اِس بار حسینۂ عالم کا تاج ایک پنجابن کے نصیب میں آیا ہے۔ جی ہاں مس یونیورس کا اعزاز چندی گڑھ کی رہنے والی مِس ہرناز کور سندھو کو ملا ہے۔ جیسا کہ اہلِ نظر جانتے ہیں حسینۂ عالم کا مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے اور اِس میں سے کسی کا چناؤ ہونا آسان بات نہیں۔ یہ تیسری ہندوستانی ہیں جو اِس اعزاز سے نوازی گئی ہیں۔ اِن سے پہلے ایشوریا رائے اور سشمتا سین یہ اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔
زیادہ دل چسپی اِس مقابلے میں ہم نے کبھی نہیں لی لیکن چونکہ اِس بار ایک پنجابی مٹیار کے حصے میں یہ اعزاز آیا تو یو ٹیوب پہ گئے یہ دیکھنے کے لیے کہ اِتنے سخت مقابلے میں مس سندھو میں وہ کون سی خوبیاں دیکھی گئیں جن کی وجہ سے اُن کی تاج پوشی ممکن ہوئی۔ ایک جھلک محترمہ کی دیکھی تو دل قائل ہو گیا کہ ہم بھی جج ہوتے (لیکن ایسی خوش قسمتی ہماری کہاں) تو ہمارا ووٹ بھی ہرناز کور کے پلڑے میں جاتا۔ نہایت ہی خوبصورت دوشیزہ ہیں، اکیس سال عمر ہے، آئی ٹی میں ڈگری حاصل کر چکی ہیں اور پبلک ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ایک دو فلموں میں کام کر چکی ہیں اور اِس اعزاز کے بعد تو یوں سمجھئے کہ بالی ووڈ میں ان کے راستے اور آسان ہو جائیں گے۔ یہ بتانا بھی شاید ضروری ہو کہ محترمہ کا قد پانچ فٹ نو انچ ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ دل کشی کے ساتھ ساتھ ہرناز کور بڑی ذہین بھی لگتی ہیں۔ یعنی بات صرف بیوٹی کی نہیں بلکہ بیوٹی اور دماغ دونوں کی ہے۔ اِس بات کا بھی اقرار کرنا ہو گا کہ اِن سے پہلے جو دو ہندوستانی دوشیزائیں یہ اعزاز جیت چکی ہیں وہ بھی بیوٹی اور دماغ کا مجسمہ تھیں۔
ذکر اِس تاج پوشی کا کیونکر؟ اِس لئے کہ اُس طرف کا پنجاب اور ہمارے والا پنجاب ایک ہی زمینی ٹکڑے کے دو حصے ہیں۔ سندھو یا دیگر جٹ برادریاں اگر وہاں پائی جاتی ہیں تو کثرت سے یہاں بھی آباد ہیں۔ ہم پنجابیوں کی شکل ایک جیسی ہے، رنگت بھی وہی۔ زبان ایک ہے۔ بہت حد تک ہماری تہذیبوں میں مماثلت پائی جاتی ہے‘ لیکن نمایاں فرق بھی ہے۔ اُس والے پنجاب میں وہ فضا موجود ہے جس کی وجہ سے ایک دوشیزہ حسینۂ عالم کے مقابلے میں حصہ لے سکتی ہے۔ یہاں ایسی کوئی جرأت دکھائی جائے تو بخوبی خیال کیا جا سکتا ہے کہ متوقع حسینۂ عالم کا کیا حشر ہو گا۔ مراد یہ نہیں کہ جس انداز میں وہاں ناچ گانا ہوتا ہے یہاں بھی ایسا ہی ہو‘ لیکن ایک بات تو بنتی ہے کہ ہم پاکستانیوں کو تھوڑی سی آنکھیں کھولنی چاہئیں یہ دیکھنے کے لیے کہ دنیا کہاں جا رہی ہے، کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
ہم نے اپنے اوپر ایک خول ڈال رکھا ہے یا ہم پر خول زبردستی ڈالا گیا ہے۔ چھوڑیے ذکر جنرل ضیاء الحق کا۔ اُن کو گئے کئی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ اگر اُنہوں نے کچھ کیا‘ کچھ اقدامات کئے تو وہ واپس بھی ہو سکتے تھے‘ لیکن ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا‘ لگتا یوں ہے کہ ہمارے دل و دماغ تبدیل ہو کر رہ گئے‘ یعنی پارسائی کے نام پر جو کچھ ہم سے کیا گیا اُس کے اثرات ہمارے روح اور جسم کا حصہ بن گئے‘ یعنی جو کچھ ہم پر ٹھونسا گیا ہم نے قبول کیا اور اُس کے خلاف کوئی بغاوت نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ رجعت پسند یعنی پیچھے دیکھنے والا بن چکا ہے۔ صرف ثقافت کے میدان میں نہیں بلکہ ہر چیز میں۔ آگے دیکھنے کی جرأت ہم سے چلی گئی ہے۔ جو اقتدار میں آتے ہیں اور جنہیں کوئی چھوٹی بڑی پوزیشن مل جاتی ہے وہ ہماری اصلاح پہ لگ جاتے ہیں۔ جو کام کرنے کے ہیں وہ نہیں ہوتے بس وعظ و نصیحت سے کام چلایا جاتا ہے۔ نتیجتاً قوم پارسائی سے نڈھال ہو چکی ہے۔
کچھ تو ہم پاکستانی دیکھ لیں کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ مجاہدینِ ملت کے لیے یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ سعودی عرب‘ جو رجعت پسندی کا سب سے مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا‘ ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہا ہے۔ وہاں نئی ہوائیں چل رہی ہیں۔ ایسی ایسی چیزیں وہاں رونما ہو رہی ہیں کہ اگر مفتیانِ ملت اُن کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو غش کھا جائیں۔ محافظانِ ملت نے شلپا شیٹھی کا نام سن رکھا ہے؟ خوبرو تو ہیں ہی کمال کی فنکارہ بھی ہیں۔ کچھ دن ہوئے اُنہوں نے مشہور بھارتی ایکٹر سلمان خان کے ساتھ ریاض میں پرفارم کیا۔ کیا رونق تھی، کیا موسیقی اور کیا پرفارمنس۔ جس جگہ یہ تقریب منعقد ہوئی وہ کھچا کھچ سعودی باشندوں سے بھری ہوئی تھی۔ شلپا شیٹھی کو ہم یہاں نہ بلائیں کہ عقیدہ کمزور پڑ جائے گا۔ شہزادہ محمد بن سلمان سے پہلے سعودی عرب میں بھی یہ نا قابل تصور تھا کہ اِس قسم کا کوئی میدان وہاں سج سکتا ہے‘ لیکن وہاں یہ سمجھ آ چکی ہے کہ دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو دنیا کے ساتھ قدم ملانے ہوں گے۔ سعودی عرب میں تو اب تبدیلی آ رہی ہے، دبئی میں تو کب سے وہاں کے حکمران ایک نیا معاشرہ اور ایک نئی صورت حال پیدا کر چکے ہیں۔ ابو ظہبی میں تیل ہے، دبئی میں نہیں ہے‘ لیکن دبئی نے اپنے آپ کو ایسا بنایا ہے کہ دنیا کا پیسہ وہاں آیا ہے۔ پوری دنیا کے لوگ دبئی کی سیر کرنے وہاں آتے ہیں۔ باہر کی دنیا کے دلوں میں کشش پیدا کرنے کے لیے دبئی نے اپنے آپ کو نئی بنیادوں پہ استوار کیا ہے۔ اگر ابو ظہبی کو پیسہ تیل سے ملا ہے تو دبئی کو پیسہ اپنی سوچ سے ملا ہے۔
ہم ہیں کہ پتا نہیں کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ نہ سوچ نہ عقل نہ آگے دیکھنے کی صلاحیت۔ جمہوریت جمہوریت کی رَٹ ہم نے لگا رکھی ہے۔ دبئی میں تو کوئی جمہوریت نہیں لیکن قانون کی حکمرانی ہے۔ قانون ہے تو سب کے لیے اور کوئی مائی کا لعل نہیں جو کھلم کھلا قانون سے انحراف کر سکے۔ جو فتنے ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں ایسے فتنوں کی کوشش تو وہاں کوئی کرے۔ ایسا سبق ملے گا کہ نسلیں یاد رکھیں۔ ہمارے ہاں جن کے پاس دولت یا اقتدار ہے اُن کے لیے کوئی قانون نہیں، وہ جو مرضی کریں۔
قوم اپنی آنکھیں کب کھولے گی؟ ہماری حرکات اور قومی صورت حال کو دیکھیں تو انسان اِسی نتیجے پہ پہنچے کہ خود تو قوم نے آنکھیں کھولنی نہیں‘ لیکن کسی اور کے پاس اِتنی فرصت کہاں کہ ہمارے لیے وہ یہ کام کرے۔ ہمارے اوپر چڑھے خول ہم خود اُتارنے سے تو رہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح منجمد معاشرہ ہے۔ ایسا معاشرہ جو حرکت کی سکت سے محروم ہو چکا ہو۔ اقبال کی شاعری کا ذرہ برابر اثر اِس معاشرے پہ نہیں ہوا۔ ایک اور اقبال کہاں سے پیدا ہو جو زمین پہ پڑے اِس گھوڑے کو ہلا سکے؟