑھے۔دوا ساز ہوں ، شوگر مل والے ہوں ، اوپر سے لے کر نیچے تک پورے کا پورا دکان دار طبقہ ، ان سب نے آگ لگائی ہو ئی ہے۔ہاتھوں میں چھری نیت میں فتور، سب پاکستانی عوام کی قربانی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ ہاتھ ہولا رکھ رہے ہیں تو آبِ جو بنانے والے ۔ میرا مطلب غلط نہ لیا جائے۔ آب ِ جو جب کہہ رہا ہوں تو ذومعنی بات نہیں کررہا۔ آبِ جو کا مطلب ہے مالٹ کی بنائی ہوئی چیزیں ۔ دکانوں میں ملیں گی ، موٹروے پہ ملیں گی ۔ صحت کے لحاظ سے مالٹ کی چیزیں دیگر سافٹ ڈرنکس سے ہزار درجے بہتر ہیں۔لہٰذا جب لفظ آبِ جو کا استعمال ہو رہا ہے توذہن کہیں اور نہ بھٹکیں ۔ یہ تنبیہ ضروری ہے کیونکہ قوم کا حال یہ ہوچکا ہے کہ بات کچھ کریں مطلب کچھ اور لے لیا جاتا ہے۔ تو یہ کہہ رہا تھا کہ پورے دیس میں صرف ایک چیز ہے جس کے نرخ نہیں بڑھے۔ لہٰذا منصف مزاج ہی فیصلہ کریں کہ پرہیزگاروں کا کردار بہتر ہے یا گناہگاروں کا؟ جب عروسی ٔشب کا سامان منگواتے ہیں تو یقین مانئے کہ لانے والے کو کچھ زیادہ پیسے نہیں دینے پڑتے۔معقول رقم میں اچھا خاصا انتظام ہو جاتا ہے۔
پرابلم یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو کس زبان میں کچھ سمجھایا جائے۔زبان آپ جو بھی استعمال کریں جب قوم اور اُس کے فیصلہ سازوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ کچھ نہیں سمجھنا وہاں الفاظ بے معنی ہو جاتے ہیں۔دبئی کی معیشت کو فروغ کیسے ملا ؟دبئی والوں نے دو چیزیں کیں ۔ انہوں نے باہر کے پیسے کو ویلکم کیا اور باہر کے پیسے کیلئے آسانیاں پیدا کیں۔دوئم ، دبئی والوں نے باہر کے لوگوں‘ جنہیں ہم ٹورسٹ کہتے ہیں‘ کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔اُنہوں نے قومی نظم و نسق سخت رکھا۔باہر کی دنیا کو بتایا کہ یہ ہمارا قاعدہ قانون ہے۔اِس کو آپ توڑ نہیں سکتے لیکن قاعدہ قانون کے دائرے کے اندر آپ ہرچیز کرسکتے ہیں بشرطیکہ آپ شور نہ مچائیں اور سڑکوں پہ ناچ گانا نہ کریں۔اس پالیسی کے تحت دیکھ لیں دبئی کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی ویژن تھی کہ کراچی کو دبئی نما بنایا جائے۔ وہ چاہتے تھے کہ سیروتفریح کی خاطر عرب پیسہ پاکستان آئے۔ اُن کی یہ بھی پلاننگ تھی کہ کراچی میں کیسینو وغیرہ بن جائیں تاکہ ہمارے عرب بھائی یہاں آ کے اپنا پیسہ اُڑائیں‘لیکن 1977ء کا کیا منحوس سال پاکستان کی تقدیر میں اُترا ، بھٹو اقتدار سے محروم ہوئے اور اُن کا ویژن بحیرہ عرب میں کہیں بہہ گیا۔ تین چیزوں نے پاکستان کا بیڑہ غرق کیا ہے : 1965ء کی جنگ ، 1977ء کے ہنگامے اور اُن ہنگاموں پہ محیط مارشل لاء ، اور افغان جہاد۔ان تین المیوں کے اثرات سے پاکستان نکل نہیں سکا۔
نتیجتاً جو رجعت پسندی کا ماحول پیدا ہو ا اُس میں گناہگاروں کی کس نے سننی تھی؟ہم لاکھ کہیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے اب تو سنبھل جائیے ، ایسی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔خوش قسمت لوگ پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں کیا پروا کہ عام آدمی کیلئے آسانیاں ہیں یا نہیں۔ وہ اپنی آسانیوں کیلئے باہر چلے جاتے ہیں ۔ جو پیسہ یہاں خرچ ہونا چاہئے وہ دبئی میں لگ جاتا ہے نہیں تو بنکاک یا ان سے ملتی جلتی جگہوں پہ۔ جو آتا ہے قوم کو نصیحت کا چمچہ پلا دیتا ہے۔ یہ آئے ہیں ان کی تباہی بھی ہمارے سامنے ہے اور نصیحتیں بھی۔لیکن ان پہ کیا بات کرنا ؟ وقت کا ضیاع ہے ۔
مہنگائی کا ذکر ہو رہا تھا تو اب حالت یہ ہے کہ جن کا کام فروغِ ثقافت ہے اور جن سے ظاہر ہے ہماری پرانی راہ ورسم رہی ہے وہ بھی مہنگائی کا حوالہ دے کے کہتے ہیں کہ اجی حالات نہیں دیکھتے کچھ تو کنجوسی کم کیجئے۔پٹرول کا توہم نے پوچھنا چھوڑدیا ہے۔ ٹینکی بھرتی ہے تو کریڈٹ کارڈ تھما دیتے ہیں اور پوچھتے تک نہیں کہ کتنے کا پٹرول ٹینکی میں گیا ہے۔مہینے کے بعد جب کریڈٹ کارڈکے پیسے واپس کرنے کا وقت آتا ہے تو ایک ہی دفعہ سر تھام لیتے ہیں۔ پھرعروسیٔ شب کے وقت غم ویسے ہی بھول جاتے ہیں۔ اس سارے تذکرے کا نچوڑ کیا نکلا؟کہ پورے ملک میں ایک ہی محدود ساطبقہ ہے جو قناعت کے اصول پہ قائم ہے ۔ طبقہ وہ جس کا ذکر ہوچکا ہے۔ تکیہ پھر پرہیزگاروں پہ ہو یا گناہگاروں پہ؟